Tafseer-Ibne-Abbas - Al-Maaida : 6
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِذَا قُمْتُمْ اِلَى الصَّلٰوةِ فَاغْسِلُوْا وُجُوْهَكُمْ وَ اَیْدِیَكُمْ اِلَى الْمَرَافِقِ وَ امْسَحُوْا بِرُءُوْسِكُمْ وَ اَرْجُلَكُمْ اِلَى الْكَعْبَیْنِ١ؕ وَ اِنْ كُنْتُمْ جُنُبًا فَاطَّهَّرُوْا١ؕ وَ اِنْ كُنْتُمْ مَّرْضٰۤى اَوْ عَلٰى سَفَرٍ اَوْ جَآءَ اَحَدٌ مِّنْكُمْ مِّنَ الْغَآئِطِ اَوْ لٰمَسْتُمُ النِّسَآءَ فَلَمْ تَجِدُوْا مَآءً فَتَیَمَّمُوْا صَعِیْدًا طَیِّبًا فَامْسَحُوْا بِوُجُوْهِكُمْ وَ اَیْدِیْكُمْ مِّنْهُ١ؕ مَا یُرِیْدُ اللّٰهُ لِیَجْعَلَ عَلَیْكُمْ مِّنْ حَرَجٍ وَّ لٰكِنْ یُّرِیْدُ لِیُطَهِّرَكُمْ وَ لِیُتِمَّ نِعْمَتَهٗ عَلَیْكُمْ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا : وہ جو ایمان لائے (ایمان والے) اِذَا : جب قُمْتُمْ : تم اٹھو اِلَى الصَّلٰوةِ : نماز کے لیے فَاغْسِلُوْا : تو دھو لو وُجُوْهَكُمْ : اپنے منہ وَاَيْدِيَكُمْ : اور اپنے ہاتھ اِلَى : تک الْمَرَافِقِ : کہنیاں وَامْسَحُوْا : اور مسح کرو بِرُءُوْسِكُمْ : اپنے سروں کا وَاَرْجُلَكُمْ : اور اپنے پاؤں اِلَى : تک الْكَعْبَيْنِ : ٹخنوں وَاِنْ : اور اگر كُنْتُمْ : تم ہو جُنُبًا : ناپاک فَاطَّهَّرُوْا : تو خوب پاک ہوجاؤ وَاِنْ : اور اگر كُنْتُمْ : تم ہو مَّرْضٰٓى : بیمار اَوْ : یا عَلٰي : پر (میں) سَفَرٍ : سفر اَوْ : اور جَآءَ : آئے اَحَدٌ : کوئی مِّنْكُمْ : تم میں سے مِّنَ الْغَآئِطِ : بیت الخلا سے اَوْ لٰمَسْتُمُ : یا تم ملو (صحبت کی) النِّسَآءَ : عورتوں سے فَلَمْ تَجِدُوْا : پھر نہ پاؤ مَآءً : پانی فَتَيَمَّمُوْا : تو تیمم کرلو صَعِيْدًا : مٹی طَيِّبًا : پاک فَامْسَحُوْا : تو مسح کرو بِوُجُوْهِكُمْ : اپنے منہ وَاَيْدِيْكُمْ : اور اپنے ہاتھ مِّنْهُ : اس سے مَا يُرِيْدُ : نہیں چاہتا اللّٰهُ : اللہ لِيَجْعَلَ : کہ کرے عَلَيْكُمْ : تم پر مِّنْ : کوئی حَرَجٍ : تنگی وَّلٰكِنْ : اور لیکن يُّرِيْدُ : چاہتا ہے لِيُطَهِّرَكُمْ : کہ تمہیں پاک کرے وَلِيُتِمَّ : اور یہ کہ پوری کرے نِعْمَتَهٗ : اپنی نعمت عَلَيْكُمْ : تم پر لَعَلَّكُمْ : تاکہ تم تَشْكُرُوْنَ : احسان مانو
مومنو ! جب تم نماز پڑھنے کا قصد کیا کرو تو منہ اور کہنیوں تک ہاتھ دھو لیا کرو۔ اور سر کا مسح کرلیا کرو۔ اور ٹخنوں تک پاؤں (دھولیا کرو) اور اگر نہانے کی حاجت ہو تو (نہاکر) پاک ہوجایا کرو اور اگر بیمار ہو یا سفر میں ہو یا کوئی تم میں سے بیت الخلا سے آیا ہو یا تم عورتوں سے ہمبستر ہوئے ہو، اور تمہیں پانی نہ مل سکے تو پاک مِٹّی لو اور اس منہ اور ہاتھو کا مسح (یعنی تیمم) کرلو۔ خدا تم پر کسی طرح کی تنگی نہیں کرنی چاہتا بلکہ یہ چاہتا ہے کہ تمہیں پاک کرے اور اپنی نعمتیں تم پر پوری کرے۔ تاکہ تم شکر کرو۔
(6) جب نماز کے وقت تم بےوضو ہو تو اللہ تعالیٰ نے وضو کرنے کا طریقہ سکھلا دیا نیز اپنے پیروں کو بھی ٹخنوں سمیت دھوؤ اور غسل کی حاجت پر غسل کرلو، یہ آیت عبدالرحمن بن عوف ؓ کے بارے میں نازل ہوئی یعنی پانی کا استعمال نقصان دہ ہو یا زخم وغیرہ یا اس کے علاوہ پیشاب یا پاخانہ کی حاجت سے فارغ ہوا ہو یا ہم بستری کی ہو اور پھر پانی میسر نہ ہو سکے تو دو ضربوں کے ساتھ پاک مٹی سے تیمم کرلو وہ اللہ تمہیں تیمم کے ذریعے حدث اصغر (چھوٹی ناپاکی جس سے وضو ٹوٹ جائے جیسے پاخانہ، پیشاب کا آنا، خون اور ہوا کا نکلنا وغیرہ) اور حدث اکبر (بڑی ناپاکی جس کے بعد غسل کرنا واجب اور ضروری ہوجاتا ہے جیسے جنابت، احتلام، حیض وغیرہ (مترجم) سے پاک کرتا ہے اور تم پر اپنا انعام اس تیمم اور اجازت کے ذریعے تام کرتا ہے تاکہ تم اللہ تعالیٰ کے انعام اور اس کی سہولت عطا کرنے کا شکر ادا کرو۔ شان نزول : یایھا الذین امنوا اذا قمتم الی الصلوۃ“۔ (الخ) امام بخاری ؒ نے بواسطہ عمرو بن حارث، عبدالرحمن بن قاسم ؓ ، حضرت عائشہ ؓ سے روایت نقل کی ہے، فرماتی ہیں کہ میرا ایک ہار گرگیا اور اس وقت ہم مدینہ منورہ آرہے تھے، رسول اکرم ﷺ نے اپنا اونٹ بٹھایا اور اونٹ سے اتر کر اپنا سر مبارک میری گود میں رکھ کر سوگئے۔ اتنے میں حضرت ابوبکر صدیق ؓ آئے اور انہوں نے زور سے میرے ایک مکا مارا اور بولے تو نے ایک کی وجہ سے سب لوگوں کو روک دیا، اس کے بعد رسول اکرم ﷺ بیدار ہوگئے اور صبح کی نماز کا وقت آیا تو پانی کی تلاش ہوئی مگر پانی نہ ملا۔ اس پر یہ آیت ”اذا قمتم“۔ تشکرون“ تک نازل ہوئی، اسیدان حضیر بولے ابوبکررضی اللہ تعالیٰ عنہ کے گھر والو، تمہاری وجہ سے اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو اتنی بڑی آسانی دی۔ (سبحان اللہ) اور طبرانی ؒ نے بواسطہ عباد بن عبداللہ بن زبیر ؓ حضرت عائشہ ؓ سے روایت نقل کی ہے، فرماتی ہیں کہ جب میرا ہار کا جو کچھ معاملہ ہونا تھا سو ہوا اور اصحاب افک نے جو موشگافیاں کرنی تھیں، سو انہوں نے کی میں رسول اکرم ﷺ کے ساتھ دوسرے جہاد کے لیے روانہ ہوئی، وہاں بھی میرا ہار گرگیا۔ صحابہ کرام ؓ اس کی تلاش میں رک گئے، حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے مجھے فرمایا اے لڑکی تو ہر ایک سفر میں لوگوں کے لیے پریشانی کا باعث بن جاتی ہے، تب اللہ تعالیٰ نے تیمم کی اجازت نازل فرمائی، پھر ابوبکر صدیق ؓ نے فرمایا تو تو برکت والی ہے (لباب النقول فی اسباب النزول از علامہ سیوطی (رح) (دو ضروری فوائد) 1۔ امام بخاری ؒ نے اس حدیث کو عمر وبن حارث کی روایت سے نقل کیا اور اس میں اس بات کی تصریح ہے کہ تیمم کی آیت جو اس روایت میں مذکور ہے وہ سورة مائدہ کی آیت ہے اور اکثر راویوں نے صرف اتنا بیان کیا ہے کہ تیمم کی آیت نازل ہوئی اور یہ نہیں بیان کیا کہ کون سی آیت نازل ہوئی، حافظ ابن عبدالبر فرماتے ہیں کہ یہ بہت مشکل چیز ہے میرے پاس اس کا کوئی علاج نہیں کیوں کہ ہم نہیں سمجھ سکتے کہ حضرت عائشہ ؓ کا مقصد ان دونوں آیتوں میں سے کون سی آیت ہے اور ابن بطال فرماتے ہیں کہ یہ سورة نساء کی آیت اور اس کی وجہ یہ ہے کہ سورة مائدہ کی آیت آیت وضو کے ساتھ مشہور ہے اور سورة نساء کی آیت میں وضو کا کوئی تذکرہ نہیں، اس بنا پر آیت تیمم کے ساتھ یہی آیت خاص ہے اور واحدی نے اسباب النزول میں اس حدیث کو سورة نساء کی آیت کے ماتحت بھی روایت کیا ہے اور اس بات میں کوئی شک نہیں کہ امام بخاری جس طرف مائل ہوئے ہیں کہ یہ سورة مائدہ کی آیت ہے، وہ ہی چیز صحیح ہے کیونکہ روایت مذکور میں اس کی تصریح ہے۔ 2۔ حدیث میں اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ وضو اس آیت کے نازل ہونے سے قبل ہی فرض تھا اسی وجہ سے پانی کی عدم موجودگی میں صحابہ کرام ؓ نے اس آیت کے نزول کو زیادہ اہمیت دی اور حضرت ابوبکر ؓ حضرت عائشہ ؓ کو جو کچھ فرمایا سو ٹھیک ہے، ابن عبدالبر فرماتے ہیں، تمام اہل مغازی کے نزدیک یہ بات مسلم ہے کہ جس وقت سے نماز فرض ہوئی ہے، رسول اکرم ﷺ نے کوئی بھی نماز بغیر وضو کے نہیں پڑھی اور اس چیز کا کوئی بیوقوف ہی انکار کرسکتا ہے، اور اس کے باوجود کہ وضو پر پہلے ہی سے عمل تھا مگر آیت وضو کے نازل کرنے میں یہ حکمت ہے کہ وضو کی فرضیت بھی قرآن کریم میں تلاوت کی جائے۔ اور دیگر حضرات نے فرمایا کہ یہ بھی احتمال ہے کہ وضو کی فرضیت کے ساتھ آیت وضو پہلے نازل ہوچکی ہو پھر بقیہ آیت جس میں تیمم کا ذکر ہے وہ اس واقعہ میں نازل ہوئی ہو کہ پہلا ہی قول زیادہ صحیح ہے کیوں کہ وضو کی فرضیت نماز کی فرضیت کے ساتھ مکہ مکرمہ ہی میں فرض ہوچکی تھی اور یہ آیت مدنی ہے۔
Top