Tafseer-Ibne-Abbas - Aal-i-Imraan : 152
وَ لَقَدْ صَدَقَكُمُ اللّٰهُ وَعْدَهٗۤ اِذْ تَحُسُّوْنَهُمْ بِاِذْنِهٖ١ۚ حَتّٰۤى اِذَا فَشِلْتُمْ وَ تَنَازَعْتُمْ فِی الْاَمْرِ وَ عَصَیْتُمْ مِّنْۢ بَعْدِ مَاۤ اَرٰىكُمْ مَّا تُحِبُّوْنَ١ؕ مِنْكُمْ مَّنْ یُّرِیْدُ الدُّنْیَا وَ مِنْكُمْ مَّنْ یُّرِیْدُ الْاٰخِرَةَ١ۚ ثُمَّ صَرَفَكُمْ عَنْهُمْ لِیَبْتَلِیَكُمْ١ۚ وَ لَقَدْ عَفَا عَنْكُمْ١ؕ وَ اللّٰهُ ذُوْ فَضْلٍ عَلَى الْمُؤْمِنِیْنَ
وَ : اور لَقَدْ صَدَقَكُمُ : البتہ سچا کردیا تم سے اللّٰهُ : اللہ وَعْدَهٗٓ : اپنا وعدہ اِذْ : جب تَحُسُّوْنَھُمْ : تم قتل کرنے لگے انہیں بِاِذْنِھٖ : اس کے حکم سے حَتّٰى : یہانتک کہ اِذَا : جب فَشِلْتُمْ : تم نے بزدلی کی وَ تَنَازَعْتُمْ : اور جھگڑا کیا فِي الْاَمْرِ : کام میں وَعَصَيْتُمْ : اور تم نے نافرمانی کی مِّنْ بَعْدِ : اس کے بعد مَآ اَرٰىكُمْ : جب تمہیں دکھایا مَّا : جو تُحِبُّوْنَ : تم چاہتے تھے مِنْكُمْ : تم سے مَّنْ يُّرِيْدُ : جو چاہتا تھا الدُّنْيَا : دنیا وَمِنْكُمْ : اور تم سے مَّنْ يُّرِيْدُ : جو چاہتا تھا الْاٰخِرَةَ : آخرت ثُمَّ : پھر صَرَفَكُمْ : تمہیں پھیر دیا عَنْھُمْ : ان سے لِيَبْتَلِيَكُمْ : تاکہ تمہیں آزمائے وَلَقَدْ : اور تحقیق عَفَا : معاف کیا عَنْكُمْ : تم سے (تمہیں) وَاللّٰهُ : اور اللہ ذُوْ فَضْلٍ : فضل کرنے والا عَلَي : پر الْمُؤْمِنِيْنَ : مومن (جمع)
اور خدا نے اپنا وعدہ سچا کردیا (یعنی) اس وقت جب کہ تم کافروں کو اس کے حکم سے قتل کر رہے تھے یہاں تک کہ جو تم چاہتے تھے خدا نے تم کو دکھا دیا اس کے بعد تم نے ہمت ہار دی اور حکم (پیغمبر) میں جھگڑا کرنے لگے اور اس کی نافرمانی کی بعض تو تم میں سے دنیا کے خواستگار تھے اور بعض آخرت کے طالب اس وقت خدا نے تم کو ان (کے مقابلے) سے پھیر (کر بھگا) دیا تاکہ تمہاری آزمائش کرے اور اس نے تمہارا قصور معاف کردیا اور خدا مومنوں پر بڑا فضل کرنے والا ہے۔
(152) غزوہ احد کے بارے میں جو مسلمانوں سے وعدہ فرمایا تھا، اب اللہ تعالیٰ اس کا ذکر فرماتے ہیں کہ جب احد کے دن ابتدائے قتال میں تم کفار کو اللہ تعالیٰ کی مدد اور اس کے حکم سے قتل کررہے تھے لیکن لڑائی کے آخری مرحلہ میں جب تم خود ہی اختلاف رائے کے سبب کمزور ہوگئے اور لڑائی کے مسئلہ میں اور رسول اللہ ﷺ کے حکم میں مورچہ چھوڑنے کے اندر مختلف ہوگے اس کے باوجود کہ فتح اور غنیمت تمہیں مل گئی تھی، بعض تیر انداز اس مرحلے پر مورچہ چھوڑ جہاد سے صرف مال غنیمت ہی حاصل کرنا چاہتے تھے اور بعض جہاد اور مورچہ پر کھڑے رہنے میں آخرت کے طلب گار تھے جیسا کہ حضرت عبداللہ بن جبیر ؓ اور ان کے ساتھی اسی مورچہ پر جمے رہے (جس پر رسول اللہ ﷺ نے ان کو متعین کیا تھا یہاں تک کہ) شہید ہوگئے۔ پھر اس نے اپنی ایک خاص تدبیر و حکمت کے سبب تمہیں ان کفار پر غلبہ دینے سے اللہ تعالیٰ نے روک دیا، تاکہ تمہارے ایمان کی آزمائش فرمائے مگر اس ظاہری حکم عدولی کے باوجود تمہارے اخلاص کے سبب اس نے تمہیں معاف کردیا، اور ان تیراندازوں سے بھی کوئی مواخذہ نہیں کیا، کیونکہ انکی نیت بھی غلط نہ تھی۔
Top