Ahsan-ut-Tafaseer - Al-Anfaal : 39
وَ اَنْذِرْهُمْ یَوْمَ الْحَسْرَةِ اِذْ قُضِیَ الْاَمْرُ١ۘ وَ هُمْ فِیْ غَفْلَةٍ وَّ هُمْ لَا یُؤْمِنُوْنَ
وَاَنْذِرْهُمْ : اور ان کو ڈراویں آپ يَوْمَ الْحَسْرَةِ : حسرت کا دن اِذْ : جب قُضِيَ : فیصلہ کردیاجائیگا الْاَمْرُ : کام وَهُمْ : لیکن وہ فِيْ غَفْلَةٍ : غفلت میں ہیں وَّهُمْ : اور وہ لَا يُؤْمِنُوْنَ : ایمان نہیں لاتے
اور ان کو حسرت و افسوس کے دن سے ڈراؤ جب بات فیصل کردی جائے گی اور (ہیہات) وہ غفلت میں (پڑے ہوئے ہیں) اور ایمان نہیں لاتے
39۔ 40:۔ اوپر عیسائیوں کا ذکر فرما کر ان آیتوں میں مشرکین مکہ کا ذکر فرمایا جس سے یہ بات جتلائی گئی ہے کہ جس طرح عیسائی لوگ اپنے آپ کو عیسیٰ (علیہ السلام) کا پیرو کہتے ہیں اور حقیقت میں عیسیٰ (علیہ السلام) کے طریقہ کے بالکل برخلاف ہیں یہی حال ان مشرکین مکہ کا ہے کہ یہ لوگ اپنے آپ کو ملت ابراہیمی کا پابند کہتے ہیں اور حقیقت میں ابراہیم (علیہ السلام) کے طریقہ کے بالکل برخلاف ہیں کیونکہ ابراہیم (علیہ السلام) تو بت پرستی سے ایسے بیزار تھے کہ اسی پر ان کا اور ان کے باپ کا جھگڑا ہوا جس کا ذکر آگے آتا ہے اور ان لوگوں کا یہ حال ہے کہ رات دن بت پرستی میں لگے ہوئے ہیں قیامت کے دن اس بت پرستی کی جو سزا ان کو بھگتنی پڑے گی اس سے بالکل غافل ہیں اور باوجود ہر وقت کی نصیحت کے اس شرک سے باز نہیں آئے اس لیے اے رسول اللہ کے تم اپنا کام کیے جاؤ کہ ان لوگوں کو اس دن کے پچھتاوے سے ڈراتے رہو اس پر جو لوگ شرک سے باز نہ آویں تو اس کا کچھ رنج نہ کرو ایک دن دنیا فنا ہونے والی ہے اور دنیا کے فنا ہوجانے کے بعد پھر دوبارہ زندہ ہو کر جب تمام دنیا کے لوگ سزا وجزا کے لیے ہمارے روبرو حاضر ہوں گے تو اس وقت یہ لوگ اپنے اس شرک کی سزا بھگت کر بہت پچھتاویں گے اس پچھتاوے کا ذکر سورة الانعام میں گزر چکا ہے کہ اس طرح کے لوگ اپنی دنیا کی غفلت کی گندگی پر پچھتا کر پھر دوبارہ دنیا میں آنے اور نیک عمل کرنے کی خواہش کریں گے مگر اس بےوقت کے بچھتانے اور بےموقع خواہش سے ان کو کچھ فائدہ نہیں صحیح بخاری مسلم اور ترمذی میں ابوسعید خدری ؓ سے روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ جب جنت میں ہمیشہ رہنے والے جنتیوں اور دوزخ میں ہمیشہ رہنے والے دوزخیوں کو یہ حکم سنا دیا جائے گا کہ اب جو جہاں وہیں رہے گا کبھی وہاں سے نہ نکلے گا اس وقت دوزخی لوگ اپنی دنیا کی غفلت کی زندگی پر بہت پچھتائیں گے 1 ؎۔ یہ حدیث فرما کر اللہ کے رسول ﷺ نے ان دونوں آیتوں میں کی پہلی آیت پڑھی اس حدیث سے ایسے لوگوں کے پچھتاوے کے وقت کی تفسیر اچھی طرح سمجھ میں آسکتی ہے۔ (1 ؎ تفسیر ابن کثیرص 122 ج 2۔ )
Top