Mafhoom-ul-Quran - Al-Muminoon : 22
ذٰلِكَ مِمَّاۤ اَوْحٰۤى اِلَیْكَ رَبُّكَ مِنَ الْحِكْمَةِ١ؕ وَ لَا تَجْعَلْ مَعَ اللّٰهِ اِلٰهًا اٰخَرَ فَتُلْقٰى فِیْ جَهَنَّمَ مَلُوْمًا مَّدْحُوْرًا
ذٰلِكَ : یہ مِمَّآ : اس سے جو اَوْحٰٓى : وحی کی اِلَيْكَ : تیری طرف رَبُّكَ : تیرا رب مِنَ الْحِكْمَةِ : حکمت سے وَلَا : اور نہ تَجْعَلْ : بنا مَعَ اللّٰهِ : اللہ کے ساتھ اِلٰهًا : معبود اٰخَرَ : کوئی اور فَتُلْقٰى : پھر تو ڈالدیا جائے فِيْ جَهَنَّمَ : جہنم میں مَلُوْمًا : ملامت زدہ مَّدْحُوْرًا : دھکیلا ہوا
اور ان پر اور کشتیوں پر سواری بھی کرتے ہو
وعلیھا وعلی الفلک تحملون 22 تحملون کے اندر سواری اور باربرداری دونوں چیزیں شامل ہیں اور اہل عرب کی زندگی چونکہ عام طور پر خانہ بدو کی تھی، موسموں کے ساتھ برابر ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوتے رہتے اس وجہ سے ان کے لئے یہ دونوں ہی مسئلے بڑی اہمیت رکھنے والے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی اس ضرورت کے لئے اونٹ پیدا کیا جو ان کے صحرا کا سفینہ ہے۔ چناچہ اس کا ذکر اور کشتی کا ذکر ساتھ ساتھ فرمایا کہ ہم نے تمہارے صحرا کے لئے بھی کشتی کا انتظام کیا اور سمندر کے لئے بھی۔ اصل حقیقت کی طرف اشارہ یہاں اصل حقیقت پر نگاہ رہے کہ مقصود ان چیزوں کے ذکر سے درس عبرت ہے کہ کیا جس رب نے ہماری ایک ایک ضرورت کا اس جز رسی کے اہتمام فرمایا ہے اس کے بارے میں یہ تصور کیا جاسکتا ہے کہ وہ ہم کو پیدا کر کے بالکل بےتعلق ہو کر بیٹھ رہا ہے ؟ کیا اس کی یہ ربوبیت ہمارے اوپر کوئی حق اور ذمہ داری عائد نہیں کرتی ؟ اور کیا اس کا لازمی تقاضا یہ نہیں ہے کہ وہ ایک ایسا دن لائے جس میں ان ذمہ داریوں سے متعلق ہم سے پرسش ہو جنہوں نے ان کا حق ادا کیا ہو وہ انعام پائیں، جنہوں نے اس دنیا کو ایک بازیچہ اطفال سمجھ کر ساری زندگی بطالت میں گزاری ہو وہ اس کی سزا بھگتیں ! ظاہر ہے کہ عقل و فطرت کی شہادت اسی دور سے پہلو کے حق میں ہے۔ جو لوگ کریم کے دروازے سے سب کچھ پا کر اس کا حق نہیں پہچانتے یا اس کے ماسوا دوسروں کے گن گاتے ہیں وہ نعیم اور ناشکرے ہیں اور لازم ہے کہ وہ اپنی اس ناشکری کا انجام دیکیں۔
Top