Tafseer-e-Jalalain - Maryam : 73
وَ اِذَا تُتْلٰى عَلَیْهِمْ اٰیٰتُنَا بَیِّنٰتٍ قَالَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا١ۙ اَیُّ الْفَرِیْقَیْنِ خَیْرٌ مَّقَامًا وَّ اَحْسَنُ نَدِیًّا
وَاِذَا : اور جب تُتْلٰى : پڑھی جاتی ہیں عَلَيْهِمْ : ان پر اٰيٰتُنَا : ہماری آیتیں بَيِّنٰتٍ : واضح قَالَ : کہتے ہیں الَّذِيْنَ : وہ جنہوں نے كَفَرُوْا : کفر کیا لِلَّذِيْنَ : ان سے جو اٰمَنُوْٓا : وہ ایمان لائے اَيُّ : کون سا الْفَرِيْقَيْنِ : دونوں فریق خَيْرٌ مَّقَامًا : بہتر مقام وَّاَحْسَنُ : اور اچھی نَدِيًّا : مجلس
اور جب ان لوگوں کے سامنے ہماری آیتیں پڑھی جاتی ہیں تو جو کافر ہیں وہ مومنوں سے کہتے ہیں کہ دونوں فریق میں سے مکان کس کے اچھے اور مجلسیں کس کی بہتر ہیں ؟
واذا تتلی علیھم آیتنا جب ان منکروں اور کافروں کو ہماری آیتیں پڑھ کر سنائی جاتی ہیں جن میں مومنین کا حق پر ہونا مدلل اور معقول طریقہ سے ثابت کردیا جاتا ہے اور کافر کھسیانے اور لاجواب ہوجاتے ہیں تو (کھسیانی بلی کھمبا نوچے) کے مطابق اپنی کھسیاہٹ مٹانے کے لئے بےجوڑ اور بےتکی باتیں کرنا شروع کردیتے ہیں یعنی قرآنی دعوت کا مقابلہ یہ کفار مکہ فقراء مسلمین اور اغنیاء اقریش اور ان کی مجلسوں اور مکانوں کے باہمی موازنے سے کرتے ہیں کہ مسلمانوں میں عمار، بلال، صہیب ؓ جیسے لوگ ہیں ان کا دار المشورہ دار ارقم ہے جن کہ کافروں میں ابو جہل، نضر بن حارث، عتبہ، شیبہ جیسے رئیس اور ان کی عالی شان کوٹھیاں اور مکانات ہیں اور ان کا دار المشورہ (دار الندوہ) بہت عمدہ ہے، یعنی مال و دولت اور شان و شوکت میں ہم تم سے بڑھے ہوئے ہیں، اس سے ثابت ہوا کہ ہم محبوب اور مقبول ہیں اور تم مغضوب و مخذول ہو، آگے اللہ تعالیٰ ان کی اس دلیل کے دو جواب دیتے ہیں ایک الزامی اور دوسرا تحقیقی، الزامی جواب کو اللہ تعالیٰ نے وَکَمْ اَھْلَکْنَا ھُمْ سے بیان فرمایا ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ دنیا کی یہ چیزیں ایسی نہیں کہ ان پر فخر و ناز کیا جائے یا ان کو دیکھ کر حق و باطل کا فیصلہ کیا جائے یہ چیزیں تو تم سے پہلی امتوں کے پاس بھی تھیں، لیکن تکذیب حق کی پاداش میں انہیں ہلاک کردیا گیا دنیا کا یہ مال و اسباب انہیں اللہ کے عذاب سے نہیں بچا سکتا۔ دوسرے تحقیقی جواب کو اللہ تعالیٰ اپنے قول قُلْ مَنْ کانَ فِی الضَّلٰلۃِ سے ارشاد فرماتے ہیں، اس جواب کا خلاصہ یہ ہے کہ یہ چیزیں گمراہوں کو مہلت اور ڈھیل کے طور پر ملتی ہیں اس لئے یہ کوئی حق و باطل کا معیار نہیں، اصل اچھے برے کا پتہ تو اس وقت چلے گا کہ جب مہلت عمل ختم ہوجائے گی، اور اللہ کا عذاب انہیں آگھیرے گا اور یا قیامت برپا ہوجائے گی، لیکن اس وقت کا علم کچھ فائدہ نہ دے گا، اس لئے کہ وہاں ازالے اور تدارک کی کوئی صورت نہیں رہے گی، وہاں جہنم میں اپنا ٹھکانہ دیکھ کر یہ کافر خود ہی فیصلہ کرلیں گے کہ برا مکان کس کا ہے ؟ اور جتھا کس کا کمزور ہے ؟
Top