Tafseer-e-Usmani - Az-Zukhruf : 47
وَ النَّجْمِ اِذَا هَوٰىۙ
وَالنَّجْمِ : قسم ہے تارے کی اِذَا هَوٰى : جب وہ گرا
قسم ہے ستارہ کی جبکہ جھکے۔
ترکیب : الواو للقسم اذا ھویٰ والعامل فی الظرف فعل القسم المحذوف ای اقسم بالنجم وقت ھو یہ وقیل النجم نزول القرآن فیکون العامل نفس النجم۔ ماضل الخ جواب القسم وماینطق الخ جملۃ مستانفۃ وقعت موقع الدلیل تقدیر الکلام کیف یضل ویغوی وھولا ینطق عن الہوی ان ھوای الذی ینطق بہ من القرآن۔ وحی موصوف یوٰحی صفۃ ترفع احتمال المجاز و تفید الاستمرار التجددی علمہ صفۃ للوحی ای علمہ ایاہ فاستوٰی عطف علی علمہ بطریق التفسیر فانہ الیٰ قولہ اوحٰی بیان لکیفیتہ التعلیم و ھو بالافق حال من فاعل استوٰی فکان مقدار ما بینھما قاب قوسین خبرکان نزلۃ منصوب علی الظرفیۃ لان النزلۃ علی وزن الفعلۃ اسم للمرۃ وقیل نصبھا علی المصدر تفسیرہ ولقدرآہ ناز لانزلۃ اخرٰی۔ اذ یغشٰی ظرف زمان لراہ لا لمابعدہ من الجملۃ المنفیۃ۔ تفسیر : یہ سورة بھی جمہور کے نزدیک مکیہ ہے۔ بعض کہتے ہیں مدینہ میں نازل ہوئی ہے، مگر یہ قول صحیح نہیں۔ بخاری و مسلم وغیرہما نے ابن مسعود ؓ سے نقل کیا ہے کہ سب سے پہلی سورة کہ جن میں سجدہ ہے۔ سورة نجم ہے۔ پس رسول اللہ ﷺ نے سجدہ کیا اور سب لوگوں نے سجدہ کیا مگر ایک شخص نے مٹھی میں مٹی لے کر اس پر سجدہ کیا۔ میں نے اس کے بعد اس کو دیکھا کہ وہ کفر کی حالت میں قتل کیا گیا اور وہ امیہ بن خلف تھا اور یہی احادیث سے ثابت ہے کہ اس سورة میں سجدہ ہے اور صحیح بخاری و ابودائود و ترمذی و نسائی و طبرانی و طیالسی و ابن ابی شیبہ اور ابن مردویہ نے زید بن ثابت ؓ سے نقل کیا ہے کہ میں نے یہ سورة نبی ﷺ کے سامنے پڑھی، پس سجدہ نہ کیا۔ ابن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ نبی ﷺ سورة نجم میں مکہ میں تو سجدہ کیا کرتے تھے اور جب ہجرت کرکے مدینہ پہنچے تو ترک کردیا، اسی لیے امام شافعی و احمد ; فرماتے ہیں کہ سورة کے اخیر میں جو فاسجدواللہ واعبدو آیا ہے۔ وہاں سجدہ کرنا واجب نہیں۔ ہاں جو کوئی کرے تو بہتر ہے مگر پہلی روایات کے لحاظ سے امام ابوحنیفہ و سفیان ثوری وغیر ہما علماء (رح) فرماتے ہیں کہ سجدہ کرنا واجب ہے۔ اس آیت کے پڑھنے والے پر بھی اور سننے والے پر بھی اور یہی قوی ہے۔ سورة طور کے اخیر میں فرمایا تھا کہ ستاروں کے ڈوبنے کے بعد بھی اے محمد ﷺ ! اللہ کی تسبیح وتحمید کیا کرو۔ اب اس سورة کے اول ہی میں ان ڈوبتے ہوئے ستاروں کی قسم کھاکر خدا تعالیٰ کی عزت و عظمت پر گواہی دیتے ہیں، یہ بات بتلاتا ہے کہ محمد ﷺ گمراہ اور بہکے ہوئے نہیں ہیں، جیسا کہ اے کفار ! تم کہتے ہو یہ مناسبت ہے۔ اس سورة کو اس سے پہلے سورة سے۔ جن سورتوں کے شروع میں خدا تعالیٰ نے حرفوں کے سوا اور چیزوں کی قسم کھائی ہے، وہ چار سورتیں ہیں۔ اول والصافات ‘ دوم والذاریات، سوم والطور ‘ چہارم والنجم، پہلی میں قسم کھاکر وحدانیت ثابت کی ہے۔ جیسا کہ فرمایا ان الہکم لواحد دوسری میں جزاء و حشر کا کو واقع ہونا ثابت کیا ہے، چناچہ فرمایا۔ انما تو عدون لصادق وان الدین لواقع تیسری میں عذاب کا واقع ہونا کسی کے ٹلانے سے اس کا نہ ٹلنا جیسا کہ فرمایا۔ ان عذاب ربک لواقع مالہ من دافع اس سورة میں قسم کھاکر آنحضرت ﷺ کی نبوت ثابت کی، جیسا کہ فرمایا۔ ماضل صاحبکم وماغویٰ الخ تاکہ تینوں اصل الاصول مسائل توحید و حشر و نبوت کا کامل ثبوت ہوجائے اور حشر کے اثبات میں اس لیے قسمیں کھائیں کہ یہ مسئلہ صرف دلیل 1 ؎ نقلی سے ثابت ہوتا ہے۔ والنجم مفسرین کے نجم کے معنی میں کئی قول ہیں۔ جمہور کا قول ہے کہ اس سے مراد ستارہ ہے کوئی خاص ستارہ نہیں بلکہ جنس یعنی ہر ایک ستارہ اور بعض کہتے ہیں۔ ثریا 2 ؎ کیونکہ النجم بول کر یہی مراد ہوا کرتے ہیں۔ کلام عرب میں بعض کہتے ہیں شعری ستارہ بعض کہتے ہیں۔ زہرہ، خیر ایک ستارہ خاص ہو یا عام مگر ستارہ مراد لینا ایک قول ہے۔ دوسرا قول ہے کہ اس سے مراد زمین پر پھیلنے والی بیلیں ہیں، کیونکہ ایک جگہ آیا ہے۔ والنجم والشجر یسجدان یہ اخفش کا قول ہے۔ تیسرا قول یہ ہے کہ النجم سے مراد قرآن شریف کس لیے کہ تنجیم کے معنی ہیں، تفریق اور قرآن پارہ پارہ یعنی ٹکڑے ٹکڑے ہو کر نازل ہوا ہے۔ چوتھا قول یہ ہے کہ اس سے مراد آں حضرت ﷺ ہیں جن کو ظلمات عالم میں روشنی دینے کے سبب بطور استعارہ کے ستارہ کہنا بہت ہی ٹھیک ہے۔ اب نجم کے کوئی معنی لو مگر اذا ھویٰ (جبکہ جھکے) سے اسی کے مناسب معنی مراد لیے جائیں گے۔ ستاروں کا جھکنا طلوع غروب جو خدا کی شان جبروت بتلاتا ہے۔ زمین کی وہ بوٹیاں کہ جن کو درخت نہیں کہتے۔ ان کا جھکنا وہی جھکنا ہے جو ہوا سے سربسجود ہو کر اس کی شان یکتائی بتایا کرتی ہیں۔ ؎ سرومی جنبد بصحن بوستان در ہوائے قامت دلجوئے تو قرآن کا جھکنا اس کا اوپر سے نازل ہونا ہے۔ آنحضرت ﷺ کا جھکنا رکوع و سجود کرنا ہے جو خدائے تعالیٰ کے نزدیک ایک عمدہ حالت ہے اور آنحضرت ﷺ کا جھکنا ذات باری تعالیٰ کی طرف حضرت کا منازل قربت طے کرنا ہے۔ پانچویں معنی النجم کے بعض عرفاء کے نزدیک بندہ کا دل ہے جو ظلمات ہیولانیہ میں خدا تعالیٰ کا چمکتا ستارہ ہے اور جب وہ اللہ تعالیٰ کی طرف جھکتا ہے تو اس میں اور بھی روشنی آجاتی ہے جس سے وہ حق و باطل میں تمیز کرنے پر بخوبی قادر ہوجاتا ہے، اس لیے قسم کھاکر فرماتا ہے۔ ماضل صاحبکم وماغوٰی۔ صاحبکم سے مراد آں حضرت ﷺ ہیں اور جگہ بھی اس لفظ سے حضرت ﷺ کو تعبیر کیا گیا ہے۔ وما صاحبکم بمجنون صاحب صحبت رکھنے والا اس میں اس طرف اشارہ ہے کہ تم شب و روز حضرت ﷺ کے حالات سے بخوبی واقف ہو، کوئی اجنبی شخص نہیں، پھر کہو کیا وہ گمراہ اور بہکا ہوا ہے ؟ ہرگز نہیں۔ آنحضرت ﷺ جو توحید و مکارم اخلاق بیان فرماتے تھے، بت پرستی اور ناپاک باتوں سے منع کرتے تھے۔ کفار اپنی کجروی کو سیدھا رستہ جانتے تھے، اس لیے وہ الٹا حضرت ﷺ ہی کو گمراہ اور بہکا ہوا کہتے تھے اور یہ انسان کی جبلی عادت ہے، بعض کہتے ہیں۔ ضل وغوٰی دونوں لفظوں سے ایک بات مراد ہے۔ بعض کہتے ہیں دو باتیں ضلالت رستہ بھولنا اور غوایت عام ہے، بھولنا بھی اور رستہ کے چلنے میں بےقاعدگی و افراط وتفریط۔ فائدہ : بندہ اور خدا تعالیٰ میں جو حجابات حاجز ہیں، ان کا قطع کرنا اس کا رستہ طے کرنا ہے، جن کو تدلیات کہتے ہیں، اس رستہ میں بہت سے بھول گئے ہیں اور بہت سے غوایت میں پڑگئے ہیں، انسانی جذبات پر جن کو واقفیت ہے۔ وہ ہر روز اس بات کو معائنہ کرتے ہیں، مگر یہ دنیا کا ستارہ اور جہان کا آفتاب (محمد) اس رستہ میں بھولے نہ چوکے۔ اب ماضل و ما غویٰ کی وجہ بیان کرتا ہے۔ فقال وما ینطق عن الہوٰی کہ آپ اپنی خواہش سے بات نہیں کرتے بلکہ آپ کی زبان خدا کی زبان ہے، جو کچھ وہ بلواتا ہے وہی آپ بولتے ہیں۔ عارف کامل جب اپنے ارادات اور اپنی ہستی کو اس کی ہستی میں محو کردیتا ہے تو اب اس کا کلام اور اس کی حرکات و سکنات اسی کے حکم سے ہوتے ہیں۔ جب انسان مرجاتا ہے، اس کے اپنے حرکات و ارادات مفقود ہوجاتے ہیں تو اب جو کوئی اس کو ہلاتا جلاتا ہے وہ آپ نہیں ہلتا جلتا۔ کسی اور کا شمار ہوتا ہے، یعنی اس کی طرف منسوب ہوتا ہے جس نے ہلایا۔ صحیح بخاری میں ایک حدیث ہے کہ جب بندہ مجھ سے قریب ہوتا ہے تو میں اس کا ہاتھ ہوجاتا ہوں۔ مجھ سے پکڑتا ہے۔ الخ، دین کے بارے میں جو کچھ آپ فرماتے تھے اگر اس کے الفاظ بھی منجانب اللہ ہوتے تھے تو وہ وحی متلو ورنہ وحی غیر متلو ہوتی تھی۔ اول کو قرآن دوسرے کو سنت کہتے ہیں۔ جیسا کہ آپ ہی فرماتا ہے۔ ان ھو الاوحی یوحٰی، امام احمد نے روایت کی ہے کہ آپ فرماتے ہیں میں جو کچھ کہتا ہوں حق کہتا ہوں۔ اس کے بعد اس ناموس اکبر کا حال بیان فرماتا ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ کے پاس وحی لاتا ہے۔ فقال علمہ شدید القوٰی ذومرہ کہ اس کو یعنی محمد ﷺ کو اس نے تعلیم کیا ہے جو بڑا طاقت ور اور نہایت قوی ہے۔ یعنی جبرئیل امین جیسا کہ ایک جگہ آیا ہے۔ انہ لقول رسول کریم ذی قوۃ عند ذی العرش مکین مطاع ثم امین جبرئیل کی قوت وہ قوت مؤثرہ ہے کہ جہاں شیطان و جن و دگر صور خیالیہ کی گنجائش نہیں۔ یہ اوصاف ان کے اس لیے بیان فرمائے تاکہ اس کو کوئی جن و شیطان یا صورت خیالی نہ سمجھے، کیونکہ ان میں یہ اوصاف نہیں ہوتے۔ پھر اس جملہ کی تشریح کرتا ہے اور جبرئیل کے وحی لانے اور دوبارہ اپنی اصلی صورت میں نظر آنے کا حال بیان فرماتا ہے۔ فاستویٰ پس جبرئیل اپنے اس کام پر کہ جس کے لیے اللہ نے اس کو مقرر کیا ہے۔ تیار و آمادہ ہوئے۔ وھو بالافق الاعلٰی اُفق بضمتین و سکون کر انہ آفاق جمع (صراح) اُفق اعلیٰ آسمان کا کنارہ جو زمین سے ملا ہوا ایک بڑا گول دائرہ سا نظر آیا کرتا ہے، جہاں سے آفتاب طلوع و غروب ہوتا ہوا دکھائی دیتا ہے، یعنی جبرئیل آسمان کے کنارہ پر ایک بار محمد ﷺ کو نظر آئے۔ اپنی اصلی صورت میں ثم دنٰی فتدلٰی، پھر آنحضرت ﷺ کے یہاں تک قریب ہوتے گئے کہ فکان قاب قوسین 1 ؎ او ادنیٰ قاب اور قیب اور قاد اور قید قیس کے معنی مقدار کے ہیں۔ زمخشری کہتے ہیں۔ کمان اور نیزہ اور کوڑے اور گز اور ہاتھ کے ساتھ عرب میں اندازہ بیان کیا جاتا ہے کہ وہ کمان کے فاصلہ پر یا تیر کے یا ہاتھ کے فاصلہ پر ہے۔ قاب کمان کی موٹھ کو بھی کہتے ہیں۔ یہ معنی ہوئے کہ وہ دونوں اس قدر قریب ہوگئے کہ جس طرح دو کمانوں کو ملادینے سے ان کی موٹھ باہم مل جاتی ہے۔ کچھ فاصلہ نہیں رہتا۔ یہ قرب جسمانی کی طرف اشارہ ہے۔ او ادنٰی بلکہ اس سے بھی قریب ہوگئے، یعنی حضرت ﷺ کے قلب تک پہنچے۔ یہ روحانی قرب ہے۔ فاوحٰی الی عبدہ ما اوحٰی تب اللہ کے بندہ محمد ﷺ کی طرف جو چاہا وحی کیا۔ یہ ہے پیغمبر کی وحی بواسطہ ٔ جبرئیل، ماکذب الفؤاد ماراٰی محمد ﷺ کے دل نے جھوٹا نہیں سمجھا، جس کو دیکھا یعنی دل نے یقین کرلیا۔ افتمارونہ علٰی مایرٰی کیا تم اے کفار محمد ﷺ سے اس کی دیکھی ہوئی اور یقینی چیز پر جھگڑتے ہو ؟ یہ ایک بار ہی دیکھنا نہیں ہوا، بلکہ ولقد راہ نزلۃ اخرٰی عند سدرۃ المنتہٰی کہ محمد ﷺ نے جبرئیل کو شب معراج میں اس کی اصلی صورت پر سدرہ منتہٰی کے پاس بھی دوسری بار دیکھا ہے۔ سدرہ ایک درخت ہے۔ ساتویں آسمانوں کے اوپر اور منتہٰی جہاں تک بلندی کی انتہا ہے، کیونکہ اس کے اوپر عرش رحمان ہے اور سدرہ کو ڈھانک رکھا تھا۔ اس چیز 2 ؎ نے کہ ڈھانک رکھا تھا اور وہاں جنت الماویٰ ہے۔ ماز اغ البصر و ماطغٰی، حضرت کی آنکھ نے خطا نہیں کی کہ دراصل کچھ اور تھا اور نظر آیا کچھ اور بلکہ اصلی اور حقیقی حالت پر دیکھا۔ لقدر ای من آیات ربہ الکبرٰی اپنے رب کی بڑی بڑی نشانیاں دیکھیں۔ یہ تفسیر ہے جمہور علمائِ محدثین کے طور پر اور اسی کے اکثر اہل سنت والجماعت قائل ہیں اور یہی مذہب ہے ام المومنین حضرت عائشہ و ابن مسعود ابی ذر وابی ہریرہ کا ؓ اجمعین۔ ا ؎ او بمعنی اولووقیل بمعنی بل۔ 12 منہ 2 ؎ انوار و تجلیات نے۔ 12 منہ 1 ؎ برخلاد توحید و نبوت کے کیونکہ توحید پر بیشمار دلائل عقلیہ موجود ہیں اور نبوت کے لیے معجزات اور نبی کا باطنی اثر بھی ثابت کرتا ہے۔ 12 منہ 2 ؎ آپ نے صبح کو مشرق کی طرف دیکھا ہوگا کہ ستاروں کا ایک گچھا سا معلوم ہوا کرتا ہے اسی کا نام ثریا ہے وہ ایسا ہوتا ہے جیسا انگور کا خوشہ۔ 12 منہ
Top