Al-Qurtubi - Al-Hijr : 61
فَلَمَّا جَآءَ اٰلَ لُوْطِ اِ۟لْمُرْسَلُوْنَۙ
فَلَمَّا : پس جب جَآءَ : آئے اٰلَ لُوْطِ : لوط کے گھر والے الْمُرْسَلُوْنَ : بھیجے ہوئے (فرشتے)
پھر جب فرشتے لوط کے گھر گئے
آیت نمبر 61 تا 65 قولہ تعالیٰ : فلما جآء ال لوط المرسلون۔ قال انکم قوم منکرون یعنی میں تمہیں نہیں پہچانتا۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے : وہ جواب تھے اور آپ نے جب حسن و جمال دیکھا تو ان کے بارے میں اپنی قوم کے فتنے کا آپ کو خوف لاحق ہوا، پس یہی وہ انکار اور اجنبیت ہے۔ قالوا بل جئنک بما کانوا فیہ یمترون (فرشتوں نے کہا : (ہم اجنبی نہیں) بلکہ ہم تمہارے پاس وہ چیز لے آئیں گے جس میں وہ شک کیا کرتے تھے کہ وہ ان پر نازل ہوگی۔ اور وہ عذاب ہے واتینک بالحق اور ہم آپ کے پاس لے آئیں ہیں حق یعنی سچ۔ اور بعض نے کہا ہے : عذاب۔ وانا لصدقون اور بلاشبہ ہم ان کی ہلاکت کے بارے میں سچ کہہ رہے ہیں۔ فاسر باھلک بقطع من الیل اس کا ذکر سورة ہود میں گزر چکا ہے۔ واتبع ادبارھم یعنی آپ ان کے پیچھے رہ کر چلئے تاکہ ان میں سے کوئی پیچھے نہ رہ جائے کہ اسے عذاب آپہنچے۔ ولا یلقفت منکم احد انہیں پیچھے مڑنے سے منع کیا گیا ہے تاکہ وہ چلنے میں پوری کوشش کریں اور گاؤں سے بہت دور نکل جائیں اس سے پہلے کہ ان پر صبح طلوع ہو۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے : اس کا معنی ہے کوئی پیچھے نہ رہے۔ وامضوا حیث تؤمرون (اور چلے جائیے وہاں جہاں جانے کا تمہیں حکم دیا گیا ہے) حضرت ابن عباس ؓ نے کہا ہے : مراد شام ہے۔ مقاتل نے کہا ہے : مراد صفد ہے، اور یہ حضرت لوط (علیہ السلام) کی بستیوں میں سے ایک بستی ہے۔ اس کا ذکر پہلے ہوچکا ہے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے : بیشک آپ ارض خلیل کی طرف چلے گئے اسے یقین کہا جاتا ہے، اور اس کا نام یقین اس لئے رکھا گیا ہے کیونکہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے جب پیغامبر (فرشتے) نکلے تو آپ ان کے پیچھے گئے، اور آپ نے حضرت جبرائیل (علیہ السلام) سے پوچھا : انہیں کہاں سے دھنسا یا جائے گا ؟ تو انہوں نے فرمایا : ” یہاں سے “۔ اور آپ نے مقررہ حد بیان کردی، اور حضرت جبرائیل امین (علیہ السلام) چلے گئے، پس جب حضرت لوط (علیہ السلام) حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے پاس بیٹھے اور دونوں اس عذاب کا انتظار کرنے لگے، پس جب زمین لرزہ براندام ہوئی تو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے کہا أیقنت باللہ قسم بخدا ! میں نے یقین کرلیا۔ تو اس وجہ سے اس کا نام یقین رکھ دیا گیا۔
Top