Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Mualim-ul-Irfan - Al-Anbiyaa : 17
اَنْزَلَ مِنَ السَّمَآءِ مَآءً فَسَالَتْ اَوْدِیَةٌۢ بِقَدَرِهَا فَاحْتَمَلَ السَّیْلُ زَبَدًا رَّابِیًا١ؕ وَ مِمَّا یُوْقِدُوْنَ عَلَیْهِ فِی النَّارِ ابْتِغَآءَ حِلْیَةٍ اَوْ مَتَاعٍ زَبَدٌ مِّثْلُهٗ١ؕ كَذٰلِكَ یَضْرِبُ اللّٰهُ الْحَقَّ وَ الْبَاطِلَ١ؕ۬ فَاَمَّا الزَّبَدُ فَیَذْهَبُ جُفَآءً١ۚ وَ اَمَّا مَا یَنْفَعُ النَّاسَ فَیَمْكُثُ فِی الْاَرْضِ١ؕ كَذٰلِكَ یَضْرِبُ اللّٰهُ الْاَمْثَالَؕ
اَنْزَلَ
: اس نے اتارا
مِنَ السَّمَآءِ
: آسمانوں سے
مَآءً
: پانی
فَسَالَتْ
: سو بہہ نکلے
اَوْدِيَةٌ
: ندی نالے
بِقَدَرِهَا
: اپنے اپنے اندازہ سے
فَاحْتَمَلَ
: پھر اٹھا لایا
السَّيْلُ
: نالہ
زَبَدًا
: جھاگ
رَّابِيًا
: پھولا ہوا
وَمِمَّا
: اور اس سے جو
يُوْقِدُوْنَ
: تپائے ہیں
عَلَيْهِ
: اس پر
فِي النَّارِ
: آگ میں
ابْتِغَآءَ
: حاصل کرنے (بنانے) کو
حِلْيَةٍ
: زیور
اَوْ
: یا
مَتَاعٍ
: اسباب
زَبَدٌ
: جھاگ
مِّثْلُهٗ
: اسی جیسا
كَذٰلِكَ
: اسی طرح
يَضْرِبُ
: بیان کرتا ہے
اللّٰهُ
: اللہ
الْحَقَّ
: حق
وَالْبَاطِلَ
: اور باطل
فَاَمَّا
: سو
الزَّبَدُ
: جھاگ
فَيَذْهَبُ
: دور ہوجاتا ہے
جُفَآءً
: سوکھ کر
وَاَمَّا
: اور لیکن
مَا يَنْفَعُ
: جو نفع پہنچاتا ہے
النَّاسَ
: لوگ
فَيَمْكُثُ
: تو ٹھہرا رہتا ہے وہ
فِي الْاَرْضِ
: زمین میں
كَذٰلِكَ
: اسی طرح
يَضْرِبُ
: بیان کرتا ہے
اللّٰهُ
: اللہ
الْاَمْثَالَ
: مثالیں
اتارا اس نے آسمان کی طرف سے پانی ، پس بہہ پڑیں وادیاں اپنے اندازے کے اٹھایا سیلاب نے جھاگ پھولا ہوا اور اس میں سے جس کو وہ گرم کرتے ہیں آگ میں واسطے تلاش کرنے زیور کے یا سامان کے جس کے اوپر بھی جھاگ ہوتا اسی طرح ، اسی اللہ تعالیٰ بیان کرتا ہے حق اور باطل کو بہرحال وہ جھاگ ، پس وہ چلا جاتا ہے خشک ہو کر ، اور جو چیز فائدہ پہنچاتی ہے لوگوں کو وہ ٹھہر جاتی ہے زمین میں ، اسی طریقے سے اللہ بیان کرتا ہے مثالیں ۔
(ربط آیات) اس سورة مبا کہ میں اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک کی حقانیت اور صداقت بیان کرنے کے بعد معاد کا ذکر فرمایا پھر رسالت کا بیان ہوا ، اللہ نے توحید کا مسئلہ سمجھایا اور شرک کا رد فرمایا توحید کے عقلی اور نقلی دلائل بیان کیے اور شرک کی مختلف صورتوں کو واضح کیا ۔ اللہ تعالیٰ نے ربوبیت اور خالقیت کی دلیل پیش کرکے الوہیت کا استدلال پیش کیا کہ الہ صرف وہی ہو سکتا ہے جو رب اور خالق ہے چونکہ یہ صفات اللہ کے سوا کسی دوسری ہستی میں نہیں پائی جاتیں لہذا مستحق عبادت بھی صرف اللہ ہی ہے پھر اللہ نے مشرکوں اور مومنوں کی مثال اندھے اور بینا کی بیان فرمائی شرک کو ظلمات سے تعبیر کیا اور ایمان اور توحید کو نور فرمایا اور یہ بھی کہ یہ دونوں چیزیں برابر نہیں ہو سکتیں ، چونکہ مکی سورتوں میں زیادہ تر عقائد ہی کا بیان ہے لہذا اس سورة میں بھی توحید کا مسئلہ اللہ نے پورے طریقے سے واضح کردیا ہے ۔ (بارش اور ندی نالے) اب آج کے درس میں اس سورة کا مرکزی مضمون حق و باطل کی کشمکش بیان ہو رہا ہے ، اللہ نے یہ مسئلہ ایک مثال کے ذریعے سمجھایا ہے کہ باطل کسی چیز پر آنے والی جھاگ کی مانند ہے جو وقتی طور پر تو بہت ابھری ہوئی نظر آتی ہے ، مگر جلد ہی مٹ جاتی ہے ، اور حق کو اس اصل چیز سے تشبیہ دی ہے جو جھاگ سے نیچے ہوتی ہے اور جس سے لوگ مستفید ہوتے ہیں ارشاد ہوتا ہے (آیت) ” انزل من السمآء مآئ “۔ اللہ تعالیٰ نے آسمان سے پانی نازل فرمایا ، آسمان سے نہیں بلکہ آسمان کی طرف سے کہنا زیادہ مناسب ہے بارش برسنے کی ظاہری وجوہات تو یہ ہیں کہ سورج کی گرمی سے سمندروں کی سطح سے پانی بخارات بن کر بادلوں کی صورت میں اٹھتا ہے ، پھر ہوائیں ان بادلوں کو اس خطے کی طرف اڑالے جاتی ہیں جہاں بارش برسانا ہوتا ہے یاد رہے کہ بارش کا ذریعہ صرف بادل ہی نہیں بلکہ اس کے لیے عالم بالا کا حکم بھی ضروری ہے اسی لیے یہاں پر (آیت) ” من السمآء “ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے اس سے آسمان و زمین کی درمیانی فضا بھی مراد ہے اور عالم بالا کا حکم الہی بھی اس میں شامل ہے ، اسی لیے فرمایا وہ آسمان کی طرف سے پانی اتارتا ہے ۔ فرمایا جب بارش ہوتی ہے (آیت) ” فسالت اودیۃ “ تو وادیاں بہ نکلتی ہیں ، اودیہ وادی کی جمع ہے مطلب یہ ہے کہ جب پہاروں پر یا سطح مرتفع پر بارش ہوتی ہے تو اس کا پانی ندی نالوں کی صورت میں بہ کر وادیوں میں پہنچ جاتا ہے (آیت) ” بقدرھا “ ان کے اندازے کے مطابق جس قدر ندی نالہ بڑا ہوگا اسی قدر پانی بھی اس کے ذریعے زیادہ آئے گا ۔ فقہائے کرام فرماتے ہیں کہ ندی نالوں کا پانی ہوتا ہے ایسے پانی کی رنگت خواہ تبدیل ہوچکی ہو مگر یہ غسل اور کپڑے دھونے کے لیے بالکل درست ہوتا ہے ، اس پانی سے وضو کیا جاسکتا ہے پرانے زمانے میں پانی کے ذریع ندی نالے یا کنوئیں تھے مگر جدید دور میں ان کی جگہ ٹیوب ویلوں ، ہینڈپمپوں اور واٹر سپلائی نے لے لی ہے تاہم پہاڑوں علاقوں میں آج کل بھی ندی نالوں اور چشموں سے استفادہ کیا جاتا ہے ، غرضیکہ یہ پانی دریا کے پانی کے طرح بالکل پاک ہوتا ہے حدیث شریف میں آتا ہے کہ حضور ﷺ سے سوال کیا گیا کہ ہم لوگ سمندر میں سفر کے دوران میٹھا پانی زیادہ ساتھ نہیں لے جاسکتے ، اور اگر ہم اس محدود مقدار کے پانی سے وضو بھی کریں تو پینے کے لیے پنانی نہیں بچتا تو کیا ہم سمندر کے پانی سے وضو اور غسل وغیرہ کرسکتے ہیں آپ 1 (ترمذی ص 11 ج 1) نے فرمایا ” ھو الطھور مآء ہ والحل میتتہ “۔ سمندر کا پانی پاک ہے اور اس کا شکار یعنی مچھلی وغیرہ حلال ہے ، سمندر کا پانی اگرچہ سخت کڑوا ہے اور پینے کے قابل نہیں ہوتا اور پینے سے بیماری لاحق ہونے کا بھی خطرہ ہوتا ہے مگر یہ پانی بہرحال پاک ہے ۔ (سیلاب کی جھاگ) فرمایا جب بالائی علاقوں میں زیادہ بارش ہوتی ہے تو ندی نالے سیلاب کی صورت میں بہ نکلتے ہیں (آیت) ” فاحتمل السیل زبدا رابیا “۔ پس وہ سیلاب اٹھا لاتا ہے جھاگ پھولی ہوئی سیلاب کا پانی جن وادیوں سے گزرتا ہے ، وہاں کی مٹی ، تنکے اور کوڑا کرکٹ بھی شامل ہوجاتا ہے مٹی کی وجہ سے پانی گدلا ہوجاتا ہے اور اس پر جھاگ بھی آجاتی ہے زمین کا کوڑا کرکٹ بھی جھاگ کے ساتھ کے ساتھ مل کر پانی کی اوپر والی سطح پر نظر آتا ہے ، اور اس طرح پانی کی سطح ابھری ہوئی نظر آتی ہے ، رابیا ربی سے ہے ، ربو سانس کی بیماری کو کہتے ہیں جس سے سانس پھول جاتا ہے اور ربو زاید مال یعنی سود کو کہتے ہیں جو بغیر استحقاق کے حاصل کیا جاتا ہے زبدا جھاگ کو کہتے ہیں زبد عطیے کو بھی کہتے ہیں حدیث شریف میں آتا ہے کہ ایک مشرک نے حضور ﷺ کی خدمت میں ہدیہ پیش تو آپ ﷺ نے فرمایا ” نھینا عن زبد المشرکین “ یعنی ہمیں مشرکین کا ہدیہ قبول کرنے سے منع کردیا گیا ہے ، البتہ جہاں دین کا فائدہ ہو وہاں ایسا ہدیہ قبول کرلینا چاہئے اقامت دین وملت اور مسلمانوں کے غلبے کی خاطر ایسا ہدیہ قبول کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں ، البتہ اگر ایسے ہدیہ کی وجہ سے دین وملت کو نقصان پہنچنے کا خطرہ ہو یا مشرکین کی تعظیم ہوتی ہو یا ان کے غلبے کو تقویت حاصل ہو تو پھر ان کا ہدیہ قبول نہیں کیا جاتا ، اسی طرح زبد مکھن کو کہا جاتا ہے اور زبد اس جھاگ کو بھی کہتے ہیں جو سونا چاندی یا کوئی دوسری دھات پگھلانے سے اس پگھلے ہوئے پانی پر آجاتا ہے اور تھوڑی دیر بعد ختم ہوجاتا ہے ۔ (دھات کی جھاگ) سونا اور چاندی عموما زیورات بنانے کے لیے پگھلایا جاتا ہے چاندی تو جلدی پگھل جاتی ہے مگر سونے اور تانبے وغیرہ کے لیے بہت زیادہ ٹمریچر کی ضرورت ہوتی ہے ارشاد ہوتا ہے (آیت) ” ومما یوقدون علیہ فی النار ابتغآء حلیۃ “۔ اور اس میں بھی جھاگ آتی ہے جس کو وہ آگ میں گرم کرتے ہیں زیور بنانے کے لیے حلیہ اس زیور کو کہا جاتا ہے جسے مرد وزن زینت کے لیے استعمال کرتے ہیں ، عورتوں کے لیے تو سونے چاندی کا زیور پہننا جائز ہے ، بشرطیکہ اس کی زکوۃ ادا کی گئی ہو۔ البتہ مردوں کے لیے صرف چاندی کی محدود اجازت ہے اور سونا بالکل ممنوع ہے حدیث شریف میں آتا ہے کہ ایک خاتون اور اس کی بیٹی حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی ۔ انہوں نے سونے کے موٹے موٹے کنگن پہن رکھے تھے حضور ﷺ نے دریافت کیا ، کیا ان کی زکوۃ ادا کرتی ہو ؟ انہوں نے نفی میں جواب دیا تو آپ نے فرمایا کیا تمہیں یہ پسند ہے کہ یہی کنگن آگ کے بن کر تمہارے ہاتھوں میں پڑے ہوں ؟ اس خاتون نے وہ کنگن فورا اتارے اور صدقہ کردیے ، بہرحال اگر زیور نصاب کو پہنچ جائے تو اس کی زکوۃ ادا کرنا ضروری ہے ، زکوۃ کی ادائیگی کے لیے زیور کا زیر استعمال آنا ضروری نہیں ہے ، زیور خواہ پہنا جائے ، صندوق میں پڑا رہے یا کسی بنک کے لاکر میں محفوظ ہو ، زکوۃ بہرحال ادا کرنا ہوگی جب کہ وہ نصاب کو پہنچ جائے ۔ ، فرمایا (آیت) ” ومتاع زبد مثلہ “ یا کوئی دوسرا سامان بنانے کے لیے کسی دھات کو پگھلایا جائے تو اس پر بھی جھاگ آجاتی ہے پلاٹینیم سونے سے بھی قیمتی دھات ہے اور اس سے بھی زیورات بنتے ہیں ، باقی دھاتوں میں لوہا سرفہرست ہے جس سے ہر قسم کی مشینری اور اس کے پرزہ جات بنتے ہیں موجودہ دور میں لوہا اور پٹرول بنیادی ضروریات میں شامل ہیں اور ان کے بغیر پوری دنیا کا نظام رسل و رسائل ٹھپ ہو سکتا ہے ، تمام گاڑیاں لوہے سے بنتی ہیں ، اور پٹرول سے چلتی ہیں ، عام شہری ضروریات کے لیے استعمال ہونے والی کاروں اور بسوں سے لے کر بحری اور ہوائی جہاز تک لوہے کے مرہون منت ہیں ، جنگی سازوسامان میں رائفل ، توپ ، ٹینک ہوئی جہاز ، میزائل اور راکٹ وغیرہ سب لوہے سے بنتے ہیں جسے پگھلانا پڑتا ہے ، دنیا میں لوہے اور پٹرول کے ذخائر کم ہو رہے ہیں تو قدرت ان کا متبادل بھی پیدا کر رہی ہے لوہے پیتل ، تانبے اور سلور وغیرہ کی بجائے اب پلاسٹک کے برتن اور دوسری ضروریات زندگی تیار ہو رہی ہیں ، تیل کا متبادل اللہ نے گیس پیدا کردی ہے جسے ایندھن کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے ، اب سورج کی شعاؤں سے ایندھن کا کام لینے کے تجربات ہو رہے ہیں ۔ (حق و باطل میں کشمکش) غرضیکہ اللہ تعالیٰ نے دو قسم کی جھاگ کا ذکر فرمایا ہے ، ایک جو سیلاب کی وجہ سے پانی کے اوپر آتی ہے اور دوسری جو دھات پگھلانے سے دھات کے پانی پر آتی ہے ، اللہ تعالیٰ اسی دھات سے بات سمجھانا چاہتے ہیں ، ارشاد ہوتا ہے (آیت) ” کذلک یضرب اللہ الحق والباطل “ اسی طریقے سے اللہ تعالیٰ حق اور باطل کو بیان فرماتا ہے ، اللہ تعالیٰ نے پانی اور جھاگ کو حق اور باطل کے ساتھ تشبیہ دی ہے فرمایا (آیت) ” فاما الزبد فیذھب جفآء “ جھاگ تو خشک ہو کر چلا جاتا ہے ، جب سیلاب آتا ہے یا دھات کو گرم کیا جاتا ہے تو کچھ وقت کے لیے اوپر جھاگ آتی ہے ، مگر آہستہ آہستہ خشک ہو کر ختم ہوجاتی ہے ۔ (آیت) ” واما ما ینفع الناس فیمکث فی الارض “۔ اور جو چیز لوگوں کے لیے مفید ہوتی ہے وہ نیچے زمین میں رہ جاتی ہے مطلب یہ ہے کہ جب سیلاب کا پانی مع اپنی جھاگ کے گزر جاتا ہے تو وہ اپنے پیچھے زمین میں زرخیز مٹی (بھل) چھوڑ جاتا ہے جس سے زمین زرخیز ہوجاتی ہے اور خوب اناج اور پھل اگاتی ہے جس سے لوگ فائدہ اٹھاتے ہیں اسی طرح سونا چاندی یا لوہا تانبہ وغیرہ پگھلانے سے جو اوپر جھاگ آتی ہے ، وہ تو کچھ لمحوں کے بعد خشک ہوجاتی ہے اور اصل جوہر نیچے رہ جاتا ہے جس سے زیورات اور روز مرہ زندگی کی ہزاروں ضروریات پوری ہوتی ہیں ۔ فرمایا (آیت) ” کذلک یضرب اللہ الامثال “۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ لوگوں کے سمجھانے کے لیے مثالیں بیان کرتا ہے ، آسمان سے بارش برسی جس کا پانی ندی نالوں میں بہہ نکلا ، اس کے اوپر جھاگ ، کوڑا کچرہ ، میل کچیل وغیرہ آئی جو کچھ دیر بعد ختم ہوگئی ۔ اسی طرح دھاتوں کے پگھلاتے وقت دھات کے پانی پر آنے والی جھاگ بھی تھوڑی دیر بعد ختم ہوجاتی ہے ، اور دونوں صورتوں میں کار آمد اشیاء یعنی پانی ، زرخیز مٹی اور دھات وغیرہ نیچے رہ جاتی ہے ، اور یہی وہ اصل ہے ، جس سے لوگ فائدہ اٹھاتے ہیں ۔ (حق باطل کی مثال) اگر حق و باطل کی مثال سمجھنی ہو تو یوں سمجھو کہ انسانوں کے دلوں پر وحی الہی کا اثر ان کی دلی استعداد کے مطابق ہوتا ہے جہاں صلاحیت زیادہ ہوگی وہاں اثر بھی کم ہی ہوگا ، حضور ﷺ نے اس بات کو اس طرح سمجھایا کہ عام طور پر زمین کے خطے تین قسم کے ہوتے ہیں ، بعض خطے نہایت اچھے ہوتے ہیں ، جب آسمان سے بارش نازل ہوتی ہے تو ایسے خطے پانی کو اپنے اندر جذب کرلیتے ہیں ، اور پھر اس زمین سے پھل ، اناج ، چارہ اور سبزیاں پیدا ہوتی ہیں جس سے مخلوق خدا مستفید ہوتی ہے ، فرمایا زمین کی دوسری قسم وہ ہوتی ہے کہ اس میں روئیدگی کی صلاحیت تو نہیں ہوتی البتہ وہ اپنے اندر پانی کو جمع کرلینے کی استعداد رکھتی ہے ، ایسی زمین میں تالابوں ، حوضوں اور جھیلوں کی صورت میں پانی جمع ہوجاتا ہے جس سے انسان اور جانور سیراب ہوتے ہیں ، فرمایا زمین کی تیسری قسم ایسی ہے جو نہ تو خود پیداوار دینے کی صلاحیت رکھتی ہے اور نہ وہ پانی کو سٹور کرسکتی ہے کہ اس سے دوسرے لوگ ہی فائدہ اٹھاسکیں ، حضور ﷺ نے فرمایا کہ آسمان سے جو وحی ، ہدایت اور شریعت نازل ہوتی ہے اس سے بھی تین قسم کے اثرات قبول کیے جاتے ہیں اچھی صلاحیت والے لوگ وحی الہی کی تعلیمات کو اپنے اندر سمیٹ لیتے ہیں اور اس سے خوب مستفید ہوتے ہیں ، بعض دوسرے لوگ خود تو اس سے فائدہ نہیں اٹھا سکتے مگر وہ اس علم کو اپنے اندر جمع کرلیتے ہیں جس سے دوسرے لوگ مستفید ہوتے ہیں اور تیسری قسم کے لوگ وہ ہیں جو بالکل نکمے ہوتے ہیں جو وحی الہی سے نہ تو خود فائدہ اٹھاتے ہیں اور نہ ہی دوسروں کے لیے وجہ استفادہ بنتے ہیں ۔ بہرحال اللہ تعالیٰ نے حق و باطل کی کشمکش کی یہ مثال بیان فرمائی ہے ، جب یہ آپس میں ٹکراتے ہیں تو باطل جھاگ کی مانند اوپر آجاتا ہے تھوڑی دیر کے لیے اس میں جوش و خروش پیدا ہوتا ہے مگر وہ آخر کار دب جاتا ہے اور کار آمد حق نیچے رہ جاتا ہے جس سے لوگ مستفید ہوتے ہیں ، وحی الہی کا حال بھی ایسا ہی ہے ، جب انسان کے دل میں حق اترتا ہے تو بعض اوقات وہم اور شکوک وشہبات بھی جوش مارتے ہیں مگر جھاگ کی طرح یہ بھی کچھ وقت کے بعد ختم ہوجاتے ہیں اور انسان کے دل میں حق بات ٹھہر جاتی ہے ، مطلب یہ ہے کہ باطل کے وقتی جوش و خروش کو دیکھ کر گھبرانا نہیں چاہیے کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد برحق ہے (آیت) ” ان الباطل کان زھوقا “۔ (بنی اسرائیل) باطل تو مٹ جانے والی چیز ہے ، کفر ، شرک ، نفاق ، بدعات ، معاصی کتنا بھی زور ماریں وہ بالآخر ختم ہوں گے اور ایمان ہی باقی رہے گا ، باطل کی عمر زیادہ سے زیادہ اس عارضی دنیا کی زندگی تک ہو سکتی ہے مگر ایمان نیکی ، توحید ، اپنی جگہ پر قائم رہے گی ، اور یہی چیزیں لوگوں کے لیے مفید ہوں گی ۔ (شاہ ولی اللہ (رح) کا فلسفہ) امام شاہ ولی اللہ (رح) فرماتے ہیں کہ عالم مقدس سے انبیاء پر نازل ہونے والا حق اس متدنس جہاں کے شرور وقبائح سے ٹکراتا رہتا ہے ، اس سورة کی ابتداء میں الم کی تشریح میں میں نے شاہ صاحب (رح) کی حکمت کے مطابق عرض کیا تھا کہ انبیاء کی تعلیمات جو عالم بالا سے نازل ہوتی ہیں ، وہ اس دنیا میں آکر انسانوں کے برے اخلاق ، شرک ، کفر ، معصیت وغیرہ سے ٹکراتی رہتی ہیں ، جس کے نتیجے میں باطل مٹتا رہتا ہے اور حق ظاہر ہوتا رہتا ہے باطل میں کتنا ہی جوش و خروش کیوں نہ ہو ، وہ حق کے مقابلے نہیں ٹھہر سکتا ، حق و باطل کی کشمکش کا یہی مطلب ہے ۔ (مسلمین اور مکذبین) فرمایا (آیت) ” للذین استجابوا لربھم الحسنی “۔ جنہوں نے اپنے رب کی بات کو قبول کیا ان کے لیے بھلائی ہے ، اچھا بدلہ ہے (آیت) ” والذین لم یستجیبوا لہ “۔ اور جنہوں نے اسے قبول نہیں کیا ‘ ان کی حالت یہ ہوگی کہ (آیت) ” لوان لھم ما فی الارض جمیعا “۔ اگر اس زمین کی ہر چیز ان کی ملکیت ہو (آیت) ” و مثلہ معہ “ اور اس کے ساتھ اس جیسی اور بھی ہو ، دوسری جگہ ہے کہ سونے چاندی اور روپے پیسے سے پوری زمین بھری ہوئی ہو اور اس سے ڈبل بھی ہو ، اور اگر وہ شخص جان خلاصی کے لیے پوری کی پوری زمین فدیہ دینا چاہے (آیت) ” لافتدوا بہ “ تو وہ قبول نہیں کیا جائے گا ، حدیث شریف میں آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ قیامت والے دن فرمائے گا ، اے ابن آدم ! اگر یہ ساری زمین سونے سے بھری ہوئی ہو۔ تو کیا تم فدیہ دینے کے لیے تیار ہو ؟ وہ آدمی عرض کرے گا ، پروردگار ! ہاں میں تیار ہوں ، اللہ فرمائے گا ، تم جھوٹے ہو ، تم ابھی باپ کی پشت میں تھے جب میں نے تم سے مطالبہ کیا تھا (آیت) ” الا تشرک بی شیئا “۔ میرے ساتھ کسی کو شریک نہ بنانا ، مگر تم نے میرا حکم نہ مانا اب یہ ساری زمین اور اس سے دگنی بھی تمہارے لیے فدیہ نہیں بن سکتی ۔ (سؤالحساب) ایسے لوگوں کے متعلق فرمایا (آیت) ” اولیک لھم سوء الحساب “۔ یہ لوگ برے حساب والے ہیں ، ظاہر ہے کہ برے حساب کی وجہ سے تو گرفت ہی آئیگی ، بچاؤ کی کوئی صورت نہیں ہوگی ، حضور ﷺ کا فرمان 1 (بخاری ص 21 ج 1) ہے ” من نوقش فی الحساب ھلک “۔ جس شخص کے ساتھ حساب کتاب کے موقع پر جھگڑا ہوگا ، اس سے دریافت کیا جائے گا کہ تو نے یہ کام کیوں کیا ، فرمایا وہ شخص ہلاک ہوگیا ، وہ عذاب الہی سے نہیں بچ سکتا ، اور جس شخص کو اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ اے فلاں ! تو نے یہ یہ کام کیے اور وہ اقرار کرتا گیا تو اس کا حساب آسان ہوگا ، امید ہے کہ اسے معافی مل جائے گی ، اسی لیے حضور ﷺ نے دعا سکھائی ہے ” اللھم حاسبنی حسابا یسیرا “ اے اللہ مجھ سے آسان حساب لینا کہیں فرمایا گا ، ادخل الجنۃ بغیر حساب “۔ بغیر حساب کتاب کے جنت میں چلا جا ، اللہ تعالیٰ بڑی مہربانی فرمائے گا ، البتہ ایسے لوگ بہت تھوڑے ہوں گے جو ایک ہی قطار میں جنت میں داخل ہوجائیں گے ، اور جو لوگ باطل کے ساتھ ہی منسلک رہے ، حق بات کو تسلیم ہی نہ کیا فرمایا (آیت) ” وماوھم جھنم “ ان کا ٹھکانا دوزخ ہوگا (آیت) ” وبئس المھاد “۔ جو آرام پکڑنے کی بہت بری جگہ ہے ، وہاں آرام نہیں بلکہ دکھ ہی دکھ ہوگا ۔
Top