Tafseer-e-Haqqani - An-Nahl : 15
وَ هُوَ الَّذِیْ سَخَّرَ الْبَحْرَ لِتَاْكُلُوْا مِنْهُ لَحْمًا طَرِیًّا وَّ تَسْتَخْرِجُوْا مِنْهُ حِلْیَةً تَلْبَسُوْنَهَا١ۚ وَ تَرَى الْفُلْكَ مَوَاخِرَ فِیْهِ وَ لِتَبْتَغُوْا مِنْ فَضْلِهٖ وَ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ
وَهُوَ : اور وہی الَّذِيْ : جو۔ جس سَخَّرَ : مسخر کیا الْبَحْرَ : دریا لِتَاْكُلُوْا : تاکہ تم کھؤ مِنْهُ : اس سے لَحْمًا : گوشت طَرِيًّا : تازہ وَّتَسْتَخْرِجُوْا : اور تم نکالو مِنْهُ : اس سے حِلْيَةً : زیور تَلْبَسُوْنَهَا : تم وہ پہنتے ہو وَتَرَى : اور تم دیکھتے ہو الْفُلْكَ : کشتی مَوَاخِرَ : پانی چیرنے والی فِيْهِ : اس میں وَلِتَبْتَغُوْا : اور تاکہ تلاش کرو مِنْ : سے فَضْلِهٖ : اس کا فضل وَلَعَلَّكُمْ : اور تاکہ تم تَشْكُرُوْنَ : شکر کرو
اور (وہی تو ہے کہ جس نے) زمین پر پہاڑوں کے بوجھ ڈال دیے تاکہ تم کو لے کر نہ ڈگمگائے اور تمہارے لیے نہریں اور رستے بنا دیے تاکہ تم راہ پائو
والقی فی الارض رواسی ان تمیدبکم الخ۔ المید الحرکۃ والا ضطراب یمینًا و شمالاً یقال مادمید میداً یعنی مید کے معنی ادھر ادھر ہلنے کے ہیں۔ اب عنصر خاک یعنی زمین کے حالات سے استدلال کرتا ہے کہ جس پر رہ کر یہ بنی آدم غرور کرتے ہیں اور بعض تو سرے سے خدا تعالیٰ کے ہی منکر ہیں اور بعض اس کے ساتھ اور معبود قرار دیتے ہیں۔ جمہور مفسرین کے نزدیک آیت کے یہ معنی ہیں کہ جس طرح خالی کشتی ادھر ادھر ہلا کرتی ہے اور جب اس میں کچھ بوجھ پتھر ڈال دیتے ہیں تو اس کے دباؤ سے نہیں ہلتی۔ یہی حال زمین کا تھا پھر جب خدا نے اس پر پہاڑوں کا بوجھ ڈال دیا تو ہلنے سے رک گئی۔ زمین ازتپ و لرزہ آمد ستوہ فرو کوفت بر دامنش میخ کوہ زمین پر پہاڑوں سے بوجھ ڈالنے پر اعتراض اور اس کا جواب : مگر اس تفسیر کے ظاہری معنی پر چند اعتراض ہوتے ہیں۔ اول یہ کہ جس طرح پانی اپنی جگہ پر میل طبعی کی وجہ سے ٹھہرا ہوا ہے تو زمین جو اس سے بھی ثقیل ہے بدرجہ اولیٰ اپنے حیز طبی پر ٹھہری ہوگی پھر اس کے ہلنے کے کیا معنی۔ کچھ وہ پانی پر کشتی کی طرح نہیں بلکہ پانی اس پر ہے اس کے اردگرد سمندر لپٹا ہے۔ دوم اگر باوجود اس جسامت اور ثقل کے زمین کی طبیعت میں سکون نہ تھا تو پہاڑ بھی تو زمین ہی کے جزو بدن ہیں جیسا کہ آدمی کے بدن پر پھوڑے اور پھنسیاں ابھر آتی ہیں ایسا ہی پہاڑوں کو سمجھ لو پھر پہاڑوں کی طبیعت میں سکون کہاں سے آگیا ؟ اور یہ بھی ثابت کرنا پڑے گا کہ پہاڑ بعد میں زمین پر رکھے گئے ہیں۔ اس اعتراض کو مخالفین نے بڑے شدومد کے ساتھ بیان کیا ہے۔ اس کا جواب بھی مفسرین نے خوب دیا ہے مگر کاتب الحروف کے نزدیک سرے سے اس آیت پر اور نیز اسی قسم کی دیگر آیات پر کوئی اعتراض ہی نہیں پڑتا کیونکہ صاف معنی یہ ہیں کہ خدا نے زمین پر رواسی بوجھ ڈالے یعنی اس کی طبیعت میں ثقل اور بھاری پن رکھا اور پہاڑ چونکہ اس کے اجزا میں سخت اور ثقیل تر اجزاء ہیں اس لیے یہ ثقل ان کی طرف منسوب کیا گیا اور ان کو زمین کی میخیں قرار دیا، ہوا کی طرح زمین کو خفیف نہیں بنایا جو ادنیٰ سے سبب سے حرکت کرنے لگتی اس لیے البتہ اس پر سکون مشکل ہے بلکہ زمین میں ثقل پیدا کیا جس سے وہ ہلتی نہیں۔ اس تقدیر پر اگر یہ مسئلہ بھی حکمائِ حال کا مان لیا جاوے کہ زمین حرکت کرتی ہے تب بھی کچھ اشکال وارد نہیں ہوتا کیونکہ اس کی یہ حرکت اینی یا وضعی جو کچھ ہو وہ نہیں کہ جس سے اس کے رہنے والے ہلنے لگیں اور پھر نادشوار ہوجاوے جیسا کہ اس کی کرویت بساط ہونے کے منافی نہیں۔ یہ کیا احسان باری ہے۔ وانہارًا وسبلاً و علامات یہ تین باتیں اور بیان فرماتا ہے جو اس کی قدرت کاملہ کی دلیل اور بندوں کے حق میں احسان عظیم ہے یعنی زمین پر نہریں جاری کیں جن سے آبادی ملک ہے اور رستے بھی پہاڑوں اور دروں میں اسی نے رکھے اور پہاڑوں اور ٹیلوں کی علامتیں کردیں اگر سب زمین یکساں ہوتی تو بڑی مشکل پڑجاتی۔ وبالنجم ھم یہتدون یعنی نہ صرف زمین ہی کی چیزیں ان کے لیے رستوں کی علامات ہیں بلکہ رات کو لق و دق بیابانوں میں ستاروں کی سیدھ میں قافلے چلتے ہیں۔ افمن الخ پھر جس نے یہ چیزیں بنائیں کیا وہ تمہارے بتوں کے برابر ہوگیا جو کچھ بھی نہیں بنا سکتے۔ ان سب کے بعد فرماتا ہے کہ میری اور بیشمار نعمتیں ہیں جن کو تم شمار نہیں کرسکتے، اس پر بھی تم ناشکر اور غیرمعبودوں کی طرف مائل ہو جس کی سزا میں یہ نعمتیں چھین لینا بجا تھا مگر اس پر بھی ہم بڑے غفور رحیم ہیں، درگزر ہی کرتے ہیں۔ 2 ؎ اس میں بحری تجارت اور سفر کی طرف اشارہ ہے۔
Top