Tafseer-e-Haqqani - Al-Anbiyaa : 33
وَ هُوَ الَّذِیْ خَلَقَ الَّیْلَ وَ النَّهَارَ وَ الشَّمْسَ وَ الْقَمَرَ١ؕ كُلٌّ فِیْ فَلَكٍ یَّسْبَحُوْنَ
وَهُوَ : اور وہ الَّذِيْ : جس نے خَلَقَ : پیدا کیا الَّيْلَ : رات وَالنَّهَارَ : اور دن وَالشَّمْسَ : اور سورج وَالْقَمَرَ : اور چاند كُلٌّ : سب فِيْ فَلَكٍ : دائرہ (مدار) میں يَّسْبَحُوْنَ : تیر رہے ہیں
اور وہی تو ہے کہ جس نے رات اور دن اور آفتاب اور چاند کو پیدا کیا جو ہر ایک (ایک ایک) آسمان میں تیرتا پھرتا ہے۔
(6) وھوالذی خلق الیل والنہار والشمس والقمر کل فی فلک یسبحون اس آیت میں ان چند نشانیوں کا ذکر کرتا ہے کہ جن سے وہ اعراض کرتے ہیں رات دن کا بہ تعاقب آنا علاوہ ان بیشمار فوائد کے جو انسان اور دیگر مخلوق کے لیے ہیں جیسا کہ رات میں سونا آرام کرنا ‘ دن میں روزی تلاش کرنا ‘ کاروبار کرنا ‘ پھلوں پھولوں کا نمودار ہونا ‘ اس کی قدرت کی بھی ایک دلیل واضح ہے۔ پھر آفتاب کے مختلف حرکات اور مختلف طور پر طلوع و غروب کرنے میں رات دن کے پیدا ہونے کے سوا ہزاروں فوائد ہیں اور یہ گویا اس دنیا کے گھر کا چراغ ہے اسی طرح ماہتاب کے حرکات اور مختلف طور پر طلوع و غروب بھی ان فوائد کی تکمیل ہے اور یہی حال دیگر ستاروں کا ہے۔ یہ رات کا چراغ ہے۔ چاند اور سورج کی اس چال کو جب ناظر آسمان کی طرف غور کر کے دیکھتا ہے تو گویا یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس نیلے رنگ کے دریا میں یہ دو مچھلیاں تیرتی پھرتی ہیں۔ ان کی اس چال کو تیرنے کے ساتھ بطور تشبیہ یا استعارہ کے بیان کیا۔ فائدہ : حکمائے قدیم کا ایک بڑا گروہ اس بات کا قائل ہے کہ سات آسمان ہیں اور آفتاب چوتھے آسمان میں ہے اور ماہتاب پہلے میں اور نیز ان کے حرکات فلک کے حرکات کے ساتھ ہیں پھر تدویر اور اس فلک کی وجہ سے کہ جس میں یہ تدویر ہے اور نیز فلک الافلاک کی وجہ سے مختلف حرکات پیدا کرتے ہیں اگر یہ حرکات مختلفہ نہ ہوتے تو کہیں ہمیشہ جاڑا رہتا کہیں سخت گرمی کہیں رطوبت کہیں سخت یبوست نظام عالم میں خلل واقع ہوجاتا ہے۔ ان کے نزدیک تو معنی ظاہر ہیں اور جمہور اہل اسلام بھی ان آیات و دیگر آیات سے ایسا ہی خیال رکھتے ہیں۔ مگر حکماء کا ایک فریق کہتا ہے کہ آفتاب اور ماہتاب کسی فلک میں جڑے ہوئے نہیں اپنے اپنے مدار پر بذات خود حرکت کرتے ہیں اور افلاک کوئی جسم دار چیز نہیں ؟ ہاں یہ جو نظر میں ایک نیلا گنبد سا نظر آتا ہے یہی عرف عام میں فلک گنا جاتا ہے خدا کی پاک کتابوں میں ایسے امور کی حقیقت سے کچھ بحث نہیں کہ وہ کیا ہے ؟ وہاں تو عرف عام کے لحاظ سے کلام ہوا کرتا ہے۔ پس اس تقدیر پر ہر ایک کا ایک فلک میں تیرنا حرکت کرنا بجز اس توجیہ کے درست نہیں ہوسکتا کہ فلک سے مراد ہر ایک کا مدار لیا جائے جیسا کہ ضحاک کا قول ہے۔
Top