Tafseer-e-Haqqani - Aal-i-Imraan : 100
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِنْ تُطِیْعُوْا فَرِیْقًا مِّنَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ یَرُدُّوْكُمْ بَعْدَ اِیْمَانِكُمْ كٰفِرِیْنَ
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ : وہ جو کہ اٰمَنُوْٓا : ایمان لائے اِنْ : اگر تُطِيْعُوْا : تم کہا مانو گے فَرِيْقًا : ایک گروہ مِّنَ : سے الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو اُوْتُوا الْكِتٰبَ : دی گئی کتاب يَرُدُّوْكُمْ : وہ پھیر دینگے تمہیں بَعْدَ : بعد اِيْمَانِكُمْ : تمہارے ایمان كٰفِرِيْنَ : حالت کفر
ایمان والو ! اگر تم اہل کتاب میں سے کسی گروہ کا بھی کہا مانو گے تو وہ تم کو ایمان لانے کے بعد کافر ہی بنا کر چھوڑیں گے
ترکیب : لم تکفرون سے متعلق ہے اسی طرح لم تصدون سے عن سبیل اللہ تصدون سے متعلق ہے من آمن تصدون کا مفعول تبغونہا کی ضمیر سبیل کی طرف راجع ہے کیونکہ یہ مذکر اور مونث ہے۔ عوجا حال ہے۔ تفسیر : جبکہ اہل کتاب کے اعتراضوں کا جواب دیا گیا اور دلائل تمام ہوچکے تو اب بطور نتیجہ کے ان کو فرماتا ہے کہ تم خدا کی آیات معجزات اور بشارات کا کہ جو اب تک پہلی کتابوں میں پائی جاتی ہیں کیوں انکار کرتے ہو اور ایسے لغو شبہات سے بشارات میں تاویل کرکے کس لئے ایمانداروں کو خدا کی راہ سے روکتے ہو اور کیوں دین حق میں عیب لگاتے ہو حالانکہ دل میں برحق جان رہے ہو تمہاری اس حیلہ بازی اور مکاری سے خدا غافل نہیں تم کو ضرور سزا دے گا۔ جب یہود مدینہ ہر طرح سے عاجز آگئے اور مسلمان ان کے دھوکے میں نہ آئے تو ایک اور تدبیر نکالی وہ یہ کہ مدینہ میں حضرت ﷺ کے تشریف لانے سے پہلے بنی اوس اور بنی خزرج دو قبیلوں میں ایک سو بیس برس سے باہم عداوت : مقام ابراہیم کی بابت علماء کا اختلاف ہے۔ ایک گروہ اس پتھر کو کہتا ہے کہ جس پر چڑھ کر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے کعبہ کی دیواریں چنی تھیں۔ وہ یادگار اب تک موجود ہے۔ دوسرا گروہ کہتا ہے کہ تمام حرم مقام ابراہیم ہے۔ یہاں ابراہیم (علیہ السلام) نے مقام کیا تھا۔ حقانی چلی آرہی تھی ٗ باہم لڑائیاں اور سخت خونریزیاں ہوا کرتی تھیں۔ حضرت ﷺ کی برکت سے ان میں ملاپ اور محبت ہوگئی اور اخوت اسلامی قائم ہوگئی۔ بعض یہودیوں نے ایک روز ان کی مجلس میں جا کر جاہلیت کی لڑائی کا ذکر چھیڑ کر پرانے زہر آلود وقائع یاد دلا دیے اور ہر ایک قوم کے دل میں پھر وہ حرارت جوش مارنے لگی۔ قریب تھا کہ پھر باہم تلوار چلے اتنے میں حضرت ﷺ کو خبر ہوئی۔ آپ نے ان کو سمجھایا اور پھر ہر ایک کو گلے ملا دیا جس کی طرف اس آیت میں اشارہ ہے کہ اے مسلمانو ! تم ان اہل کتاب میں سے اگر کسی کا بھی کہنا مانو گے یا ان کے اعتراض بیہودہ کی طرف متوجہ ہوگے تو تم کو وہ دین سے برگشتہ کردیں گے اور تعجب ہے کہ تم باوجود آیات الٰہی سننے کے اور رسول کی محبت پانے کے کفر اختیار کرو گے۔ سو تم کو لازم ہے کہ یقین کامل دل میں اور عقیدت خاص پیدا کرکے رحمت الٰہی کا دامن ہاتھ میں مضبوط تھام لو تاکہ سیدھے رستہ پر چلے جائو۔ ایک بزرگ سے کسی نے پوچھا کہ قوی ایمان کس کا ہے ؟ کہا غریب بڑھیوں کا کہ جن کا بلا دلیل خدا کی ذات پر ایمان کامل ہے۔ سو ایسے لوگ کسی کی اگر مگر میں نہیں آتے نہ شیطان کے وسوسہ توہمات میں مبتلا ہوتے ہیں۔ ان کی شمشیر یقین تمام شبہات و شکوک شیاطین کے ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالتی ہے۔ حقیقت میں یہ خوب ایمان ہے۔
Top