Tafseer-e-Haqqani - Yaseen : 83
فَسُبْحٰنَ الَّذِیْ بِیَدِهٖ مَلَكُوْتُ كُلِّ شَیْءٍ وَّ اِلَیْهِ تُرْجَعُوْنَ۠   ۧ
فَسُبْحٰنَ : سو پاک ہے الَّذِيْ : وہ جس بِيَدِهٖ : اس کے ہاتھ میں مَلَكُوْتُ : بادشاہت كُلِّ شَيْءٍ : ہر شے وَّاِلَيْهِ : اور اسی کی طرف تُرْجَعُوْنَ : تم لوٹ کر جاؤ گے
پس پاک ہے وہ ذات کہ جس کے ہاتھ میں ہر چیز کا کامل اختیار ہے اور اسی کے پاس پھر تم لائے جاؤ گے۔
اس تقریر سے معتزلہ اور کر امیہ کا خیال بھی باطل ہوگیا کہ معدوم کو بھی شے کہتے ہیں اور یہ کہ اس کا ارادہ حادث ہے۔ اس آیت میں اس نے اپنی بےانتہا قدرت کا ثبوت کردیا اور راسخ الاعتقاد اور سلیم الطبع کو کامل یقین دلایا اور دعویٰ کو دلیل کر دکھایا۔ اس لیے اس کے بعد اس بحث کے نتیجہ کو کس عمدہ پیرائے اور اسلوب سے بیان فرماتا ہے کہ جو اصل الاصول مطالب کو گھیرے ہوئے ہے۔ فقال فسبحان الذی بیدہ ملکوت کل شیئٍ والیہ ترجعون اور اس تمام سورة میں اصل الاصول تین ہی باتیں ہیں، توحید، اقرار رسالت اعتقاد حشر رسالت کو تو کئی مقام پر اس سورة میں ثابت کردیا ہے۔ ایک بار اول ہی میں فرمایا۔ والقرآن الحکیم انک لمن المرسلین اور اس کو سب سے اول اس لیے ذکر کیا کہ جب تک انسان رسولوں پر ایمان نہیں لاوے گا، اس کے کہنے سے حشر اور اس کے صفات کا کب قائل ہوگا، کس لیے کہ یہ باتیں تجربہ اور حس سے باہر ہیں اور براہین عقلیہ میں باہم تعارض ہوجاتا ہے اور وہم خلل اندازی کرتا ہے۔ ان باتوں کا کامل یقین تو اس کے فرستادہ یعنی رسول کے کہنے سے ہوسکتا ہے اور ایک بار اخیر رکوع میں ثابت کیا۔ بقولہ وما علمناہ الشعر الخ اب رہیں دو باتیں توحید اور حشر پر ایمان لانا سو اٰیۃ لہم سے شروع کرکے چند دلائل سے اس کو ثابت کردیا اور حشر کے مسئلہ کو اخیر میں بڑے زور سے ان کا انکار نقل کرکے وَضَرَبَ لَنَا مثلاً و نسی خلقہ قال من یحی العظام وھی رمیم ثابت کیا اور اخیر میں اس لیے کہ حشر بھی دنیا کا اخیر ہی ہوتا ہے اور اس بات کے اثبات میں اپنی قدرت غیر متناہی کے جتلانے کے لیے دلائل بیان کرتا چلا آتا ہے۔ اس لیے ختم کلام کے موقع پر ان دونوں باتوں کو نتیجہ کے طور پر ثابت کرتا ہے۔ فسبحان الذی بیدہ ملکوت کل شیء میں توحید کو ثابت کیا۔ اول تو لفظ سبحان ہی اس کی تنزیہ و تقدیس پر دلالت کرتا ہے کہ وہ شریک وسہیم و مثل و نظیر اور عجز و حدوث والد و مولود سب نقصان کی چیزوں سے پاک ہے نہ اس کو جورو کی حاجت ‘ نہ بیٹے کی ضرورت ‘ نہ کسی جسم میں حلول کرنے کی احتیاج نہ کسی مددگار کی پروا۔ کس لیے کہ بیدہ ملکوت کل شیئٍ اس کے ہاتھ میں یعنی قبضہ میں ہر شے کے حکومت ہے۔ یہ جملہ تنزیہ کے لیے بھی دلیل ہے اور آیندہ دوسری بات حشر برپا کرنے کے لیے بھی دلیل ہے، کیونکہ جب اس کے قبضہ میں ہر چیز کی حکومت ہے تو مر کر باردگر زندہ کرنے پر بھی وہ قادر ہے، اس لیے اس کے بعد والیہ ترجعون فرمایا کہ اسی کے پاس پھر جاؤ گے، یعنی حشر برپا ہوگا، مر کر زندہ ہو کے خدا تعالیٰ کے سامنے کھڑا ہونا ہوگا۔ اور الیہ جار کو مقدم کیا جس میں اشارہ ہے کہ اس کے پاس پھرجانا ہے نہ کہ کسی اور کے پاس کہ جس کو تم اس کے ساتھ شریک کرتے اور اس کی خدائی کا حصہ دار یا کار مختار سمجھتے ہو، اس پر اور لطف بھی ہے کہ ترجعون مضارع کا صیغہ استعمال ہوا، اس میں اشارہ ہے کہ حشر قائم ہونے کے بعد تو خدا کے پاس جانا ہی ہے۔ جیسا کہ معنی استقبال مضارع میں پائے جاتے ہیں۔ حال میں بھی تم اسی کے پاس چلے جارہے ہو، یہ عمر تمہارا ایک سفر ہی ہے جس قدر برس گزرتے ہیں یا جس قدر دن گزرتے ہیں۔ گویا تمہارے سفر کی اسی قدر منزلیں طے ہوتی ہیں۔ آخر ایک روز یہ سفر تمام ہوگا۔ موت آوے گی، کیا بلکہ سامنے کھڑی ہے۔ پس تمہاری روح کو اس کے سامنے جانا ہوگا، اب ہر وقت تم اسی کے پاس سفر طے کرکے جارہے ہو اور اس پر لطف یہ کہ مضارع مجہول کا صیغہ آیا تاکہ یہ معلوم ہو کہ تم ازخود نہیں بلکہ کوئی اور تم کو لیے جارہا ہے اور سچ بھی ہے کہ ہم بےاختیار منازل عمر طے کررہے ہیں، اسی بات کو کئی ایک جگہ قرآن مجید میں ذکر کیا ہے۔ فقال یا ایہا الانسان انک کا دح الی ربک کدحا فملا قیہ امام احمد (رح) نے روایت کیا ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا ہے۔ یٰسٓ قرآن مجید کا دل ہے جو کوئی اس کو خالصتاً لوجہ اللہ پڑھے گا، اس کو خدا بخش دے گا۔ اس کو دل اسی لیے کہا کہ اس سورة میں اعتقادیات ہی ہیں جو دل میں رہا کرتے ہیں یا یوں کہو قرآن مجید کے امہات المطالب یہی تین باتیں ہیں اور ان کے مہتمم یا محافظ یا فروع ہیں اور یہی باتیں لب لباب ہیں اور اعلیٰ تر ہیں اور عمدہ اور اعلیٰ چیز کو انسان کے دل سے تشبیہ دی جایا کرتی ہے کہ وہ بھی بدن میں سب سے عمدہ اور اعلیٰ اور سردار ہوتا ہے۔
Top