Tafseer-Ibne-Abbas - Ar-Ra'd : 17
اَنْزَلَ مِنَ السَّمَآءِ مَآءً فَسَالَتْ اَوْدِیَةٌۢ بِقَدَرِهَا فَاحْتَمَلَ السَّیْلُ زَبَدًا رَّابِیًا١ؕ وَ مِمَّا یُوْقِدُوْنَ عَلَیْهِ فِی النَّارِ ابْتِغَآءَ حِلْیَةٍ اَوْ مَتَاعٍ زَبَدٌ مِّثْلُهٗ١ؕ كَذٰلِكَ یَضْرِبُ اللّٰهُ الْحَقَّ وَ الْبَاطِلَ١ؕ۬ فَاَمَّا الزَّبَدُ فَیَذْهَبُ جُفَآءً١ۚ وَ اَمَّا مَا یَنْفَعُ النَّاسَ فَیَمْكُثُ فِی الْاَرْضِ١ؕ كَذٰلِكَ یَضْرِبُ اللّٰهُ الْاَمْثَالَؕ
اَنْزَلَ : اس نے اتارا مِنَ السَّمَآءِ : آسمانوں سے مَآءً : پانی فَسَالَتْ : سو بہہ نکلے اَوْدِيَةٌ : ندی نالے بِقَدَرِهَا : اپنے اپنے اندازہ سے فَاحْتَمَلَ : پھر اٹھا لایا السَّيْلُ : نالہ زَبَدًا : جھاگ رَّابِيًا : پھولا ہوا وَمِمَّا : اور اس سے جو يُوْقِدُوْنَ : تپائے ہیں عَلَيْهِ : اس پر فِي النَّارِ : آگ میں ابْتِغَآءَ : حاصل کرنے (بنانے) کو حِلْيَةٍ : زیور اَوْ : یا مَتَاعٍ : اسباب زَبَدٌ : جھاگ مِّثْلُهٗ : اسی جیسا كَذٰلِكَ : اسی طرح يَضْرِبُ : بیان کرتا ہے اللّٰهُ : اللہ الْحَقَّ : حق وَالْبَاطِلَ : اور باطل فَاَمَّا : سو الزَّبَدُ : جھاگ فَيَذْهَبُ : دور ہوجاتا ہے جُفَآءً : سوکھ کر وَاَمَّا : اور لیکن مَا يَنْفَعُ : جو نفع پہنچاتا ہے النَّاسَ : لوگ فَيَمْكُثُ : تو ٹھہرا رہتا ہے وہ فِي الْاَرْضِ : زمین میں كَذٰلِكَ : اسی طرح يَضْرِبُ : بیان کرتا ہے اللّٰهُ : اللہ الْاَمْثَالَ : مثالیں
اسی نے آسمان سے مینہ برسایا۔ پھر اس سے اپنے اپنے اندازے کے مطابق نالے بہ نکلے۔ پھر نالے پر پھولا ہوا جھاگ آگیا۔ اور جس چیز کو زیور یا کوئی اور سامان بنانے کے لئے آگ میں تپاتے ہیں اس میں بھی ایسا ہی جھاگ ہوتا ہے۔ اس طرح خدا حق اور باطل کی مثال بیان فرماتا ہے۔ سو جھاگ تو سوکھ کر زائل ہوجاتا ہے اور (پانی) جو لوگوں کو فائدہ پہنچاتا ہے وہ زمین میں ٹھہرا رہتا ہے۔ اس طرح (خدا) صحیح اور غلط کی) مثالیں بیان فرماتا ہے (تاکہ تم سمجھو)
(17) اب اللہ تعالیٰ حق و باطل کے امتیاز کو ایک مثال سے سمجھاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بذریعہ جبریل امین قرآن کریم اتارا اور اس قرآن پاک میں حق اور باطل کو وضاحت کے ساتھ بیان فرما دیا تو روشن دلوں نے اپنی وسعت اور اپنے نور کے اعتبار سے قرآن حکیم کو اپنے سینوں میں جگہ دے لی اور اندھیرے والے دل اپنی باطل خواہشوں کے پیروکار ہوئے۔ اور اس پانی کی طرح اللہ تعالیٰ دوسری مثال بیان فرماتے کہ سونے اور چاندی کو جس وقت آگ میں ڈال کر تپاتے ہیں تو دریائی جھاگوں کے اوپر جو میل کچیل اوپر آجاتا ہے اسی طرح اس میں بھی آجاتا ہے تو حق سونے اور چاندی کی طرح ہے کہ جیسے سونے چاندی کو نفع حاصل کرنے اور زیور بنانے کے لیے تباتے ہیں اسی طرح حق سے صاحب حق نفع حاصل کرتا ہے اور باطل سونے چاندی کے میل کچیل کی طرح ہے جیسا کہ وہ کسی کام میں نہیں آتا، اسی طرح باطل سے بھی اہل باطل نفع نہیں حاصل کرسکتے۔ اور اسی طرح لوہے اور پیتل میں بھی تپانے سے میل اوپر آجاتا ہے تو حق لوہے اور پیتل کی طرح ہے جیسا کہ یہ چیزیں کام میں آتی ہیں اسی طرح حق سے بھی نفع پہنچتا ہے اور جیسا کہ ان کا میل کچیل کسی کام کا نہیں ہوتا، اسی طرح باطل سے بھی کسی قسم کا کوئی نفع نہیں ملتا تو میل کچیل پھینک دیا جاتا ہے، اسی طرح باطل بھی کارآمد نہیں اور نفع کی چیزیں وہ خالص پانی، سونا چاندی اور لوہا، پتیل ہے کہ دنیا میں ان سے نفع حاصل ہوتا ہے ایسے ہی حق سے نفع حاصل کیا جاتا ہے، اسی طرح اللہ تعالیٰ اور باطل کی مثالیں بیان فرماتے ہیں۔
Top