Tafseer-e-Jalalain - Al-Furqaan : 10
تَبٰرَكَ الَّذِیْۤ اِنْ شَآءَ جَعَلَ لَكَ خَیْرًا مِّنْ ذٰلِكَ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ١ۙ وَ یَجْعَلْ لَّكَ قُصُوْرًا
تَبٰرَكَ : بڑی برکت والا الَّذِيْٓ : وہ جو اِنْ شَآءَ : اگر چاہے جَعَلَ : وہ بنا دے لَكَ : تمہارے لیے خَيْرًا : بہتر مِّنْ ذٰلِكَ : اس سے جَنّٰتٍ : باغات تَجْرِيْ : بہتی ہیں مِنْ تَحْتِهَا : جن کے نیچے الْاَنْهٰرُ : نہریں وَيَجْعَلْ : اور بنا دے لَّكَ : تمہارے لیے قُصُوْرًا : محل (جمع)
وہ (خدا) بہت بابرکت ہے جو اگر چاہے تو تمہارے لئے اس سے بہتر (چیزیں) بنا دے (یعنی) باغات جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہوں نیز تمہارے لئے محل بنا دے
آیت نمبر 10 تا 20 ترجمہ : اللہ کی ذات تو بڑی عالی شان ہے یعنی خیر کثیر والی ہے اگر وہ چاہے تو ان کے بیان کردہ باغ اور خزانہ سے بہتر باغات عطا کر دے جن کے نیچے نہریں جاری ہوں یعنی دنیا میں (عطا کردے) اس لئے کہ آخرت میں ایسے باغات آپ ﷺ کو عطا کرنا تو اس کی مشیت میں ہے ہی، اور آپ کو بہت سے محل (بھی) دیدے یَجْعَلْ لام کے جزم کے ساتھ اور ایک قرأۃ میں (یَجْعَلُ ) رفع کے ساتھ ہے، جملہ مستانفہ ہونے کی وجہ سے بلکہ یہ لوگ قیامت کو جھوٹ سمجھ رہے ہیں اور قیامت کو جھوٹ سمجھنے والوں کیلئے ہم نے دہکتی ہوئی شدید آگ تیار کر رکھی ہے جن ان کو وہ آگ دور سے دیکھے گی تو وہ لوگ اس کا جوش خروش سنیں گے یعنی غضبناک کے مانند اس کا جوش جبکہ غضبناک کا سینہ غضب کی وجہ سے جوش مارے زَفِیْرًا شدید آواز کو کہتے ہیں یا غیض کو سننے سے مطلب اس کا دیکھنا اور جاننا ہے اور جب وہ اس (جہنم) کی کسی تنگ جگہ میں ہاتھ پاؤں جکڑ کر ڈالدئیے جائیں گے ضیّقاً یا کی تشدید اور تخفیف کے ساتھ ہے اس طریقہ سے کہ وہ مکان ان پر تنگ ہوجائے گا اور مِنْھَا مکانًا سے حال ہے اس لئے کہ منھا اصل میں مکاناً کی صفت ہے مُقَرَّنِیْنَ بمعنی مُصَفَّدِیْنَ ایسے بندھے ہوئے کہ ان کے ہاتھوں کو ان کی گردن کے ساتھ طوق میں باندھ دیا گیا اور تشدید معنی کی کثرت کو بیان کرنے کے لئے ہے، تو وہاں موت کو پکاریں گے تو ان سے کہا جائے گا ایک موت کو نہ پکارو عذاب کی وجہ بہت سی موتوں کو پکارو آپ کہئے یہ وعید اور صفت نار کی حالت جس کا ذکر ہوا اچھی ہے ؟ یا ہمیشہ کی وہ جنت جس کا متقیوں سے وعدہ کیا گیا ہے کہ یہ (جنت الخلد) ان کے لئے اللہ کے علم میں جزاء ثواب (صلہ) ہے اور ان کا ٹھکانا ہے، اور ان کو وہاں وہ سب چیزیں ملیں گی جو وہ چاہیں گے وہ ہمیشہ رہیں گے (خٰلِدینَ ) حال لازمہ ہے، ان سے کیا ہوا مذکورہ وعدہ تیرے رب کا ذمہ ہے لہٰذا جس سے وعدہ کیا گیا ہے وہ اس سے مطالبہ کرسکتا ہے (یعنی سائل اپنے سوال میں کہہ سکتا ہے) رَبَّنَا وَآتِنَا مَا وَعَدْتَّنَا عَلیٰ رُسُلِکَ اے ہمارے پروردگار تو ہم کو وہ چیز عطا فرما جس کا تو نے اپنے رسول کی زبانی وعدہ فرمایا، یا اس وعدہ کے ایفاء کا، ان کے لئے فرشتے اس طرح سوال کریں گے ربنا واَدْخِلْھُمْ جَنّٰتِ عَدْنٍ التی وعدتھم اے ہمارے پروردگار تو ان کو قیام کے قابل اس جنت میں داخل فرما، جس کا تو نے ان سے وعدہ کیا ہے اور جس روز اللہ تعالیٰ ان کو نحشرھم نون کے ساتھ اور یاء کے ساتھ ہے اور جن کو وہ خدا کے سوا پوجتے تھے جمع کرے گا غیر اللہ سے مراد ملائکہ اور عیسیٰ ( علیہ السلام) اور عزیر ( علیہ السلام) اور جن ہیں پھر معبودین سے عابدین پر حجت تام کرنے کے لئے پوچھے گا کیا تم نے میرے ان بندوں کو گمراہ کیا تھا ؟ ان کو اپنی عبادت کا حکم دے کر تم نے ان کو گمراہی میں ڈالا تھا ؟ یا وہ خود ہی راہ حق سے بھٹک گئے تھے ؟ فیَقُوْلُ یا اور نون کے ساتھ ہے ءَاَنْتُمْ دونوں ہمزوں کی تحقیق اور ثانی کو الف سے بدل کر اور ثانی کی تسہیل اور مسہلہ اور دوسرے کے درمیان الف داخل کرکے اور ترک ادخال الف کرکے تو وہ عرض کریں گے معاذ اللہ تیرے لئے ہر چیز سے پاکی ہے جو تیری شان کے لائق نہیں ہے ہمارے لئے یہ ہرگز درست نہیں تھا کہ ہم تیرے علاوہ کسی کو کو رساز بنائیں مِنْ اَوْلیاء مفعول اول ہے اور مِن زائدہ نفی کی تاکید کے لئے ہے اور اس کے ماقبل مفعول ثانی ہے تو پھر ہم کیسے اپنی عبادت کا حکم کرسکتے تھے ؟ لیکن آپ نے ان کو اور ان کے باپ دادوں کو جو ان سے پہلے گذر چکے ہیں درازی عمر اور وسعت رزق کے ذریعہ آسودگی عطا فرمائی یہاں تک کہ یاد کو بھلا بیٹھے یعنی نصیحت اور قرآن پر ایمان کو ترک کردیا یہ لوگ تھے ہی ہلاک ہونے والے اللہ تعالیٰ فرمائے گا لو انہوں نے تو تم کو تمہاری تمام باتوں میں جھٹلا دیا یعنی تمہارے معبودوں نے تمہاری تکذیب کردی، تقولون تائے فوقانیہ کے ساتھ (یعنی) تمہارے اس قول میں کہ وہ معبود ہیں اب نہ تو تم میں (اور نہ ان میں) عذاب کو دفع کرنے کی طاقت ہے اور نہ مدد کی یعنی اس عذاب سے اپنی مدد کرنے کی تم میں سے جس جس نے ظلم یعنی شرک کیا ہے ہم ان کو بڑا عذاب یعنی آخرت میں شدید عذاب چکھائیں گے اور ہم نے آپ سے پہلے جتنے بھی رسول بھیجے سب کے سب کھانا بھی کھاتے تھے اور بازاروں میں چلتے پھرتے بھی تھے لہٰذا آپ ان ہی جیسے ہیں ان باتوں میں، اور آپ سے وہی سب کچھ کہا جا رہا ہے جو ان سے کہا گیا تھا اور ہم نے تم میں سے ہر ایک کو دوسرے کی آزمائش کا ذریعہ بنادیا غنی کو فقیر کے ذریعہ آزمایا گیا اور تندرست کو مریض کے ذریعہ اور شریف کو رذیل کے ذریعہ، ثانی ہر بات میں کہتا ہے کیا وجہ ہے کہ میں ہر معاملہ میں اول جیسا نہیں ہوں ؟ کیا تم ان باتوں پر صبر کرو گے جن کو تم ان لوگوں سے سنتے ہو جن کے ذریعہ تم کو آزمایا گیا ہے استفہام بمعنی امر ہے یعنی صبر کرو، تیرا رب سب کچھ دیکھنے والا ہے کون صبر کرتا ہے ؟ اور کون بےصبری کرتا ہے ؟ تحقیق، ترکیب و تفسیری فوائد قولہ : تبٰرَکَ تبارک ایسا وصف ہے جو تمام اوصاف کمال کو جامع اور تمام صفات نقص کی نفی کو مستلزم ہے اسی وجہ سے موقع کی مناسبت سے اس کی تفسیر مختلف کی گئی ہے، ابتداء سورت میں چونکہ مقام تنزیہ تھا لہٰذا وہاں تعالیٰ سے تفسیر کی گئی اور یہاں چونکہ مقام عطا ہے کثرت خیر سے تفسیر کی گئی اور آخر سورت میں چونکہ مقام عظمت و کبریاء ہے لہٰذا تَعَاظَمَ سے تفسیر کی گئی ہے۔ قولہ : تبَارَکَ فعل ماضی اَلَّذِیْ حذفِ مضاف کے ساتھ تبارک کا فاعل، ای تَبَارَکَ خَیْرُ الَّذِیْ ۔ قولہ : جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِھَا الَانْھٰر خیراً سے بدل ہے، اور خیر اور بہتر ہونے کی وجہ ظاہر ہے اس لئے مشرکین نے جس باغ کے بارے میں کہا تھا وہ مطلق تھا اس میں تعدد اور جریان انہار کی کسی کی قید نہیں تھی، اور بعض حضرات کے نزدیک خَیْرًا سے عطف بیان بھی ہوسکتا ہے، اور بعض حضرات نے اعنی مقدر کی وجہ سے جَنّٰتٍ کو منصوب قرار دیا ہے اور تَجْرِیْ مِنْ تَحتِھَا الَانْھَارُ ، جَنّٰتٍ کی صفت قرار دیا ہے۔ قولہ : لِاَنَّہٗ الخ مفسر علام لِاَنَّہٗ سے فی الدنیا کی قید کے ساتھ مقید کرنے کی علت بیان کر رہے ہیں، علت کا خلاصہ یہ ہے اِنْ شَاءَ جَعَلَ لَکَ خَیْرًا میں خیریت کو مشیئت پر معلق کرنا دنیا کے اعتبار ہی سے صحیح ہے، ورنہ تو آخرت میں تو محقق ہے ہی۔ قولہ : یَجْعَلْ جزم کے ساتھ جَعَلَ کے محل پر عطف کرتے ہوئے جو کہ شرط کی جزاء واقع ہے لہٰذا مجزوم پر جس کا عطف ہوگا وہ بھی مجزوم ہوگا وفی قرأۃ بالرفع جواب شرط پر عطف کرتے ہوئے جواب شرط کو استیناف کی وجہ سے مرفوع مانتے ہوئے شرط جب ماضی ہو تو جزاء میں رفع اور جزم دونوں جائز ہوتے ہیں، لہٰذا جزاء پر جو معطوف ہوگا اس میں بھی دونوں اعراب جائز ہوں گے اس لئے کہ شرط جب ماضی ہوتی ہے تو صرف شرط کی تاثیر جزاء میں کمزور ہوجاتی ہے جس کی وجہ سے جزاء میں جزم اور رفع دونوں جائز ہوجاتے ہیں، ابن مالک نے کہا ہے وبعد ماض رفعُکَ الجزاء اَحْسَنُ جزم اور رفع کی دونوں قرأتیں سبعیہ ہیں۔ قولہ : غَلمیانا تَغَیُّظًا کی تفسیر غلیاناً سے کرنے کا مقصد ایک اعتراض کا جواب دینا ہے، اعتراض یہ ہے غیظ تو سننے کی چیز نہیں ہے وہ تو دیکھنے کی چیز ہے، جواب دیا یہاں غیظ سے مراد غلیان (جوش مارنا) جو سنا جاسکتا ہے لہٰذا اعتراض ختم ہوگیا۔ قولہ : وسماع التغیظ رویتہ علمہٗ مذکور اعتراض کا یہ دوسرا جواب ہے، اس جواب کا خلاصہ یہ ہے کہ سماع تغیظ سے مراد رویت اور علم ہے جو تغیظ میں ممکن ہے، بعض حضرات نے یہ جواب دیا ہے کہ تقدیر عبارت اس طرح ہے سَمِعُوْا وَرَأوا تغیظًّا وزفیراً لہٰذا رَأوا کا تعلق تغیظ سے اور سمعوا کا تعلق زفیرًا سے ہوگا، بعض حضرات نے سماع مطلقاً ادراک کے معنی میں لیا ہے اس صورت میں سمِعُوْا کا تعلق تغیظ اور زفیر دونوں سے صحیح ہوگا (جمل) ۔ قولہ : القوا منھا مکاناً مِنْھَا مَکَانًا کی صفت ہے اور نکرہ کی صفت کو جب مقدم کردیا جاتا ہے تو وہ حال ہوجاتی ہے۔ قولہ : مُقَرّنِیْنَ اُلْقُوْا کی ضمیر سے حال ہے مُصَفَّسِیْنَ اور مُصْفَدِیْنَ (ض) دونوں درست ہیں اس کے معنی باندھنے جکڑنے، مشکیں کسنے کے ہیں، صَفَا بیڑی کو کہتے ہیں۔ قولہ : دَعَوْا ھُنَالِکَ اِذَا اُلْقُوْا کی جزاء ہے ھَنَالِکَ سے مراد مقام ضیق ہے۔ قولہ : ثبوراً فعل محذوف کا مفعول مطلق ہے ای ثبرنا ثبورًا بعض حضرات نے کہا ہے دَعَوْا کا مفعول لہ ہے۔ قولہ : لِعذَابِکُمْ ای لاجل دوام عذابکم وکثرتہٖ ینبغی ان یکون دعائکم علی حسبہ یعنی جس طرح تمہارا عذاب دائمی اور متعدد قسم کا ہے اسی حساب سے تم اپنی ہلاکت کو پکارتے رہو، اور بعض نسخوں میں کعذابکم ہے، یہ کثرت میں تشبیہ ہے، اور دعاء ثبور سے مراد موت کی تمنا کرنا ہے۔ قولہ : ھَا صلہ چونکہ جملہ ہے اس لئے مفسر علام نے ھَا ضمیر کو مقدر مان کر رابط کی طرف اشارہ کردیا۔ قولہ : اَذٰلک خیزّ اَمْ جنۃُ الخلد وعید اور نار زیادہ بہتر ہے یا جنۃ الخلد، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ نار میں بھی خیر ہے حالانکہ اس میں کوئی خیر نہیں ہے، جواب قرآن کریم میں خیرٌ اسم تفضیل اکثر اسم فاعل کے معنی میں مستعمل ہے لہٰذا کوئی شبہ نہیں، دوسرا جواب یہ ایسا ہی ہے کہ سید اپنے غلام کو کچھ رقم دے جس کی وجہ سے غلام شرارت اور سرکشی شروع کر دے، جس کے نتیجے میں سید غلام کو مارتے ہوئے کہے ھٰذا خیرٌ اَمْ ذَاک۔ سوال : جنۃ دار الخلد ہی کو کہتے ہیں تو پھر خلد کی قید کا کیا فائدہ ہے ؟ جواب : اضافت کبھی تو تبیین کے لئے ہوتی ہے، اور کبھی صفات کمال کے بیان کے لئے ہوتی ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کے قول الخالق الباری یہ اسی قبیل سے ہے۔ قولہ : فی علمہٖ تعالیٰ اس عبارت سے اس شبہ کا جواب مقصود ہے کہ جزاء اور مصیز آئندہ حشر و نشر کے بعد ہوں گے تو پھر ان کو ماضی کے صیغہ سے کیوں تعبیر کیا ہے ؟ اس کا ایک جواب مفسر (رح) نے فی علمہٖ تعالیٰ سے دیا ہے کہ اللہ کے علم میں چونکہ مقدر ہوچکا ہے اس لئے ماضی کے صیغہ سے تعبیر کردیا، دوسرا جواب کہ جس کا ہونا یقینی ہوتا ہے اس کو ماضی سے تعبیر کردیتے ہیں، قولہ : حالٌ لازمۃٌ خٰلِدِیْنَ لھُمْ کی ضمیر سے یا یشاءون کے واؤ سے حال ہے، حال لازمہ کا مطلب ہے کہ جو معنی ما سبق سے مفہوم ہو رہے ہیں اسی کی تاکید ہے، قولہ : وَعْدُھم کے اضافہ کا مقصد کان کے اسم کو ظاہر کرنا ہے یعنی وُعِدَ المتقون سے جو وَعْدٌ مفہوم ہوتا ہے۔ وھی کان کا اسم ہے، بعض حضرات نے ما یشاءون میں جو ما ہے اس کو کان کا اسم قرار دیا ہے۔ قولہ ویَوْمَ یحشرھم یہ اذکر فعل محذوف کا ظرف ہے اور قُلْ پر عطف ہے، نَحْشرُھُمْ کی مفعولی ضمیر سے غیر اللہ کی عبادت کرنے والے مراد ہیں اور وما یعبدون کا عطف ھم ضمیر پر ہے۔ قولہ : اِثْبَاتًا للحُجۃِ علی العابدین یہ ایک سوال مقدر کا جواب ہے، سوال یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ تو علام الغیوب ہے ماضی مستقبل اس کے لئے سب حال ہے تو پھر معبودین سے ءَاضْلَلْتُمْ ؟ کے ذریعہ سوال کرنے کا کیا مقصد ہے ؟ جواب : یہ سوال برائے استفہام نہیں ہے بلکہ لاجواب اور ساکت کرنے کے لئے ہے جیسا کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) سے سوال کیا جائے گا، أأنْتَ قلتَ للناس اتخذونی وامی الٰھَیْنِ مِنْ دُون اللہ اسی طرح وَاِذَا الموء ودت سئِلَتْ بِاَیِّ ذَنْبٍ قُتِلَتْ میں بھی سوال تبکیت ولا جواب کرنے کے لئے ہے۔ قولہ : بُوْرًا جمع بائر بمعنی اھل کی ھَلِیْکً کی جمع ہے۔ قولہ : اِنّھُمْ آلِھَۃٌ یہ تقولون کا مقولہ ہے اور مَا سے بدل بھی ہوسکتا ہے فَمَا یَسْتَطِیْعُونَ میں چونکہ حاضر اور غائب دونوں قرأتیں ہیں اس لئے مفسر علام نے لاَھُمْ وَلاَ اَنْتُمْ فرمایا تاکہ دونوں قرأتوں کی رعایت ہوجائے۔ قولہ : اِلاَّ اِنَّھُمْ بقول ابن الانباری کے یہ جملہ حال ہونے کی وجہ سے محل میں نصب کے ہے تقدیر عبارت یہ ہے اِلاَّ وَاِنَّھم اس کے نزدیک محذوف ہے، جمہور نے اِلاَّ اِنّھُمْ ہمزہ کے کسرہ کے ساتھ پڑھا ہے، اَنَّ کی خبر پر لام داخل ہونے کی وجہ سے اگر أنّ کی خبر پر لام داخل ہوجائے تو جمہور کے نزدیک اِنَّ بکسر الہمزۃ متعین ہے، اگرچہ بعض حضرات نے اَنَّ بھی جائز کہا ہے، مگر یہ درست نہیں ہے۔ (فتح القدیر شوکانی) تفسیر و تشریح تبارک الذی۔۔۔ جعل (الآیۃ) مطلب یہ ہے کہ اللہ کے خزانہ میں کیا کمی ہے وہ چاہے تو ایک باغ کیا بہت سے باغ اس سے بہتر عنایت فرما دے جس کا یہ لوگ مطالبہ کرتے ہیں، بلکہ اس کو قدرت ہے کہ آخرت میں جو باغات اور نہریں اور حور و قصور ملنے والے ہیں وہ سب آپ کو ابھی دنیا میں عطا کر دے لیکن حکمت الٰہی ابھی اس کی مقتضی نہیں، اور بیشمار حکمتوں کا تقاضہ یہ ہے کہ انبیاء کی جماعت کو مادی اور دنیوی مال و دولت سے الگ ہی رکھا جائے اور خود رسول اللہ ﷺ نے اپنے لئے اسی کو پسند فرمایا جیسا کہ ترمذی میں حضرت ابو امامہ باہلی کی روایت ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ میرے رب نے مجھ سے فرمایا کہ میں آپ کے لئے پورے بطحا اور اس کے پہاڑوں کو سونا بنا دیتا ہوں تو میں نے عرض کیا نہیں اے میرے پروردگار مجھے تو یہ پسند ہے کہ مجھے ایک روز پیٹ بھر کھانا ملے اور ایک روز بھوکا رہوں، آپ ﷺ کا یہ فقرہ احتیاج اختیاری تھا، اس کے علاوہ یہ بھی حقیقت ہے کہ اگر معاندین کے تمام مطالبات اور فرمائشیں بھی پوری کردی جائیں تب بھی یہ حق و صداقت کو قبول کرنے والے نہیں ہیں، باقی پیغمبر (علیہ السلام) کی صداقت کو ثابت کرنے کے لئے جو دلائل و معجزات پیش کئے گئے جا چکے ہیں، وہ کافی سے زیادہ ہیں، بَلْ کَذَّبُوْا بِالسَّاعَۃِ مطلب یہ ہے کہ یہ لوگ جن چیزوں کا مطالبہ کر رہے ہیں فی الحقیقت طلب حق کی نیت سے نہیں محض شرارت اور تنگ کرنے کے لئے ہے، اور شرارت کا سبب یہ ہے کہ انہیں ابھی تک قیامت اور سزاو جزا پر یقین نہیں آیا، سو یاد رکھنا چاہیے ان کے جھٹلانے سے کچھ نہیں ہوتا، قیامت آکر رہے گی اور ان مکذبین کے لئے آگ کا جو جیل خانہ تیار کیا گیا ہے اس میں ضرور رہنا پڑے گا، اِذَا رَأتْھُمْ مِنْ مکانٍ بَعِیْدٍ یعنی دوزخ کی آگ محشر میں جہنمیوں کو دور سے دیکھ کر جوش میں بھر جائے گی اور اس کی غضبناک آوازوں اور خوفناک پھنکاروں سے بڑے بڑے دلیروں کے پتے پانی ہوجائیں گے اور کافروں کو اپنے دامن میں لینے کیلئے چلائے گی اور جھنجلائے گی، جہنم کا دیکھنا اور چلانا حقیقت ہے مجاز یا استعارہ نہیں ہے، اللہ کیلئے اس کے اندر احساس و ادراک کی قوت پیدا کردینا مشکل نہیں اہل سنت والجماعت کا یہی عقیدہ ہے معتزلہ چونکہ رویت و تکلم چیخ و پکار حیات کا خاصہ قرار دیتے ہیں اس لئے مذکورہ صفات کے حقیقی معنی کا انکار کرتے ہیں اور مجاز و استعارہ پر محمول کرتے ہیں۔ وکان۔۔۔۔۔۔۔ مسئولا، یعنی ایسا وعدہ جو یقیناً پورا ہو کر رہے گا، اسی طرح اللہ نے اپنے ذمہ وعدہ واجب کرلیا ہے جس کا اہل ایمان اس سے مطالبہ کرسکتے ہیں، یہ محض اس کا فضل و کرم ہے کہ اس نے اہل ایمان کے لئے اس حسن جزاء کو اپنے لئے ضرور قرار دے لیا ہے، دنیا میں اللہ کے سوا جن کی عبادت کی جاتی رہی ہے، اور کی جاتی رہے گی، ان میں جمادات (پتھر، لوہا، لکڑی، سونا، چاندی اور دیگر دھاتوں سے بنی ہوئی مورتیاں) بھی ہیں، جو غیر عاقل ہیں اور اللہ کے نیک بندے بھی ہیں جو عاقل ہیں مثلاً حضرت عزیز حضرت مسیح (علیہا السلام) اور دیگر بہت سے نیک بندوں اسی طرح فرشتوں اور جنات کے پجاری بھی ہوں گے اللہ تعالیٰ غیر عاقل جمادات کو بھی شعور و ادراک اور گویائی کی قوت عطا فرمائے گا اور ان سب معبودوں سے معلوم کرے گا، بتلاؤ تم نے میرے بندوں کو اپنی عبادت کا حکم دیا تھا یا یہ اپنی مرضی سے تمہاری بندگی کرکے گمراہ ہوئے تھے ؟ تو وہ جواب دیں گے کہ جب ہم خود تیرے سوا کسی کو کارساز نہیں سمجھتے تھے تو پھر ہم اپنی بابت کس طرح لوگوں سے کہہ سکتے تھے کہ تم اللہ کے بجائے ہمیں اپنا ولی اور کارساز سمجھو۔ وجعلنا۔۔۔۔ فتنۃ، اس میں اس طرف اشارہ ہے کہ حق تعالیٰ کو قدرت تو سب کچھ تھی وہ سارے انسانوں کو یکساں مالدار بنا دیتا سب کو تندرست رکھتا، سب کو عزت و جاہ کے اعلیٰ مرتبہ پر فائز کردیتا، کوئی ادنیٰ اور کوئی اعلیٰ نہ ہوتا مگر نظام عالم میں اس کی وجہ سے بڑے رخنے پیدا ہوتے اس لئے حق تعالیٰ نے کسی کو مالدار بنایا کسی کو غریب، کسی کو قوی کسی کو ضعف کسی کو تندرست، کسی کو بیمار، کسی کو صاحب عزت اور کسی کو گمنام، اس اختلاف میں ہر طبقہ کا امتحان اور آزمائش ہے غنی کے شکر کا غریب کے صبر کا امتحان ہے، اسی لئے رسول اللہ ﷺ کی تعلیم یہ ہے کہ جب تمہاری نظر کسی ایسے شخص پر پڑے جو مال و دولت میں تم سے زیادہ ہو یا صحت و قوت اور عزت و جاہ میں تم سے بڑا ہو تو فوراً ایسے لوگوں پر نظر کرو جو ان چیزوں میں تم سے کم حیثیت رکھتے ہوں تاکہ تم حسد کے گناہ سے بھی بچ جاؤ اور اپنی موجودہ حالت میں اللہ تعالیٰ کا شکر کرنے کی توفیق ہو۔ (مظہری)
Top