Maarif-ul-Quran - Maryam : 85
وَ اِسْمٰعِیْلَ وَ اِدْرِیْسَ وَ ذَا الْكِفْلِ١ؕ كُلٌّ مِّنَ الصّٰبِرِیْنَۚۖ
وَاِسْمٰعِيْلَ : اور اسمعیل وَاِدْرِيْسَ : اور ادریس وَذَا الْكِفْلِ : اور ذوالکفل كُلٌّ : یہ سب مِّنَ : سے الصّٰبِرِيْنَ : صبر کرنے والے
اور اسماعیل اور ادریس اور ذوالکفل کو یہ سب ہیں صبر والے
خلاصہ تفسیر
اور اسمعٰیل اور ادریس اور ذوالکفل (کے قصہ) کا تذکرہ کیجئے یہ سب (احکام الٰہیہ شریعیہ اور تکوینیہ پر) ثابت قدم رہنے والے لوگوں میں سے تھے اور ہم نے ان (سب) کو اپنی رحمت (خاصہ) میں داخل کرلیا تھا بیشک یہ (سب) کمال صلاحیت والوں میں تھے۔

معارف و مسائل
حضرت ذوالکفل نبی تھے یا ولی اور ان کا قصہ عجیبہ
آیات مذکورہ میں تین حضرات کا ذکر ہے جن میں حضرت اسمعٰیل اور حضرت ادریس (علیہما السلام) کا نبی و رسول ہونا قرآن کریم کی بہت سی آیات سے ثابت اور ان کا تذکرہ بھی قرآن میں جا بجا آیا ہے۔ تیسرے بزرگ ذوالکفل ہیں۔ ابن کثیر نے فرمایا کہ ان کا نام ان دونوں پیغمبروں کے ساتھ شامل کر کے ذکر کرنے سے ظاہر یہی ہے کہ یہ بھی کوئی اللہ کے نبی اور پیغمبر تھے مگر بعض دوسری روایات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ زمرہ انبیاء میں نہیں تھے بلکہ ایک مرد صالح اولیاء اللہ میں سے تھے۔ امام تفسیر ابن جریر نے اپنی سند کے ساتھ مجاہد سے نقل کیا ہے کہ حضرت یسع (جن کا نبی و پیغمبر ہونا قرآن میں مذکور ہے) جب بوڑھے اور ضعیف ہوگئے تو ارادہ کیا کہ کسی کو اپنا خلیفہ بنادیں جو ان کی زندگی میں وہ سب کام ان کی طرف سے کرے جو نبی کے فرائض میں داخل ہیں۔
اس مقصد کے لئے حضرت یسع ؑ نے اپنے صحابہ کو جمع کیا کہ میں اپنا خلیفہ بنانا چاہتا ہوں جس کے لئے تین شرطیں ہیں جو شخص ان شرائط کا جامع ہو اس کو خلیفہ بناؤں گا۔ وہ تین شرطیں یہ ہیں کہ وہ ہمیشہ روزہ رکھتا ہو اور ہمیشہ رات کو عبادت میں بیدار رہتا ہو اور کبھی غصہ نہ کرتا ہو۔ مجمع میں سے ایک ایسا غیر معروف شخص کھڑا ہوا جس کو لوگ حقیر ذلیل سمجھتے تھے اور کہا کہ میں اس کام کے لئے حاضر ہوں۔ حضرت یسع نے دریافت کیا کہ کیا تم ہمیشہ روزہ رکھتے ہو اور ہمیشہ شب بیداری کرتے ہو اور کبھی غصہ نہیں کرتے۔ اس شخص نے عرض کیا کہ بیشک میں ان تین چیزوں کا عامل ہوں۔ حضرت الیسع (کو شاید کچھ اس کے قول پر اعتماد نہ ہوا اس لئے) اس روز اس کو رد کردیا پھر کسی دوسرے روز اس طرح مجمع سے خطاب فرمایا اور سب حاضرین ساکت رہے اور یہی شخص پھر کھڑا ہوگیا اس وقت حضرت یسع نے ان کو اپنا خلیفہ نامزد کردیا۔ شیطان نے یہ دیکھا کہ ذوالکفل اس میں کامیاب ہوگئے تو اپنے اعوان شیاطین سے کہا کہ جاؤ کسی طرح اس شخص پر اثر ڈالو کہ یہ کوئی ایسا کام کر بیٹھے جس سے یہ منصب اس کا سلب ہوجائے۔ اعوان شیطان نے عذر کردیا۔ کہ وہ ہمارے قابو میں آنے والا نہیں شیطان ابلیس نے کہا کہ اچھا تم اس کو مجھ پر چھوڑو (میں اس سے نمٹ لوں گا) حضرت ذوالکفل اپنے اقرار کے مطابق دن بھر روزہ رکھتے اور رات بھر جاگتے تھے صرف دوپہر کو قیلولہ کرتے تھے (قیلولہ دوپہر کے سونے کو کہتے ہیں) شیطان عین دوپہر کو ان کے قیلولہ کے وقت آیا اور دروازہ پر دستک دی یہ بیدار ہوگئے اور پوچھا کون ہے کہنے لگا کہ میں بوڑھا مظلوم ہوں، انہوں نے دروازہ کھول دیا۔ اس نے اندر پہنچ کر ایک افسانہ کہنا شروع کردیا کہ میری برادری کا مجھ سے جھگڑا ہے انہوں نے مجھ پر یہ ظلم کیا وہ ظلم کیا، ایک طویل داستان شروع کردی یہاں تک کہ دوپہر کے سونے کا وقت ختم ہوگیا۔ حضرت ذوالکفل نے فرمایا کہ جب میں باہر آؤں تو میرے پاس آجاؤ میں تمہارا حق دلواؤں گا۔
حضرت ذوالکفل باہر تشریف لائے اور اپنی مجلس عدالت میں اس کا انتظار کرتے رہے مگر اس کو نہیں پایا۔ اگلے روز پھر جب وہ عدالت میں فیصلہ مقدمات کے لئے بیٹھے تو اس بوڑھے کا انتظار کرتے رہے اور یہ نہ آیا۔ جب دوپہر کو پھر قیلولہ کے لئے گھر میں گئے تو یہ شخص آیا اور دروازہ کوٹنا شروع کردیا۔ انہوں نے پھر پوچھا کون ہے ؟ جواب دیا کہ ایک مظلوم بوڑھا ہے، انہوں نے پھر دروازہ کھول دیا اور فرمایا کیا میں نے کل تم سے نہیں کہا تھا کہ جب میں اپنی مجلس میں بیٹھوں تو تم آجاؤ (تم نہ کل آئے نہ آج صبح سے آئے) اس نے کہا کہ حضرت میرے مخالف بڑے خبیث لوگ ہیں جب انہوں نے دیکھا کہ آپ اپنی مجلس میں بیٹھے ہیں اور میں حاضر ہوں گا تو آپ ان کو میرا حق دینے پر مجبور کریں گے تو انہوں نے اس وقت اقرار کرلیا کہ ہم تیرا حق دیتے ہیں، پھر جب آپ مجلس سے اٹھ گئے تو انکار کردیا۔ انہوں نے پھر اس کو یہی فرمایا کہ اب جاؤ جب میں مجلس میں بیٹھوں تو میرے پاس آجاؤ۔ اسی گفت و شنید میں آج کے دوپہر کا سونا بھی رہ گیا اور وہ باہر مجلس میں تشریف لے گئے اور اس بوڑھے کا انتظار کرتے رہے (اگلے روز بھی دوپہر تک انتظار کیا وہ نہیں آیا پھر جب تیسرے روز دوپہر کا وقت ہوا اور نیند کو تیسرا دن ہوگیا تھا نیند کا غلبہ تھا) تو گھر میں آ کر گھر والوں کو اس پر مقرر کیا کہ کوئی شخص دروازے پر دستک نہ دے سکے۔ یہ بوڑھا پھر تیسرے روز پہنچا اور دروازے پر دستک دینا چاہا لوگوں نے منع کیا تو ایک روشندان کے راستے سے اندر داخل ہوگیا اور اندر پہنچ کر دروازہ بجانا شروع کردیا یہ پھر نیند سے بیدار ہوگئے اور دیکھا کہ یہ شخص گھر کے اندر ہے اور دیکھا کہ دروازہ بدستور بند ہے اس سے پوچھا، تو کہاں سے اندر پہنچا، اس وقت حضرت ذوالکفل نے پہچان لیا کہ یہ شیطان ہے اور فرمایا کہ کیا تو خدا کا دشمن ابلیس ہے ؟ اس نے اقرار کیا کہ ہاں، اور کہنے لگا کہ تو نے مجھے میری ہر تدبیر میں تھکا دیا کبھی میرے جال میں نہیں آیا، اب میں نے یہ کوشش کی کہ تجھے کسی طرح غصہ دلا دوں تاکہ تو اپنے اس اقرار میں جھوٹا ہوجائے جو یسع نبی کے ساتھ کیا ہے، اس لئے میں نے یہ سب حرکتیں کیں۔ یہ واقعہ تھا جس کی وجہ سے ان کو ذوالکفل کا خطاب دیا گیا، کیونکہ ذوالکفل کے معنی ہیں ایسا شخص جو اپنے عہد اور ذمہ داری کو پورا کرے، حضرت ذوالکفل اپنے اس عہد پر پورے اترے۔ (ابن کثیر)
مسند احمد میں ایک روایت اور بھی ہے مگر اس میں ذوالکفل کے بجائے الکفل کا نام آیا ہے۔ اسی لئے ابن کثیر نے اس روایت کو نقل کر کے کہا کہ یہ کوئی دوسرا شخص کفل نامی ہے وہ ذوالکفل جن کا ذکر اس آیت میں آیا ہے وہ نہیں۔ روایت یہ ہے۔
حضرت عبداللہ بن عمر فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے ایک حدیث سنی ہے اور ایک دو مرتبہ نہیں بلکہ سات مرتبہ سے زائد سنی ہے وہ یہ کہ آپ نے فرمایا کہ کفل بنی اسرائیل کا ایک شخص تھا جو کسی گناہ سے پرہیز نہ کرتا تھا، اس کے پاس ایک عورت آئی اس نے اس کو ساٹھ دینار (گنیاں) دیں اور فعل حرام پر اس کو راضی کرلیا۔ جب وہ مباشرت کے لئے بیٹھ گیا تو یہ عورت کانپنے اور رونے لگی اس نے کہا کہ رونے کی کیا بات ہے کیا میں نے تم پر کوئی جبر اور زبردستی کی ہے۔ اس نے کہا نہیں جبر تو نہیں کیا، لیکن یہ ایسا گناہ ہے جو میں نے کبھی عمر بھر نہیں کیا اور اس وقت مجھے اپنی ضرورت نے مجبور کردیا اس لئے اس پر آمادہ ہوگئی یہ سن کر وہ شخص اسی حالت میں عورت سے الگ ہو کر کھڑا ہوگیا اور کہا کہ جاؤ یہ دینار بھی تمہارے ہیں اور اب سے کفل بھی کوئی گناہ نہیں کرے گا، اتفاق یہ ہوا کہ اسی رات میں کفل کا انتقال ہوگیا اور صبح اس کے دروازے پر غیب سے یہ تحریر لکھی ہوئی دیکھی گئی غفر اللہ للکفل یعنی اللہ نے کفل کو بخش دیا ہے۔
ابن کثیر نے یہ روایت مسند احمد کی نقل کرنے کے بعد کہا ہے کہ اس کو صحاح ستہ میں سے کسی نے روایت نہیں کیا اور اسناد اس کی غریب ہے اور بہرحال اگر روایت ثابت بھی ہے تو اس میں ذکر کفل کا ہے ذوالکفل کا نہیں، یہ کوئی دوسرا شخص معلوم ہوتا ہے واللہ اعلم
خلاصہ کلام یہ ہے کہ ذوالکفل حضرت یسع نبی کے خلیفہ اور ولی صالح تھے، ان کے خاص محبوب اعمال کی بنا پر ہوسکتا ہے کہ ان کا ذکر اس آیت میں بزمرہ انبیاء کردیا گیا اور اس میں بھی کوئی بعد نہیں معلوم ہوتا کہ شروع میں یہ حضرت یسع کے خلیفہ ہی ہوں پھر حق تعالیٰ نے ان کو منصب نبوت عطا فرما دیا ہو۔ واللہ سبحانہ و تعالیٰ اعلم
Top