Tafseer-Ibne-Abbas - Al-An'aam : 122
اَوَ مَنْ كَانَ مَیْتًا فَاَحْیَیْنٰهُ وَ جَعَلْنَا لَهٗ نُوْرًا یَّمْشِیْ بِهٖ فِی النَّاسِ كَمَنْ مَّثَلُهٗ فِی الظُّلُمٰتِ لَیْسَ بِخَارِجٍ مِّنْهَا١ؕ كَذٰلِكَ زُیِّنَ لِلْكٰفِرِیْنَ مَا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ
اَوَ : کیا مَنْ : جو كَانَ مَيْتًا : مردہ تھا فَاَحْيَيْنٰهُ : پھر ہم نے اس کو زندہ کیا وَجَعَلْنَا : اور ہم نے بنایا لَهٗ : اس کے لیے نُوْرًا : نور يَّمْشِيْ : وہ چلتا ہے بِهٖ : اس سے فِي : میں النَّاسِ : لوگ كَمَنْ مَّثَلُهٗ : اس جیسا۔ جو فِي : میں الظُّلُمٰتِ : اندھیرے لَيْسَ : نہیں بِخَارِجٍ : نکلنے والا مِّنْهَا : اس سے كَذٰلِكَ : اسی طرح زُيِّنَ : زینت دئیے گئے لِلْكٰفِرِيْنَ : کافروں کے لیے مَا : جو كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ : وہ کرتے تھے (عمل)
بھلا جو (پہلے) مردہ تھا پھر ہم نے اس کو زندہ کیا اور اس کے لیے روشنی کردی جس کے ذریعے سے وہ لوگوں میں چلتا پھرتا ہے کہیں اس شخص جیسا ہوسکتا ہے جو اندھیرے میں پڑا ہوا ہو اس نکل ہی نہ سکے ؟ اس طرح کافر جو عمل کر رہے ہیں وہ انھیں اچھے معلوم ہوتے ہیں۔
(122) یہ آیت عمار بن یاسر ؓ اور ابوجہل کے بارے میں نازل ہوئی ہے یعنی حضرت عمار پہلے صاحب ایمان نہ تھے پھر ہم نے ان کو ایمان کی بدولت عزت عطا کی اور ہم نے انکو ایسی معرفت عطا فرمائی جس کی بدولت وہ لوگوں میں چلتے پھرتے ہیں یا یہ کہ ہم ان کو پل صراط پر ایک خاص نور عطا فرمائیں گے جس کی وجہ سے وہ لوگوں کے درمیان سے اس پر بلاخوف وخطر گزر جائیں گے،۔ تو کیا ایسا شخص اس شخص کی مانند ہوسکتا ہے جو دنیا میں کفر کی تاریکیوں میں گرفتار ہے اور قیامت کے دن جہنم کے اندھیروں میں پڑا ہوگا وہ ابوجہل ہے اور دنیا میں کفر کی تاریکیوں اور آخرت میں جہنم کے اندھیروں سے وہ نکلنے ہی نہیں پاتا۔ جیسا کہ ابوجہل کو اپنے غلط اعمال وکردار اچھے معلوم ہوتے ہیں اسی طرح تمام کفار کو اپنے اعمال اچھے معلوم ہوا کرتے ہیں۔ شان نزول : (آیت) ”او من کان میتا“۔ (الخ) ابوالشیخ نے ابن عباس ؓ سے اس آیت کی تفسیر میں روایت کیا ہے کہ آیت حضرت عمر فاروق ؓ اور ابوجہل کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ نیز ابن جریر ؒ نے ضحاک ؒ سے اسی طرح روایت کیا ہے۔
Top