Al-Qurtubi - Aal-i-Imraan : 152
وَ لَقَدْ صَدَقَكُمُ اللّٰهُ وَعْدَهٗۤ اِذْ تَحُسُّوْنَهُمْ بِاِذْنِهٖ١ۚ حَتّٰۤى اِذَا فَشِلْتُمْ وَ تَنَازَعْتُمْ فِی الْاَمْرِ وَ عَصَیْتُمْ مِّنْۢ بَعْدِ مَاۤ اَرٰىكُمْ مَّا تُحِبُّوْنَ١ؕ مِنْكُمْ مَّنْ یُّرِیْدُ الدُّنْیَا وَ مِنْكُمْ مَّنْ یُّرِیْدُ الْاٰخِرَةَ١ۚ ثُمَّ صَرَفَكُمْ عَنْهُمْ لِیَبْتَلِیَكُمْ١ۚ وَ لَقَدْ عَفَا عَنْكُمْ١ؕ وَ اللّٰهُ ذُوْ فَضْلٍ عَلَى الْمُؤْمِنِیْنَ
وَ : اور لَقَدْ صَدَقَكُمُ : البتہ سچا کردیا تم سے اللّٰهُ : اللہ وَعْدَهٗٓ : اپنا وعدہ اِذْ : جب تَحُسُّوْنَھُمْ : تم قتل کرنے لگے انہیں بِاِذْنِھٖ : اس کے حکم سے حَتّٰى : یہانتک کہ اِذَا : جب فَشِلْتُمْ : تم نے بزدلی کی وَ تَنَازَعْتُمْ : اور جھگڑا کیا فِي الْاَمْرِ : کام میں وَعَصَيْتُمْ : اور تم نے نافرمانی کی مِّنْ بَعْدِ : اس کے بعد مَآ اَرٰىكُمْ : جب تمہیں دکھایا مَّا : جو تُحِبُّوْنَ : تم چاہتے تھے مِنْكُمْ : تم سے مَّنْ يُّرِيْدُ : جو چاہتا تھا الدُّنْيَا : دنیا وَمِنْكُمْ : اور تم سے مَّنْ يُّرِيْدُ : جو چاہتا تھا الْاٰخِرَةَ : آخرت ثُمَّ : پھر صَرَفَكُمْ : تمہیں پھیر دیا عَنْھُمْ : ان سے لِيَبْتَلِيَكُمْ : تاکہ تمہیں آزمائے وَلَقَدْ : اور تحقیق عَفَا : معاف کیا عَنْكُمْ : تم سے (تمہیں) وَاللّٰهُ : اور اللہ ذُوْ فَضْلٍ : فضل کرنے والا عَلَي : پر الْمُؤْمِنِيْنَ : مومن (جمع)
اور خدا نے اپنا وعدہ سچا کردیا (یعنی) اس وقت جب کہ تم کافروں کو اس کے حکم سے قتل کر رہے تھے یہاں تک کہ جو تم چاہتے تھے خدا نے تم کو دکھا دیا اس کے بعد تم نے ہمت ہار دی اور حکم (پیغمبر) میں جھگڑا کرنے لگے اور اس کی نافرمانی کی بعض تو تم میں سے دنیا کے خواستگار تھے اور بعض آخرت کے طالب اس وقت خدا نے تم کو ان (کے مقابلے) سے پھیر (کر بھگا) دیا تاکہ تمہاری آزمائش کرے اور اس نے تمہارا قصور معاف کردیا اور خدا مومنوں پر بڑا فضل کرنے والا ہے۔
آیت نمبر : 152۔ محمد بن کعب قرظی نے بیان کیا ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ غزوہ احد کے بعد مدینہ طیبہ کی طرف مراجعت فرما ہوئے اس حال میں کہ انہیں تکلیف اور اذیت پہنچی تھی تو بعض نے بعض کو کہا : کہاں سے یہ اذیت ہمیں پہنچی ہے حالانکہ اللہ تعالیٰ نے ہمارے ساتھ فتح ونصرت کا وعدہ فرمایا تھا تب یہ آیت نازل ہوئی، (1) (معالم التنزیل، جلد 1، صفحہ 565، اسباب النزول، صفحہ 83) اور یہ وہ ہے کہ انہوں نے مشرکوں کے علمبردار کو قتل کیا اور اس کے بعد علم پر ان میں سے سات افراد کو قتل کیا، اور ابتداء میں مسلمانوں کو کامیابی و کامرانی حاصل ہوئی مگر یہ کہ وہ مال غنیمت جمع کرنے میں مشغول ہوگئے، اور بعض تیراندازوں نے بھی مال غنیمت کی طلب میں اپنا مرکز چھوڑ دیا اور وہی ناکامی کا سبب بن گیا، بخاری نے حضرت براء بن عازب ؓ سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے بیان کیا : جب احد کا دن تھا اور ہمارا مشرکین سے آمناسامنا ہوا تو رسول اللہ ﷺ نے تیراندازوں میں سے کچھ لوگوں کو (ایک درہ میں) بٹھایا اور ان پر حضرت عبداللہ بن جبیر ؓ کو امیر مقرر کیا اور آپ نے انہیں فرمایا : ” تم اپنی جگہ کو قطعا نہ چھوڑنا (آیت) ” اگر تم ہمیں دیکھو کہ ہم ان پر غالب آگئے ہیں تو تم اپنی جگہ کو نہ چھوڑنا) اور اگر تم انہیں دیکھو کہ وہ ہم پر غالب آ رہے ہیں تو پھر بھی تم ان کے خلاف ہماری مدد نہ کرنا۔ ” راوی کا بیان ہے کہ جب جنگ ہوئی اور مسلمانوں نے انہیں شکست سے دو چار کردیا حتی کہ ہم نے عورتوں کی طرف دیکھا وہ بڑی تیزی سے پہاڑ کی طرف بھاگ رہی ہیں، اور انہوں نے اپنی پنڈلیوں سے کپڑے اوپر اٹھائے ہوئے ہیں اور ان کے پازیب ظاہر دکھائی دے رہے ہیں تو وہ کہنے لگے : مال غنیمت لوٹ لو مال غنیمت لوٹ لو، تو حضرت عبداللہ ؓ نے انہیں کہا : ٹھہر جاؤ، رک جاؤ ! کیا رسول اللہ ﷺ نے تم سے عہد نہیں لیا کہ تم اپنی جگہ کو نہ چھوڑنا، لیکن وہ چلے گئے پس جب وہ ان کی طرف آئے تو اللہ تعالیٰ نے ان کے چہروں کو پھیر دیا (2) (بخاری کتاب المغازی باب غزوہ احد، حدیث نمبر 3737، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) اور مسلمانوں میں سے ستر افراد شہید کردیئے گئے، پھر ابو سفیان بن حرب ایک بلند جگہ سے ہمارے اوپر جھانکا اور اس نے کہا : کیا قوم میں محمد ﷺ ہیں ؟ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ” تم اسے جواب نہ دینا “ یہاں تک کہ اس نے تین بار پکارا، پھر اس نے کہا : کیا قوم میں ابن ابی قحافہ ہیں ؟ تین بار اس نے یہ پوچھا، تو حضور نبی مکرم ﷺ نے فرمایا : ” تم اسے جواب نہ دینا “ پھر اس نے کہا : کیا قوم میں عمر (بن خطاب) ہیں ؟ اس نے یہ بھی تین بار پوچھا، تو حضور نبی مکرم ﷺ نے فرمایا : ” تم اسے جواب نہ دینا “ پھر وہ اپنے ساتھیوں کی طرف متوجہ ہوا اور کہنے لگا : یہ سب لوگ قتل کردیئے گئے ہیں، تو حضرت عمر ؓ اپنے آپ پر ضبط نہ رکھ سکے، اور کہا : اے اللہ تعالیٰ کے دشمن ! تو نے جھوٹ بولا ہے ! اللہ تعالیٰ نے تجھے باقی رکھا ہے تاکہ وہ اس طرح تجھے ذلیل ورسوا کرے تو اس نے کہا : اعل ھبل : اے ھبل تو بلند ہوگیا (غالب آگیا) یہ جملہ اس نے دوبارہ کہا تو حضور نبی مکرم ﷺ نے فرمایا : ” تم اسے جواب دو “ تو صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین نے عرض کی : یا رسول اللہ ﷺ یہ ہم کیا کہیں ؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا ” تم کہو اللہ اعلی واجل “ اللہ تعالیٰ بلندو برتر اور بزرگ ہے۔ ابو سفیان نے کہا : لنا عزی ولا عزی لکم ( ہمارے لئے تو عزی ہے اور تمہارے لئے کوئی عزی نہیں) تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ” تم اسے جواب دو “ صحابہ نے عرض کی : ہم کیا کہیں یا رسول اللہ ﷺ ؟ تو آپ نے فرمایا : تم کہو اللہ مولانا ولا مولی لکم “۔ اللہ تعالیٰ ہمارا مولی ہے اور تمہارا کوئی مولی نہیں۔ ابو سفیان نے کہا : آج کا دن بدر کے دن کا بدلہ ہے، اور جنگ تو ڈول کی مانند ہے (یعنی اس کا نتیجہ کبھی ایک فریق کے حق میں ہوتا ہے کبھی دوسرے فریق کے حق میں جس طرح ڈول میں پانی کبھی زیادہ ہوتا ہے اور کبھی کم) بلاشبہ تم قوم میں ایسے مقتول پاؤ گے جن کا مثلہ کردیا گیا ہے میں نے اس کے بارے حکم نہیں دیا لہذا تم مجھے برا نہ کہنا (1) (صحیح بخاری، کتاب المغازی باب غزوہ احد وقول اللہ تعالیٰ ، جلد 2، صفحہ 579، قدیمی کتب خانہ کراچی، ایضا صحیح بخاری، حدیث نمبر 3737، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) (اور بخاری اور مسلم میں حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ سے روایت ہے انہوں نے بیان کیا : میں نے احد کی جانب سے شدید ترین جنگ لڑ رہے تھے اور حضرت سعد سے ایک روایت میں ہے، ان دونوں پر سفید لباس تھا میں نے ان دونوں کو نہ اس سے پہلے کبھی دیکھا اور نہ بعد میں، مراد حضرت جبریل (علیہ السلام) اور حضرت میکائیل (علیہ السلام) ہیں (2) (مسلم، کتاب الفضائل، جلد 2، صفحہ 252، اسلام آباد، ایضا صحیح بخاری، کتاب المغازی، حدیث 3748، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) اور دوسری روایت میں الفاظ یہ ہیں : یقاتلان عن رسول اللہ ﷺ اشد القتال مارایتھما قبل ذالک الیوم ولا بعدہ۔ اور حضرت مجاہد رحمۃ اللہ علیہنے کہا ہے : ملائکہ نے مسلمانوں کی معیت میں اس دن جنگ نہیں لڑی اور نہ اس سے پہلے اور نہ ہی اس کے بعد سوائے یوم بدر کے، علامہ بیہقی (رح) نے کہا ہے : حضرت مجاہد (رح) نے یہ ارادہ کیا ہے کہ ملائکہ نے احد کے دن اس قوم کی طرف سے جنگ نہیں لڑی جنہوں نے رسول اللہ ﷺ کی نافرمانی کی اور وہ اس حکم پر قائم نہیں رہے جو رسول اللہ ﷺ نے انہیں فرمایا : اور حضرت عروہ بن زبیر ؓ نے کہا ہے : اللہ تعالیٰ نے ان سے صبر وتقوی، کی شرط پر وعدہ کیا تھا کہ وہ انکی مدد کرے گا پانچ ہزار فرشتوں سے جو نشان والے ہیں، اور وہ اس نے پورا کردیا، اور جب انہوں نے رسول اللہ ﷺ کی حکم عدولی کی اور انہوں نے اپنی صفوں کو چھوڑ دیا اور تیراندازوں نے بھی اس عہد کو ترک کردیا جو رسول اللہ ﷺ نے ان سے لیا تھا کہ وہ اپنی جگہ کو ہر گز نہ چھوڑیں اور انہوں نے دنیا کا ارادہ کیا تو ان سے ملائکہ کی مدد اٹھا لی گئی، اور اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی (آیت) ” ولقد صدقکم اللہ وعدہ اذ تحسونھم باذنہ “۔ تو اللہ تعالیٰ نے اپنا وعدہ سچ کردیا اور انہیں فتح دکھا دی اور جب انہوں نے نافرمانی کی تو اس کے بعد ان پر آزمائش اور بلا کو مسلط کردیا۔ اور عمر بن اسحاق (رح) نے کہا ہے : جب احد کا دن تھا وہ رسول اللہ ﷺ سے بکھر گئے اور حضرت سعد آپ کے سامنے تیر پھینک رہے تھے اور ایک نوجوان انہیں تیر پکڑا رہا تھا جب بھی کوئی تیر چلا جاتا تو وہ تیرا نہیں دیتا، اور کہتا : اے ابا اسحاق ! تیر چلاؤ پس جب فارغ ہوئے انہوں نے دیکھا وہ جوان کون ہے ؟ تو نہ انہوں نے اسے دیکھا اور نہ اسے پہچانا، محمد بن کعب نے کہا ہے : جب مشرکوں کا علمبردار قتل ہوگیا اور ان کا جھنڈا گرگیا ، تو اسے عمرۃ بنت علقمہ حارثیہ نے اٹھایا تھا، اس بارے میں حضرت حسان کہتے ہیں : فلولا لواء الحارثیۃ اصبحوا یباعون فی الاسواق بیع الجلائب : پس اگر عمرہ حارثیہ کا جھنڈا نہ ہوتا تو انہیں بازاروں میں سامان تجارت کی طرح فروخت کردیا جاتا۔ اور تحسونھم کا معنی ہے تم انہیں قتل کر رہے تھے اور ان کا نام ونشان مٹا رہے تھے۔ شاعر نے کہا ہے : حسناھم بالسیف حسا فاصبحت بقیتھم فقدشردوا او تبددوا : ہم نے تلوار کے ساتھ ان کا نام ونشان مٹا دیا ہے پس انکے بقیہ رہنے والوں کو بھگا دیا گیا ہے یا وہ بکھر گئے ہیں۔ اور جریر نے کہا ہے : تحسھم السیوف کما تسامی حریق النار فی الاجم الحصید : اس میں بھی تحسھم کلی طور پر ختم کردینے اور نام ونشان مٹا دینے کے معنی میں ہے۔ ابو عبید نے کہا ہے : الحس کا معنی ہے قتل کے ساتھ ہلاک وبرباد کردینا (1) (معالم التنزیل، جلد 1، صفحہ 566) کہا جاتا ہے : جراد محسوس جب سردی اسے قتل اور تباہ کر دے، اور البرد محسۃ للنبت یعنی سردی نباتات کو جلا کر ختم کردینے والی ہے۔ اور سنۃ حسوس یعنی خشک سالی ہر شے کو کھا جاتی ہے، روبہ نے کہا ہے : اذا شکونا سنۃ حسوسا تاکل بعد الاخضر الیبسا : جب ہم شکوہ کرتے خشک سالی کا جو کہ سبزی کے بعد خشکی کو بھی کھا جاتی ہے اور اس کی اصل الحس سے ہے جس کا معنی ہے حاسہ کے ساتھ کسی شے کا ادراک کرنا، پس حسہ کا معنی ہے اس نے اس کی حس کو قتل کے سبب ختم کردیا، باذنہ یعنی اللہ تعالیٰ کے علم سے یا اس کی قضا اور امر سے۔ (آیت) ” حتی اذا فشلتم “۔ یعنی جب تم بزدل ہوگئے اور تم کمزور ہوگئے کہا جاتا ہے : فشل یفشل، فھو فشل وفشل، اور حتی کہ جواب محذوف ہے ای حتی اذا فشلتم امتحنتم۔ (یہاں تک کہ جب تم بزدل ہوگئے تو تم امتحان میں ڈال دیئے گئے) اور اس کی مثل جائز ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے : (آیت) ” فان استطعت ان تبتغی نفقا فی الارض او سلما فی السمآء “۔ (الانعام : 35) ، فافعل۔ ترجمہ : تو اگر آپ سے سے ہو سکے تو تلاش کرلو کوئی سرنگ زمین میں یا کوئی سیڑھی آسمان میں (تو اس پر چڑھ جاؤ ) ۔ اور فراء نے کہا ہے : حتی کا جواب ” وتنازعتم “۔ ہے اور واؤ مقحمہ زائدہ ہے، جیسا کہ یہ ارشاد گرامی ہے۔ (آیت) ” فلما اسلما وتلہ للجبین ونادیناہ ای نادیناہ (یعنی اس میں بھی واؤ مقحمہ زائدہ ہے) اور امرؤ القیس نے کہا ہے : فلما اجزنا سحاۃ الحی وانتحی ای انتحی : اس میں بھی واؤ زائدہ ہے، اور ان کے نزدیک وعصیتم میں بھی واؤد کو مقحمہ قرار دینا جائز ہے، یعنی حتی اذا فشلتم وتنازعتم عصیتم “۔ (یہاں تک کہ جب تم بزدل ہوگئے اور جھگڑنے لگے (رسول کے) حکم کے بارے میں تو تم نے نافرمانی کی) اور اس بنا پر اس میں تقدیم وتاخیر ہے، یعنی حتی اذا تنازعتم وعصیتم فشلتم “۔ (یہاں تک کہ جب تم جھگڑنے لگے اور تم نے نافرمانی کی تو تم بزدل ہوگئے) اور ابو علی نے کہا ہے : یہ بھی جائز ہے کہ جواب (آیت) ” صرفکم عنہم “۔ اور ثم زائدہ ہو، اور تقدیر کلام یہ ہو، حتی اذا فشلتم وتنازعتم وعصیتم صرفکم عنھم “۔ (یہاں تک کہ جب تم بزدل ہوگئے اور جھگڑنے لگے اور تم نے نافرمانی کی تو اس نے تم کو ان سے پھیر دیا۔ ) اور بعض نحویوں نے اس کے زائدہ ہونے میں شاعر کا قول بیان کیا ہے : ارانی اذا ما بت بت علی ھوی فثم اذا اصبحت اصبحت عادیا : اور اخفش نے اس کے زائدہ ہونے کو جائز قرار دیا ہے، جیسا کہ اس ارشاد میں ہے : (آیت) ” حتی اذا ضاقت علیھم الارض بما رحبت وضاقت علیھم انفسھم وظنوا ان لا ملجا من اللہ الا الیہ، ثم تاب علیھم “۔ (التوبۃ : 118) ترجمہ : یہاں تک کہ جب تنگ ہوگئی ان پر زمین باوجود کشادگی کے اور بوجھ بن گئیں ان پر ان کی جانیں اور جان لیا انہوں نے کہ نہیں کوئی جائے پناہ اللہ سے مگر اسی کی ذات، تب اللہ تعالیٰ ان پر مائل بکرم ہوا۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ حتی بمعنی الیٰ ہے اور اس وقت اس کا کوئی جواب نہ ہوگا۔ یعنی صدقکم اللہ وعدہ الی ان فشلتم “ (اللہ تعالیٰ نے تمہارے ساتھ اپنا وعدہ سچ کردیا یہاں تک کہ تم بزدل ہوگئے) یعنی وہ وعدہ ثابت قدم رہنے کی شرط کی ساتھ تھا۔ اور (آیت) ” تنازعتم “ کا معنی ہے ” اختلفتم “۔ (تم اختلاف کرنے لگے) یعنی اس وقت تیر اندازوں میں سے بعض نے کہا : ہم غنائم کو جا ملیں گے (یعنی مال غنیمت جمع کریں گے) اور بعض نے کہا : بلکہ ہم تو اسی جگہ ثابت قدم رہیں گے جہاں ثابت رہنے کا حضور نبی مکرم ﷺ نے ہمیں حکم دیا ہے۔ (آیت) ” من بعدما ارکم ما تحبون “۔ یعنی وہ غلبہ جو احد کے دن مسلمانوں کو ابتدائی مرحلہ میں ہی حاصل ہوگیا، اور یہ اس وقت حاصل ہوا جبکہ مشرکین کا علمبردار پچھاڑ (قتل کر) دیا گیا جیسا کہ پہلے گزر چکا ہے اور اسے جونہی قتل کیا گیا تو حضور نبی مکرم ﷺ اور آپ کے اصحاب منتشر ہوگئے اور وہ متفرق گروہوں میں بٹ گئے اور انہوں نے دشمن پر شدید حملے کئے یہاں تک کہ انہوں نے انہیں اپنے سازوسامان سے محروم کردیا، اور مشرک گھوڑ ساروں نے مسلمانوں پر تین بار حملہ کیا ہر بار تیروں کے ساتھ ان کا مقابلہ کیا گیا پس وہ مغلوب ہو کر واپس لوٹے اور مسلمانوں نے حملہ کیا اور انہوں نے ان خوب قتل کیا، پس جب پچاس تیراندازوں نے یہ دیکھا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے بھائیوں کو فتح عطا فرمادی ہے تو انہوں نے کہا : قسم بخدا ! ہم یہاں کسی کام کے لئے نہیں بیٹھے رہیں گے، تحقیق اللہ تعالیٰ نے دشمن کو ہلاک کردیا ہے اور ہمارے بھائی مشرکوں کے لشکر میں ہیں، اور ان میں سے کچھ گروہوں نے کہا : ہم کیونکر ٹھہرے رہیں حالانکہ اللہ تعالیٰ نے دشمن کو شکست سے دو چار کردیا ہے ؟ چناچہ انہوں نے اپنے ان مقامات کو چھوڑ دیا جن کے بارے میں نبی مکرم ﷺ نے ان سے عہد لیا تھا کہ وہ انہیں قطعا نہ چھوڑیں۔ اور آپس میں جھگڑا کرنے لگے اور بزدل ہوگئے اور انہوں نے رسول اللہ ﷺ کی نافرمانی کی پس گھوڑ سوار تیز رفتاری کی ساتھ قتال کرتے ہوئے ان میں آپہنچے، آیت کے الفاظ ان کے لئے زجر وتوبیخ کا تقاضا کرتے ہیں اور ان کو جھڑکنے کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے مددونصرت کی مبادی کو دیکھ لیا تھا، پس ان کے لئے یہ جاننا واجب تھا کہ فتح ونصرت کی تکمیل ثابت قدم رہنے میں ہے نہ کہ انہزام میں، پھر جھگڑے کا سبب بیان کیا اور فرمایا (آیت) ” منکم من یرید الدینا “۔ تم میں سے بعض دنیا یعنی مال غنیمت کے طلبگار ہیں، حضرت ابن مسعود ؓ نے بیان فرمایا : ہم نہیں جانتے تھے کہ حضور نبی مکرم ﷺ کے اصحاب میں سے کوئی دنیا اور اس کے سازوسامان کی خواہش رکھتا ہے یہاں تک کہ احد کا دن آگیا (تب ہمیں اس کا احساس ہوا) (آیت) ” ومنکم من یرید الاخرۃ “۔ اور تم میں سے بعض آخرت کے طلبگار ہیں (1) (معالم التنزیل، جلد 1، صفحہ 566) اور وہ وہ ہیں جو اپنے مرکز میں ثابت قدم رہے اور انہوں نے اپنے نبی مکرم ﷺ کے حکم کے بارے میں اپنے امیر حضرت عبداللہ بن جبیر ؓ سے کوئی مخالفت نہ کی اور خالد بن ولید اور عکرمہ بن ابی جہل نے ان پر حملہ کردیا، اس وقت یہ دونوں کافر تھے اور انہوں نے آپ کو اپنے باقی ساتھیوں سمیت شہید کردیا۔ رحمھم اللہ۔ اور یہ عتاب ان کے ساتھ ہے جنہوں نے اپنے مقام کو چھوڑا نہ کہ ان کے ساتھ جو ثابت قدم رہے کیونکہ جو ثابت رہے وہ تو ثواب کے ساتھ کامیاب وکامران تھے، اور یہ اسی طرح ہے جیسے جب کسی قوم پر عام عذاب نازل ہو تو نیکو کار اور بچے بھی ہلاک ہوجاتے ہیں لیکن جو ان پر نازل ہوا وہ عذاب اور سزا نہیں ہوتی بلکہ ان کے لئے اجرو ثواب کا سبب ہوتا ہے۔ واللہ اعلم۔ قولہ تعالیٰ : (آیت) ” ثم صرفکم عنہم لیبتلیکم “۔ (پھر پیچھے ہٹا دیا تمہیں ان کے تعاقب سے تاکہ تمہیں آزمائے) یعنی اس کے بعد کہ تم ان پر غلبہ حاصل کرچکے تھے تمہیں ان سے ناکامی کے ساتھ واپس لوٹا دیا اور یہ اس پر دلیل ہے کہ معصیت اللہ تعالیٰ کی پیدا کردہ ہے اور معتزلہ نے کہا ہے : اس کا معنی ہے پھر تم واپس لوٹ آئے، انصرفتم، پس اللہ تعالیٰ کی طرف اس کی اضافت کافروں کے دلوں سے مسلمانوں کا رعب اور خوف نکالنے کے اعتبار سے ہے مسلمانوں کو آزمائش میں ڈالنے کے لئے علامہ قشیری نے کہا ہے : یہ انہیں کوئی فائدہ نہیں دیتا، کیونکہ کافروں کے دلوں سے رعب اور خوف نکالنا یہاں تک کہ وہ مسلمانوں کو حقیر سمجھنے لگیں قبیح اور برا ہے اور ان کے نزدیک بھی یہ جائز نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے قبیح (فعل) واقع ہو، تو پھر اللہ تعالیٰ کے ارشاد : (آیت) ’ ثم صرفکم عنھم “۔ کا کوئی معنی باقی نہ رہے گا، اور یہ قول بھی ہے : (آیت) ” صرفکم عنھم “۔ کا معنی ہے اس نے تمہیں ان کی طلب اور تعاقب کا پابند نہیں بنایا۔ قولہ تعالیٰ : ولقد عفاعنکم “ ، واللہ ذوفضل علی المؤمنین “۔ یعنی اس نے تمہیں معصیت اور مخالفت کے بعد ہلاک اور تباہ نہیں کیا، کہا گیا ہے کہ یہ خطاب تمام کے لئے ہے، اور یہ قول بھی ہے کہ یہ ان تیر اندازوں کے لئے ہے جنہوں نے اس حکم کی مخالفت کی جو انہیں دیا گیا، اسے نحاس نے اختیار کیا ہے اور اکثر مفسرین نے کہا ہے : اس آیت کی نظیر یہ قول ہے : (آیت) ثم عفونا عنکم “۔ (البقرہ : 52) ترجمہ : پھر بھی درگزر فرمایا ہم نے تم سے۔ (آیت) ” واللہ ذوفضل علی المؤمنین “۔ ترجمہ : اور اللہ تعالیٰ عفو ومغفرت کے ساتھ مومنوں پر فضل وکرم فرمانے والا ہے۔ اور حضرت ابن عباس ؓ نے بیان فرمایا : حضور نبی مکرم ﷺ کی کسی بھی جگہ ایسی مدد نہیں کی گئی جیسی احد کے دن مدد کی گئی، فرمایا : اور ہم نے اس کا انکار کیا، تو حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا : میرے اور اس کے درمیان جس نے انکار کیا یہ کتاب اللہ ہے، بلاشبہ اللہ تعالیٰ یوم احد کے بارے فرماتا ہے : (آیت) ” ولقد صدقکم اللہ وعدہ اذ تحسونھم باذنہ “۔ حضرت ابن عباس ؓ فرماتے ہیں۔ الحس سے مراد قتل کرنا ہے۔ (آیت) ” حتی اذا فشلتم وتنازعتم فی الامر وعصیتم من بعد ما ارکم ماتحبوں منکم من یرید الدنیا ومنکم من یرید الاخرۃ ثم صرفکم عنھم لیبتلیکم ولقد عفاعنکم واللہ ذو فضل علی المؤمنین “۔ بلاشبہ اس سے مراد تیر انداز ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ حضور نبی مکرم ﷺ نے انہیں ایک جگہ میں کھڑا کیا پھر ارشاد فرمایا : ” تم ہماری پشتوں کی حفاظت کرو پس اگر تم ہمیں دیکھو کہ ہم قتل کر رہے تو تم ہماری مدد نہ کرنا اور اگر تم ہمیں دیکھو کہ ہم مال غنیمت اکٹھا کر رہے ہیں تو تم ہمارے ساتھ شریک نہ ہونا ، “ پس جب رسول اللہ ﷺ کامیاب ہوگئے اور مشرکین کے لشکر کو مباح قرار دیا تو تمام تیر انداز واپس لوٹ آئے اور لشکر میں داخل ہوگئے اور مال غنیمت لوٹنے لگے، تحقیق حضور نبی کریم ﷺ کے اصحاب کی صفیں جڑ گئیں، پس وہ اس طرح ہوگئے اور آپ نے اپنے ہاتھوں کی انگلیوں کا جال بنایا۔۔۔۔ اور وہ آپس میں مل گئے (یعنی خلط ملط ہوگئے) پس جب تیراندازوں نے اس درہ کو خالی کردیا جس میں وہ تھے تو گھوڑ سوار اسی راستے سے اصحاب رسول اللہ ﷺ پر داخل ہوگئے اور بعض نے بعض کو مارا اور آپس میں خلط ملط ہوگئے، اور مسلمانوں میں سے بہت سے لوگ شہید ہوگئے اور رسول اللہ ﷺ اور آپ کے اصحاب کے لئے ابھی دن کی ابتدا تھی یہاں تک کہ مشرکین کے ساتھ یا نو علمبردار قتل کردیئے گئے اور مسلمان پہاڑ کی طرف چلے گئے اور وہ وہاں تک نہ پہنچے جسے لوگ الغار کہتے ہیں، بلاشبہ وہ مہر اس (جبل احد کے ساتھ پانی کا چشمہ) کے نیچے رہے اور شیطان چیخ اٹھا : قتل محمد ﷺ (محمد ﷺ کو شہید کردیا گیا) اور اس میں کوئی شک نہ کیا گیا کہ وہ حق اور سچ ہے، پس ہم اسی طرح رہے اور ہم آپ کے شہید ہونے کے بارے شک نہ کرتے تھے یہاں تک کہ رسول اللہ ﷺ دو سعدوں (حضرت سعد بن معاذ اور سعد بن عبادہ) کے درمیان ہم پر ظاہر ہوئے جب آپ چلے تو ہم آپ کو اپنے قدموں کی طرف جھکنے کے سبب پہچان گئے، تو ہم اتنا خوش ہوئے گویا ہمیں (اس میں سے) کوئی مصیبت پہنچی ہی نہیں جو مصیبت ہمیں آئی تھی، راوی نے بیان کیا : پس آپ ﷺ ہمارے طرف چڑھے اور آپ فرما رہے تھے : اس قوم پر اللہ تعالیٰ کا شدید غضب ہو جنہوں نے اپنے نبی کے چہرہ کو خون آلود کیا (1) (المستدرک علی الصحیحین، کتاب تفسیر باب آل عمران جلد 2، صفحہ 325، 324، دارالکتب العلمیہ) اور حضرت کعب بن مالک ؓ نے بیان کیا ہے : مسلمانوں میں سے سب سے پہلے میں نے رسول اللہ ﷺ کو پہچانا تھا، میں نے آپ ﷺ کو آپ کی آنکھوں سے پہچانا تھا جو خود کے نیچے سے روشن اور ظاہر تھیں، تو میں نے اپنی بلند آواز سے ندا لگائی : اے مسلمانوں کے گروہ ! تمہیں بشارت ہو یہ رسول اللہ ﷺ ہیں آپ تشریف لا چکے ہیں تو آپ ﷺ نے میری طرف اشارہ کیا کہ تو خاموش رہ۔
Top