Tafseer-e-Mazhari - Adh-Dhaariyat : 46
اَنْزَلَ مِنَ السَّمَآءِ مَآءً فَسَالَتْ اَوْدِیَةٌۢ بِقَدَرِهَا فَاحْتَمَلَ السَّیْلُ زَبَدًا رَّابِیًا١ؕ وَ مِمَّا یُوْقِدُوْنَ عَلَیْهِ فِی النَّارِ ابْتِغَآءَ حِلْیَةٍ اَوْ مَتَاعٍ زَبَدٌ مِّثْلُهٗ١ؕ كَذٰلِكَ یَضْرِبُ اللّٰهُ الْحَقَّ وَ الْبَاطِلَ١ؕ۬ فَاَمَّا الزَّبَدُ فَیَذْهَبُ جُفَآءً١ۚ وَ اَمَّا مَا یَنْفَعُ النَّاسَ فَیَمْكُثُ فِی الْاَرْضِ١ؕ كَذٰلِكَ یَضْرِبُ اللّٰهُ الْاَمْثَالَؕ
اَنْزَلَ : اس نے اتارا مِنَ السَّمَآءِ : آسمانوں سے مَآءً : پانی فَسَالَتْ : سو بہہ نکلے اَوْدِيَةٌ : ندی نالے بِقَدَرِهَا : اپنے اپنے اندازہ سے فَاحْتَمَلَ : پھر اٹھا لایا السَّيْلُ : نالہ زَبَدًا : جھاگ رَّابِيًا : پھولا ہوا وَمِمَّا : اور اس سے جو يُوْقِدُوْنَ : تپائے ہیں عَلَيْهِ : اس پر فِي النَّارِ : آگ میں ابْتِغَآءَ : حاصل کرنے (بنانے) کو حِلْيَةٍ : زیور اَوْ : یا مَتَاعٍ : اسباب زَبَدٌ : جھاگ مِّثْلُهٗ : اسی جیسا كَذٰلِكَ : اسی طرح يَضْرِبُ : بیان کرتا ہے اللّٰهُ : اللہ الْحَقَّ : حق وَالْبَاطِلَ : اور باطل فَاَمَّا : سو الزَّبَدُ : جھاگ فَيَذْهَبُ : دور ہوجاتا ہے جُفَآءً : سوکھ کر وَاَمَّا : اور لیکن مَا يَنْفَعُ : جو نفع پہنچاتا ہے النَّاسَ : لوگ فَيَمْكُثُ : تو ٹھہرا رہتا ہے وہ فِي الْاَرْضِ : زمین میں كَذٰلِكَ : اسی طرح يَضْرِبُ : بیان کرتا ہے اللّٰهُ : اللہ الْاَمْثَالَ : مثالیں
اس نے بلندی سے پانی اتارا۔ پھر ندی نالے اپنی مقدار کے مطابق چلنے لگے۔ پھر وہ پانی اپنے ساتھ جھاگ لے آیا اور جو لوگ زیور کو آگ میں تپاتے ہیں تو اس میں بھی ایسا ہی میل کچیل اوپر آجاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ حق و باطل کی مثال اس طرح بیان کرتا ہے تو جو میل کچیل ہوتا ہے اس کو پھینک دیا جاتا ہے اور جو چیز لوگوں کو نفع دینے والی ہے وہ زمین میں باقی رہ جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ اس طرح کی مثالیں (وضاحت کے لئے) بیان کرتا ہے۔
لغات القرآن آیت نمبر 17 تا 18 سالت بہہ نکلے اودیۃ ندی۔ نالے احتمل اٹھایا السیل ندی کا بہاؤ زبد جھاگ رابی جمع ہونے والا یوقدون جلاتے ہیں۔ دھونکاتے ہیں ابتغاء حاصل کرنا حلیۃ زیور متاع سامان یذھب جاتا ہے جفاء سوکھنا یمکت رک جاتا ہے یضرب وہ مارتا ہے۔ چلاتا ہے الحسنی بھلائی افتدوا انہوں نے فدیہ دیا۔ بدلہ دیا سوء الحساب برا حساب ماویٰ ٹھکانا المھاد بستر۔ ٹھکانا تشریح : آیت نمبر 17 تا 18 گزشتہ آیات میں توحید کا بیان فرمایا گیا ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے اگر کفار سے یہ پوچھا جائے کہ اس کائنات کو اور اس کے ہر ذرے کو کس نے پیدا کیا تو ان کا جواب یہی ہوگا۔ کہ اللہ نے ہی ہر چیز کو اپنی قدرت سے پیدا کیا ہے۔ وہی حق ہے بقیہ سب کچھ باطل ہے۔ قرآن کریم میں فرمایا گیا ہے کہ اے نبی ﷺ آپ ہر شخص کو بتا دیجیے کہ حق آگیا ہے اور باطل مٹ رہا ہے اور باطل مٹنے کے لئے ہی ہے۔ یعنی حق اور سچائی کی یہ طاقت ہے کہ جب بھی حق کو نکھار کر سامنے لایا جائے گا تو وہاں باطل ٹھہر نہیں سکتا۔ کیونکہ باطل کے اندر کوئی طاقت نہیں ہوتی۔ اصل طاقت حق اور سچائی کی ہے۔ حق و باطل کے درمیان فرق واضح کرنے کی دو بہت خوبصورت مثالیں بیان کی گئی ہیں۔ فرمایا گیا کہ : 1) تم دیکھتے ہو کہ جب بادلوں سے پانی برستا ہے جو ندی نالوں کے ذریعہ ان کی گنجائش کے مطابق بہنے لگتا ہے۔ اس بہتے ہوئے پانی پر کوڑا کباڑ اور گھاس، پھوس بھی پانی کے ریلے کے ساتھ چلا آتا ہے۔ فرمایا کہ پانی کے اوپر جھاگ اور کوڑے کباڑ کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی۔ اگر اس پانی کو استعمال کیا جائے تو پانی پیا جائے گا اور کوڑے کباڑ کو بےحقیقت سمجھ کر پھینک دیا جائے گا۔ یہی مثال حق و باطل کی ہے۔ جب بھی حق نکھر کر سامنے آتا ہے تو باطل کی حیثیت کوڑے کباڑ سے زیادہ نہیں رہ جاتی، ویسے پانی کے اوپر چھایا ہوا کوڑا کباڑ ایسے لگتا ہے جیسے پانی سے زیادہ کوڑا کباڑ ہے۔ لیکن اس کی حیثیت کچھ بھی نہیں ہوتی۔ 2) اللہ تعالیٰ نے دوسری مثال یہ ارشاد فرمائی ہے کہ جب تیز آنچ پر سونا، چاندی، پیتل ، تانبا یا کوئی دھات پگھلائی جاتی ہے تاکہ اس سے زیور اور مختلف چیزیں تیار کی جائیں تو اس میں ایک خاص میل کچیل اس دھات پر ابھر آتا ہے۔ فرمایا کہ دنیا میں یہی ایک طریقہ ہے کہ دھات پر ابھرنے والا میل کچیل اتار کر پھینک دیا جاتا ہے اور سونا، چاندی اور دھات سے بہترین زیور اور برتن بنا لئے جاتے ہیں، سونے کے مقابلے میں جو حیثیت میل کچیل اور جھاگ کی ہے وہی مثال حق اور باطل کی ہے کہ جو آگ کی تیز سلگتی بھٹی سے گذر کر اصل سونا، چاندی اور دھات نکھر جاتی ہے اور اسی کی قیمت ہوتی ہے۔ فرمایا کہ اسی طرح جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے وحی نازل ہوتی ہے تو وہ قلوب جن میں سچائی کی تڑپ موجود ہوتی ہے ان کی یہ سعادت ہے کہ وہحی کے انوارات سے اپنے دلوں کو روشن ومنور کرلیتے ہیں اور اعمال کے جھاگ اور کوڑے کباڑ کو نکال پھینکتے ہیں۔ ان آیات میں مکہ کے ان کفار سے جو اپنے آپ کو غرور وتکبر کا پیکر بنا کر یہ سمجھ رہے تھے کہ سب کچھ ہم ہی ہیں ان کو بتایا جا رہا ہے کہ تمہاری حیثیت بہتے پانی پر گھاس پھونس اور کوڑے کباڑ اور سونے چاندی اور دھاتوں پر چھائے ہوئے جھاگ سے زیادہ کچھ بھی نہیں ہے۔ اگر تم نے اللہ کے دین کو قبول کرلیا تو پھر تمہاری کوئی حیثیت ہوگی لیکن اگر حق وسچائی کو قبول نہیں کیا تو تمہاری زندگی اور زندگی کا یہ سامان جس پر تم اترا رہے ہو اس قدر بےحقیقت بن کر رہ جائے گا کہ جب قیامت کے دن اللہ کا عذاب تمہارے سامنے ہوگا۔ اور اپنی ملکیت کی ہر چیز اس کے بدلے میں دے کر عذاب سے جان چھڑانے کی کوشش کی جائے گی تو اس مال و دولت کو اللہ کے ہاں دے کر جان چھڑانا مشکل ہوجائے گا۔ عذاب سے نجات کے بجائے انتہائی ذلت کے ساتھ حساب کتاب لیا جائے گا اور جہنم جیسا بدترین مقام تمہارا ٹھکانا ہوگا۔ اور اگر ایمان و عمل صالح کا راستہ اختیار کرلیا گیا تو ہر شخص آخرت میں اس طرح پیش ہوگا۔ کہ جیسے نکھرا ہوا سونا ہوتا ہے اللہ تعالیٰ ایسے حق کے پرستاروں کو دنیا اور آخرت کی تمام کامیابیاں عطا فرمائے گا۔
Top