Tafseer-e-Haqqani - Al-Baqara : 42
وَ لَا تَلْبِسُوا الْحَقَّ بِالْبَاطِلِ وَ تَكْتُمُوا الْحَقَّ وَ اَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ
وَلَا تَلْبِسُوْا : اور نہ ملاؤ الْحَقَّ : حق بِالْبَاطِلِ : باطل سے وَتَكْتُمُوْا : اور ( نہ) چھپاؤ الْحَقَّ : حق وَ اَنْتُمْ : جبکہ تم تَعْلَمُوْنَ : جانتے ہو
اور سچ میں جھوٹ نہ ملایا کرو اور جان بوجھ کر حق کو نہ چھپائو
ترکیب : و حرف عطف برکلام سابق اذکروا لاتلبسوا الحق جملہ فعل فاعل و مفعول سے مرکب بالباطل متعلق ہے فعل مذکور سے وتکتموا فعل ضمیر انتم فاعل عطف ہے تلبسوا پر مجزوم ہے لانہی سے الحق اس کا مفعول وانتم تعلمون جملہ اسمیہ حال ہے۔ اقیموا الصلوۃ جملہ انشائیہ معطوف اور معطوف علیہ وآتوالزکوٰۃ معطوف اور معطوف علیہ وارکعوا معطوف اور مع الراکعین ظرف متعلق ہے۔ ارکعوا سے۔ تفسیر : جبکہ خدا تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو اصول ایمان اعنی نظریات سے مخاطب کیا اور ایمان لانے کا حکم دیا تو اس کے بعد عملیات کا بھی حکم دیا اور جو باتیں بری تھیں پیشتر ان سے منع کردیا۔ علمائِ یہود کا قدیم دستور اور جبلی عادت تھی کہ وہ کتب انبیاء میں کبھی عمداً کسی عقیدہ اور غرض ثابت کرنے کے لیے کچھ گھٹا بڑھا دیتے تھے اور حوادث میں جو کتابیں تلف ہوگئی تھیں یا ان میں کچھ نقصان واقع ہوتا تھا ان ہی کے نام سے اپنے طور پر تصنیف کرکے اس میں ملا دیتے تھے اور کبھی شرح کے طور پر کچھ اس میں لکھ دیتے تھے اور لطف یہ کہ متن اور شرح مزید اور مزید علیہ اور قدیم و جدید کتاب میں امتیاز کے لیے کوئی علامت اور نشانی بھی نہ کرتے تھے اور قوم بھر میں کوئی بھی اصلی کتابوں کا حافظ نہ ہوتا تھا نہ کوئی حفظ سنانے کا دستور تھا۔ اس پر کاغذ اور کتابت کی قلت سے نہ کوئی ایسا کتب خانہ تھا کہ جس میں کل دینی کتابیں محفوظ رہتی تھیں۔ نہ کوئی سوسائٹی تھی بلکہ ہر کاہن یا راہب کے پاس جو کچھ تھا سو تھا اس کو مقابلے سے کیا غرض ؟ چناچہ آج تک یہ بات مجموعہ عہد عتیق و جدید سے پائی جاتی ہے۔ محققین اہل کتاب اس کے مقر ہیں۔ پس ان وجوہ سے کتاب میں گھٹانا بڑھانا یا کچھ کا کچھ پڑھ دینا بالخصوص مقابلہ میں کسی دنیاوی غرض کے لیے ایک آسان سی بات تھی۔ جب تک آنحضرت (علیہ السلام) ظاہر نہ ہوئے تھے تو کتب انبیاء میں آپ کی بشارتیں دیکھ کر آپ کے آنے کے منتظر اور آپ کے محامد بیان کیا کرتے تھے۔ پھر جب آپ ظاہر ہوئے اور مدینہ میں تشریف لائے تو رشک خاندانی اور دیگر اغراض دنیویہ سے آپ سے حسد کرنے لگے اور ان بشارتوں کو الٹنے پلٹنے لگے اور کچھ کا کچھ کہنا شروع کردیا اور اپنے تقوے اور طہارت کے مسائل میں بھی تاویلات اور توجیہات کرکے ٹالنے لگے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ حق میں باطل اپنی طرف سے نہ ملایا کرو اور جان بوجھ کر حق نہ چھپایا کرو کیونکہ تمہاری گمراہی سے اور ہزاروں ان پڑھ گمراہ ہوتے ہیں اس کے بعد تقویٰ و طہارت کا حکم دیتا ہے کہ نماز کو اچھی طرح قائم کرو تاکہ تمہارے دل ملائم ہوں اور دلوں کی سیاہی دور ہو پھر خدا ترسی کرکے اپنے مال میں سے کوئی حصہ معین بھی فقراء غرباء کو دیا کرو۔ اس لیے پہلے نماز کا ذکر کیا، پھر زکوٰۃ کا اس میں بدنی اور مالی دونوں عبادتیں آگئیں اور اکیلے اپنے گھروں میں نماز پر بس نہ کرو، بلکہ خدا کی جماعت میں شامل ہو کر نماز پڑھو رکوع کرو تاکہ دین کی تمام برکات و انوار حاصل ہوں۔ متعلقات : فارکعوا : رکوع کے معنی جھکنا ہے چونکہ نماز کا یہ ایک جزو ہے تو کل کو بھی اس جزء کے ساتھ تعبیر کرتے ہیں اور کبھی سجدہ کے ساتھ اور یہاں اس جزء کے ساتھ تعبیر کرنے میں ایک نکتہ ہے۔ یہود کی نماز میں صرف رکوع ہے اس لیے بھی صرف ارکعوا فرمایا۔ زکوٰۃ کے معنی زیادہ ہونے اور بڑھنے کے ہیں، بولتے ہیں زکاء الزرع جب کھیتی بڑھتی ہے اور چونکہ خدا کے نام پر دینے سے مال میں برکت ہوتی ہے اور اس عمل کی تاثیر سے مال بڑھتا ہے اس لیے مال میں سے حصہ معین سال تمام پر دینے کو زکوٰۃ کہنے لگے۔ بعض کہتے ہیں کہ زکاء سے مشتق ہے جس کے معنی پاکی کے ہیں، چونکہ زکوٰۃ سے مال پاک ہوجاتا ہے اس لیے زکوٰۃ کہنے لگے اور اسی لیے ذبح کرنے سے نجس خون نکل جاتا ہے مذبوح جانور کو مزکی کہتے ہیں یہود میں جس طرح نماز فرض تھی اسی طرح زکوٰۃ بھی مگر ان کی نماز اور زکوٰۃ کا قاعدہ اور تھا۔
Top