Tafseer-e-Haqqani - At-Tur : 29
فَذَكِّرْ فَمَاۤ اَنْتَ بِنِعْمَتِ رَبِّكَ بِكَاهِنٍ وَّ لَا مَجْنُوْنٍؕ
فَذَكِّرْ : پس نصیحت کیجیے فَمَآ اَنْتَ : پس نہیں آپ بِنِعْمَتِ : نعمت سے رَبِّكَ : اپنے رب کی بِكَاهِنٍ : کا ھن وَّلَا مَجْنُوْنٍ : اور نہ مجنون
سو نصیحت کئے جا کیونکہ رب کی عنایت سے نہ آپ کاہن ہیں نہ دیوانہ
ترکیب : بکاھن الخ خبر ما والباء زائدۃ بنعمت ربک حال من اسم ما اومن خبرھا والعامل کا ھن ای لست کا ھنا ولا مجنونا۔ متلبسا بنعمۃ ربک ای بانعامہ علیک ریب المنون المراد من الریب صروف الدھر و حوادثہ علی انھا شبھت بالریب ای الشک لانھا لاتدوم ولا تبقی فیکون استعارۃ تصریحیتہ المنون قال الاصمعی واحد فعول من امن وھوا لقطع فھو اسم للموت اوالدھر لانہ یقطع العددوینقص المدد، قال الفراء المنون واحد و جمع قال الاخفش جمع لا واحدلہ، التقول الافتراء والکذب ام ھھناو فی مابعد منقطعۃ بمعنی بل وقیل ام فی ھذہ الآیات للاستفہام مثل الھمزۃ والاستفہامات انکار علی الکفار علی ظنو ناتھم الفاسدۃ۔ تفسیر : دارِ آخرت کی کیفیت بیان فرماکر، پھر انہیں تینوں اصل الاصول مسائل کو مرکوز خاطر کرتا ہے اور کفار کے بدیہی البطلان خیالات کو جو ان اصول ثلاثہ کے برخلاف تھے۔ استفہام کے پیرایہ میں ذکر کرکے رد کرتا ہے۔ اول اصل مسئلہ نبوت خصوصاً نبوت محمد ﷺ ہے، جس کی بابت مخالفوں کو چند خیالات تھے۔ بعض آپ کو کاہن، بعض دیوانہ کہتے تھے۔ بعض شاعر کہتے تھے کہ جس طرح زہیر و نابغہ چند روز میں مرکھپ گئے، ذرا دیکھو یہ بھی اسی طرح مرمٹ جاوے گا، اس بات کو ان کانوا صادقین تک بیان کیا۔ پس فرماتا ہے۔ اے محمد ﷺ تو اس کی عنایت و کرم سے دیوانہ اور کاہن نہیں، اپنی نبوت و منصب نبوت کو پورا کیجئے، اس سے ایمانداروں کو نفع ہوتا ہے، ان سے کہہ دے تم انتظار کرو میں بھی کرتا ہوں، یہی میری صداقت کی دلیل ہے۔ اگر دین کی روز بروز ترقی و کامیابی ہوئی تو جانیو کہ نبی برحق ہے، چناچہ ایسا ہی ہوا اور دوسری بات یہ ہے کہ شاعری کا کسی پر خاتمہ نہیں، تم بھی تو انجام کلام پر قادر ہو۔ قرآن کی مثل بنا لائو، اگر سچے ہو بات یہ ہے کہ دل میں جانتے ہیں کہ نہ دیوانہ ہے نہ کاہن نہ شاعر بلکہ اپنی سرکشی سے ایمان نہیں لاتے۔ ام خلقوا من غیر شیء سے لے کر المصیطرون تک چار استفہاموں میں دوسرے اصل الاصول مسئلہ توحید کو ثابت کرتا ہے، مگر لطف یہ ہے کہ اسی کے ضمن میں تیسرے مسئلہ حشر کو اور پہلے مسئلہ نبوت کو بھی اس طرح سے ثابت کرتا ہے کہ گویا تینوں باہم مسلسل ہیں۔ پہلے استفہام میں فرماتا ہے کہ کیا وہ بغیر کسی کے پیدا ہوگئے ہیں ؟ یہ کلام بھی چند معانی کو شامل ہے کہ جو ان میں سے ایک ایک توحید یا حشر یا نبوت کو ثابت کررہی ہے۔ کیونکہ من غیر شیء کے یہ بھی معنی ہوسکتے ہیں کہ وہ بغیر مادہ کے پیدا ہوگئے ہیں ؟ حالانکہ اس کا ان کو اقرار تھا اور ہونا بھی چاہیے اور سب کو اقرار ہے کہ انسان قطرئہ منی سے بنایا گیا ہے۔ منی ایک گندی چیز ہے جس کو ذکر کرتے بھی عقلا مجالس میں شرم کرتے ہیں، اس لیے اس کو شیء کے لفظ سے تعبیر کیا، پس جیسا وہ یہ جانتے ہیں تو سمجھ لیں کہ ایک قطرہ میں سے کس نے بعض کو قلب اور بعض کو دماغ اور بعض کو جگر اور بعض کو ہڈی اور بعض کو پٹھا بنادیا اور پھر کس نے اس میں یہ کاریگری کی ہے ؟ اسی خدائے قادر مطلق نے کہ جس کا کوئی بھی شریک و مددگار نہیں۔ بس وہ قادر باردگر بھی اس کو پیدا کرسکتا ہے اور اس کے یہ بھی معنی ہوسکتے ہیں کہ کیا وہ من غیرہ شیء ـ کسی کام کے لیے نہیں بنائے گئے ہیں ؟ ہر عاقل انسان کی ترکیب میں غور کرکے کہہ سکتا ہے کہ ضرور یہ کسی کام کے لیے بنایا گیا ہے، یعنی اصلاح معاش و معاد کے لیے پھر جب یہ اس کے لیے بنایا گیا ہے اور معاد کے مسئلہ کی باریکیاں اور موت وحیات کے رموز بجز انبیاء کے حل نہیں ہوسکتے تو یہ بھی خیال کرلیں کہ ضرور اس خالق نے کوئی نبی عقدہ کشائی کے لیے بھیجا ہے اور بجز محمد ﷺ کے ان کی شان کا اس مشکل کشائی میں اور کون ہے ؟ اور اس کے یہ بھی معنی ہوسکتے ہیں کہ کیا وہ من غیر شیء بغیر کسی کے آپ ہی آپ بن گئے ہیں۔ جیسا کہ طبعین و دہریین کا خیال ہے۔ سو یہ بھی نہیں کس لیے کہ کوئی حادث بغیر محدث یعنی پیدا کرنے والے کے پیدا نہیں ہوسکتا۔ پس وہ محدث ایسا قادر و صانع خدا تعالیٰ کے سوا اور کون ہے ؟ دوسرے استفہام میں یہ بات بتاتا ہے کہ وہ بتائیں کوئی چیز اس عالم کی انہوں نے بھی پیدا کی ہے۔ ھم سے مراد تمام مخلوق بیشک خدا تعالیٰ کے سوا کسی نے کوئی چیز پیدا نہیں کی، ہاں پیدا کی ہوئی چیزوں میں ترکیب دے لیا کرتے ہیں۔ وہ بھی ہر جگہ نہیں۔ پس جب بجز اس کے کسی نے کوئی چیز نہیں بنائی تو کوئی اس کی خدائی میں بھی شریک نہیں، تیسرے استفہام میں اپنی ایک بڑی اور عجیب مخلوق پیدا کرنے کا حال پوچھتا ہے کہ اچھا بتاؤ آسمانوں یا کہو علویات سورج اور چاند اور ستارے اور زمین کو کس نے بنایا ؟ یہی کہیں گے کہ اسی نے۔ چوتھے استفہام میں اپنی قدرت کو بےانتہا خزانوں کا سوال کرتا ہے کہ وہ بتاؤ کس کے پاس ہیں ؟ اس میں مسئلہ نبوت کی طرف بھی اشارہ ہے کہ نبوت بھی اسی کے خزانہ کا ایک بیش بہا جوہر ہے جس کو چاہے عطا کرے، تمہارا اس میں کیا اختیار ہے جو اس نے محمد ﷺ کو عطاء کردیا۔ اس کے بعد علم غیب کے وسائل بیان کرتا ہے کہ بتاؤ تم میں سے کسی کے پاس سیڑھی ہے جو اس پر سے چڑھ کر آسمانوں پر جاتا ہے اور وہاں سے غیب کی باتیں لاتا ہے ؟ البتہ محمد ﷺ کو خدا کی طرف سے الہام وحی 1 ؎ کے ذریعہ سے غیب کی باتیں اور معاد و معاش کے رموز بتائے جاتے ہیں۔ یہ مسئلہ نبوت کے متعلق بات تھی، اس کے بعد اصول ثلٰثہ کے مخالف اعتقادات پر سرزنش کرتا ہے۔ توحید کے خلاف مشرکوں کا خیال تھا کہ فرشتے خدا کی بیٹیاں ہیں، اس لیے ہم ان کو وسیلہ سمجھ کر پوجتے ہیں۔ فقال ام لہ البنات الخ کہ تم کو تو بیٹے دیے جو اعلیٰ چیز ہے اور اپنے لیے بیٹیاں بنادے یہ ہوسکتا ہے ؟ نبوت کے خلاف میں نبی ( علیہ السلام) پر بدگمانیاں تھیں، اس پر فرماتا ہے۔ ام تسئلھم اجر الخ کہ تو ان سے کچھ مانگتا ہے کہ جس کا بار ان پر پڑتا ہے ؟ حضرت ﷺ کو جو وہ جھوٹا کہتے تھے، اس کی نسبت فرماتا ہے۔ ام عندھم الغیب کیا ان کے پاس غیب 2 ؎ کا دفتر ہے ؟ پھر ان کو کیونکہ معلوم ہوگیا کہ وہ جھوٹا ہے ؟ کیا وہ نبی سے داؤ کرنا چاہتے ہیں کہ ایسے اتہامات سے شان نبوت میں فرق ڈالیں، وہ اس بات میں خود ہی داؤ میں پھنسے ہوئے ہیں کہ اپنے لیے برائی پیدا کررہے ہیں، کیا کوئی اور معبود ہے۔ ہرگز نہیں۔ اس کے بعد ان کی شکی طبیعت کا حال اور نڈر ہونا بیان کرتا ہے کہ اگر آسمان کا کوئی ٹکڑا ان پر ٹوٹ کر آوے تو اس کو بادل کہیں گے، پھر آنحضرت ﷺ کو تسلی دیتا ہے کہ ان کو چھوڑ یہاں تک کہ یہ اپنے اس دن کو دیکھیں کہ جس میں ان کی ہلاکت ہے اور اے نبی تو صبر کر تو ہماری حمایت میں ہے اور اٹھتے بیٹھتے اور رات میں اور صبح میں تسبیح کیا کر۔
Top