Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Tafseer-e-Jalalain - Al-Hashr : 7
مَاۤ اَفَآءَ اللّٰهُ عَلٰى رَسُوْلِهٖ مِنْ اَهْلِ الْقُرٰى فَلِلّٰهِ وَ لِلرَّسُوْلِ وَ لِذِی الْقُرْبٰى وَ الْیَتٰمٰى وَ الْمَسٰكِیْنِ وَ ابْنِ السَّبِیْلِ١ۙ كَیْ لَا یَكُوْنَ دُوْلَةًۢ بَیْنَ الْاَغْنِیَآءِ مِنْكُمْ١ؕ وَ مَاۤ اٰتٰىكُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْهُ١ۗ وَ مَا نَهٰىكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوْا١ۚ وَ اتَّقُوا اللّٰهَ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ شَدِیْدُ الْعِقَابِۘ
مَآ اَفَآءَ اللّٰهُ
: جو دلوادے اللہ
عَلٰي رَسُوْلِهٖ
: اپنے رسول کو
مِنْ
: سے
اَهْلِ الْقُرٰى
: بستی والوں
فَلِلّٰهِ
: تو اللہ کے لئے
وَ للرَّسُوْلِ
: اور رسول کے لئے
وَ لِذِي الْقُرْبٰى
: اور قرابت داروں کیلئے
وَالْيَتٰمٰى
: اور یتیموں
وَالْمَسٰكِيْنِ
: اور مسکینوں
وَابْنِ السَّبِيْلِ ۙ
: اور مسافروں
كَيْ لَا يَكُوْنَ
: تاکہ نہ رہے
دُوْلَةًۢ
: ہاتھوں ہاتھ لینا (گردش)
بَيْنَ
: درمیان
الْاَغْنِيَآءِ
: مال داروں
مِنْكُمْ ۭ
: تم میں سے تمہارے
وَمَآ اٰتٰىكُمُ
: اور جو تمہیں عطا فرمائے
الرَّسُوْلُ
: رسول
فَخُذُوْهُ ۤ
: تو وہ لے لو
وَمَا نَهٰىكُمْ
: اور جس سے تمہیں منع کرے
عَنْهُ فَانْتَهُوْا ۚ
: اس سے تم باز رہو
وَاتَّقُوا اللّٰهَ ۭ
: اور تم ڈرو اللہ سے
اِنَّ اللّٰهَ
: بیشک اللہ
شَدِيْدُ
: سخت
الْعِقَابِ
: سزادینے والا
جو مال خدا نے اپنے پیغمبر کو دیہات والوں سے دلوایا ہے وہ خدا کے اور پیغمبر کے اور (پیغمبر کے) قرابت والوں کے اور یتیموں کے اور حاجت مندوں کے اور مسافروں کے لئے ہے تاکہ جو لوگ تم میں دولت مند ہیں انہی کے ہاتھوں میں نہ پھرتا رہے سو جو چیز تم کو پیغمبر دیں وہ لے لو اور جس سے منع کریں (اس سے) باز رہو۔ اور خدا سے ڈرتے رہو۔ بیشک خدا سخت عذاب دینے والا ہے
ما افآء اللہ علی رسولہ منھم (الآیۃ) افآء فی سے مشتق ہے جس کے معنی لوٹنے کے ہیں، اسی لئے زوال کے وقت کے سایہ کو فئی کہتے ہیں، اس لئے کہ زوال سے پہلے جو سایہ مغرب کی طرف تھا زوال کے بعد وہ سایہ مشرق کی طرف لوٹتا ہے، جو اموال غنیمت کفار سے حاصل ہوتے ہیں ان کی حقیقت یہ ہے کہ کفار کے باغی ہوجانے کی وجہ سے ان کے اموال بحق سرکار ضبط ہوجاتے ہیں اور ان کی ملکیت سے نکل کر پھر مالک حقیقی کی طرف لوٹ آتے ہیں، اس لئے ان کے حاصل ہونے کو افآء کے لفظ سے تعبیر فرمایا ہے، اس کا تقاضا یہ تھا کہ کفار سے حاصل ہونے والے تمام قسم کے اموال کو فئی کہا جائے، مگر جو مال جہاد و قتال کے ذریعہ حاصل ہو اس میں انسانی عمل اور جدوجہد کو بھی ایک قسم کا دخل ہوتا ہے اس لئے اس کو لفظ غنیمت سے تعبیر فرمایا واعلموا انما غنمتم من شیء اس کا مطلب یہ ہے کہ جو مال بغیر جہاد و قتال کے حاصل ہوا ہے وہ مجاہدین اور غانمین میں مال غنیمت کے قانون کے مطابق تقسیم نہیں ہوگا بلکہ اس کا کلی اختیار رسول اللہ ﷺ کے ہاتھ میں ہوگا، جس کو جتنا چاہیں عطا فرما دیں یا اپنے لئے رکھیں، ال بتہ یہ پابندی عائد کردی گئی اور چند اقسام مستحقین کی متعین کردی گئیں کہ اس مال کی تقسیم ان ہی اقسام میں دائر رہنی چاہیے، اس کا بیان آئندہ آیت میں اس طرح فرمایا ما افاء اللہ علی رسولہ من اھل القریٰ اس میں اہل قریٰ سے مراد بنو نضیر اور ان جیسے دوسرے قبائل بنو قریظہ وغیرہ ہیں جن کے اموال بغیر قتال کے حاصل ہوئے، آگے مصارف و مستحقین کی پانچ قسمیں بیان فرمائی گئی ہیں جن کا بیان آگے آتا ہے۔ (معارف) آیات مذکورہ میں فئی کے احکام اس کے مستحقین اور ان میں تقسیم کا طریقہ کار بیان فرمایا ہے اوپر مال غنیمت اور مال فئی میں فرق کا بیان ہوچکا ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ غنیمت اس مال کو کہا جاتا ہے جو کفار سے جہاد و قتال کے نتیجے میں حاصل ہوتا ہے اور فئی وہ مال جو بغیر جہاد و قتال کے حاصل ہوا خواہ اس طرح کہ وہ اپنا مال چھوڑ کر بھاگ گئے ہوں یا رضا مندی سے بصورت جزیہ وخراج یا تجارتی ڈیوٹی وغیرہ کے ذریعہ ان سے حاصل ہوا ہو، مذکورہ فرق کو فما اوجفتم علیہ من خیل ولا رکاب سے ظاہر کیا گیا ہے، اونٹ اور گھوڑے دوڑانے سے مراد جنگی کا رروائی ہے لہٰذا جو مال براہ راست اس کارروائی سے ہاتھ آئے وہ غنیمت ہے اور جس مال کے حصول کا اصل سبب یہ کارروائی نہ ہو وہ مال فئی ہے۔ مذکورہ مسئلہ کی مزید وضاحت : مال غنیمت اور مال فئی کے درمیان اوپر فرق بیان کیا گیا ہے اس کو اور زیادہ کھول کر فقہائے اسلام نے اس طرح بیان کیا ہے کہ مال غنیمت صرف اموال منقولہ ہیں جو جنگی کارروائیوں کے دوران دشمن کے لشکروں سے حاصل ہوں اور اس کے ماسوا دشمن کے ملک کی زمینیں مکانتا اور دیگر اموال منقولہ و غیر منقولہ غنیمت کی تعریف سے خارج ہیں، اس تشریح کا ماخذ حضرت عمر ؓ کا وہ خط ہے جو انہوں نے سعد بن ابی وقاص کو فتح عراق کے بعد لکھا تھا، اس میں وہ فماتے ہیں فانظر ما اجلبوا بہ علیک فی العسکرمن کراع اومال فاقسمہ بین من حضر من المسلمین و اترک الارضین والانھار لعمالھا لیکون ذلک فی اعطیات المسلمین ” جو مال و متاع فوج کے لوگ تمہارے لشکر میں سمیٹ لائے ہیں اس کو ان مسلمانوں میں تقسیم کردو جو جنگ میں شریک تھے اور زمینیں اور نہریں ان لوگوں کے پاس چھوڑ دو جو ان پر کام کرتے ہیں تاکہ ان کی آمدنی مسلمانوں کی تنخواہوں کے کام آئے۔ “ (کتاب الخراج لابی یوسف رحمتہ اللہ تعالیٰ ص 24) اسی بنیاد پر حضرت حسن بصری رحمتہ اللہ تعالیٰ کہتے ہیں کہ جو کچھ دشمن کے کیمپ سے ہاتھ آئے وہ ان کا حق ہے جنہوں نے اس پر فتح پائی اور زمین مسلمانوں کے لئے ہے، مال غنیمت میں پانچواں حصہ نکال کر باقی چار حصے فوج میں تقسیم کئے جائیں گے، یہ رائے یحییٰ بن آدم کی ہے جو انہوں نے اپنی کتاب ” الخراج “ میں بیان فرمائی ہے اس سے بھی زیادہ جو چیز غنیمت اور فئی کے فرق کو واضح کرتی ہے وہ یہ ہے کہ جنگ نہاوند کے بعد جب مال غنیمت تقسیم ہوچکا تھا اور مفتوجہ علاقہ اسلامی حکومت میں داخل ہوگیا تھا ایک صاحب سائب بن اقرع کو قلعہ میں جواہر کی دو تھیلیاں ملیں، ان کے دل میں یہ الجھن پیدا ہوئی کہ آیا یہ مال غنیمت ہے جسے فوج میں تقسیم کیا جائے یا اس کا شمار اب فئی میں ہے، جسے بیت المال میں جمع ہونا چاہیے ؟ آخر کار انہوں نے مدینہ حاضر ہو کر معاملہ حضرت عمر ؓ کے سامنے یش کیا، اور انہوں نے فیصلہ فرمایا کہ اسے فروخت کر کے اس کی قیمت بیت المال میں داخل کردی جائے، اس سے معلوم ہوا کہ غنیمت صرف وہ اموال منقولہ ہیں جو دوران جنگ کے ہاتھ آئیں، جنگ ختم ہونے کے بعد اموال غیر منقولہ کی طرح اموال منقولہ بھی فئی کے حکم میں داخل ہوجاتے ہیں۔ مذکورہ آیت میں مستحقین کی تعداد چھ بتائی گئی ہے، جن میں ایک اللہ ہے، ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ تو پوری کائنات کا مالک ہے اسے حصے کی کیا ضرورت ؟ مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جن لوگوں کو یہ مال ملک تصرف کے طور پردے رکھا تھا جب انہوں نے غداری کی اور مالک حقیقی کے خلاف علم بغاوت بلند کردیا تو اللہ نے اپنے وفادار بندوں کے ذریعہ یہ مال واپس اپنی ملکیت میں لے لیا، اسی وجہ سے اس کو مال فئی کہتے ہیں، اب اس میں سے جس کو بھی ملے گا، وہ کسی انسان کی جانب سے خیرات یا صدقہ نہیں ہوگا بلکہ وہ اللہ رب العالمین کی جانب سے نہایت پاکیزہ عطیہ ہوگا، یہی وجہ ہے کہ مال فئی میں سے بنی ہاشم اور بنی عبدالمطلب کو بھی دیا جاتا تھا۔ اب مستحق اور مصارف کل پانچ رہ گئے 1 روسل 2 ذوی القربی 3 یتیم 4 مسکین 5 مسافر یہی پانچ مصارف مال غنیمت کے خمس کے ہیں، جس کا بیان سورة انفال میں آیا ہے اور یہی مصارف مال فئی کے ہیں، مال فئی کے بارے میں یہ بات پہلے مذکور ہوچکی ہے کہ آپ ﷺ کی وفات کے بعد اغنیاء ذوی القربیٰ کا حصہ ساقط ہوگیا، فقراء ذوی القربی کا حصہ آج بھی باقی ہے، یہ مسلک امام ابوحنیفہ رحمتہ اللہ ت عالیٰ کا ہے، امام شافعی رحمتہ اللہ تعالیٰ اغنیاء ذوی القربیٰ کے حصہ کو آپ کی وفات کے بعد ساقط نہیں کرتے بلکہ جس طرح آپ ﷺ کی حیات مبارکہ میں ان کا حصہ تھا آج بھی حصہ ہے، امام شافعی رحمتہ اللہ تعالیٰ کی دلیل یہ بیان کی گئی کہ ذوی الرقبیٰ کو حصہ ان کے احترام و اکرام کے طور پر دیا جاتا تھا اس میں اغنیاء اور قراء سب شامل ہیں مثلاً حضرت عباس ؓ مالدار آدمی تھے مگر ان کو بھی مال فئی میں سے دیا جاتا تھا۔ امام ابوحنیفہ رحمتہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ذوی القربیٰ کو مال فئی سے دینے کے دو وجہ ہیں ایک نصرت رسول ﷺ یعنی اسلامی کاموں میں رسول اللہ ﷺ کی مدد کرنا، اس لحاظ سے اغنیاء ذوی القربیٰ کو بھی حصہ دیا جاتا تھا، دوسرے یہ کہ رسول اللہ ﷺ کے ذوبی القربیٰ پر مال صدقہ حرام کردیا گیا ہے، تو ان کے فقراء و مساکین کو صدقہ کے بدلہ میں مال فئی سے حصہ دیا جاتا تھا، رسول اللہ ﷺ کی وفات کے بعد نصرت و امداد کا سلسلہ ختم ہوگیا، تو یہ وجہ باقی نہ رہی اس لئے اغنیاء ذوی القربیٰ کا حصہ بھی روسل کے حصہ کی طرح ختمہو گیا البتہ فقراء ذوی القربیٰ کا حصہ بحیثیت فقر و احتیاج کے اس مال میں باقی رہا، ال بتہ وہ اس مال میں دوسرے فقراء و مساکین کے مقابلہ میں مقدم رکھے جائیں گے۔ (کذا فی الھدایہ) کیلایکون دولۃ بین الاغنیاء منکم، دولۃ دال کے ضمہ کے ساتھ اور ایک لغت فتحہ کے ساتھ بھی ہے دست گرداں (چرخہ) دال یدول دولاً (ن) گردش کرنا، دولت بھی چونکہ گردش کرتی ہے، آج اسکے پاس تو کل اس کے پاس، اس لئے اس کو دولت کہتے ہیں (لغات القرآن) آیت کا مطلب یہ ہے کہ مال فئی کے مستحقین اس لئے متعین کردیئے گئے ہیں تاکہ یہ مال مالداروں ہی کے درمیان گردش کرنے والی چیز نہ بن جائے۔ یہ آیت قرآن مجید کی اہم ترین اصولی آیات میں سے ہے، جس میں اسلامی معاشرہ اور حکومت کی معاشی پالیسی کا یہ بنیادی قاعدہ بیان کیا گیا ہے کہ دولت کی گردش پورے معاشرے میں عام ہونی چاہیے، ایسا نہ ہو کہ مال صرف مالداروں ہی میں گھومتا رہے، جس کے نتیجے میں امیر روز بروز امیر تر اور غریب روز بروز غریب تر ہوتے چلے جائیں، قرآن مجید میں اس پالیسی کو صرف بیان کرنے ہی پر اکتفا نہیں کیا گیا، بلکہ اسی مقصد کے لئے سود، سٹہ، جواء، جو اکتساب مال کے ایسے ذرائع ہیں کہ ان کے ذریعہ دولت چند افراد کے ہاتھوں میں سمٹ کر رہ جاتی ہے، ان سب کو سخت حرام قرار دیا ہے، اور زکوۃ فرض کی گئی ہے، اموال غنیمت میں سے خمس نکالنے کا حکم دیا گیا ہے جن سے، دولت کی معاشرے کے غریب طبقات تک رسائی ہو سکے، اخلاقی حیثیت سے بھی بخل کو سخت قابل مذمت اور فیاضی کو بہترین صفت قرار دیا گیا ہے، خوشحال طبقوں کو یہ سمجھایا گیا ہے کہ ان کے مال میں سائل اور محروم کا حق ہے جسے خیرات سمجھ کر ادا کرنا چاہیے۔ یہ بات یاد رکھنے کے قابل ہے کہ اسلامی حکومت کے ذرائع آمدنی کی اہم ترین مدات دو ہیں، ایک زکوۃ اور دوسرے فئی ہی کے لئے مخصوص ہے اور فئی میں جزیہ اور خراج سمیت وہ تمام آمدنیاں شامل ہیں جو غیر مسلموں سے حاصل ہوتی ہیں اور ان کا بھی بڑا حصہ غریبوں ہی کے لئے مخصوص کیا گیا ہے، یہ اس طرف کھلا ہوا اشارہ ہے کہ اسلامی حکومت کو اپنی آمد و خرچ کا نظام اور تمام ملای اور معاشی معالمتا کا اتنظام اس طرح کرنا چاہیے کہ دولت کے ذرائع پر مالدار اور با اثر لوگوں کی اجارہ داری قائم نہ ہو اور نہ دولت مندوں کے درمیان گردش کرتی رہ جائے، کیسے بےبصیرت ہیں وہ لوگ جو اسلام جیسے منصفانہ اور عادلانہ اور حکیمانہ نظام کو چھوڑ کر نئے نئے ازموں کو اختیار کر کے امن عالم کو برباد کرتے ہیں ؟ ما اتکم الرسول فخذوہ ومانھاکم عنہ فانتھوا واتقوا اللہ (آلایۃ) یہ آیت اگرچہ مال فئی کے سلسلہ میں ائٓی ہے اور اس سلسلہ کے مناسب اس کا مفہوم یہ ہے کہ مال فئی میں اگرچہ مستحقین کے طبقات بیان کردیئے ہیں مگر ان میں کس کو کتنا دیں اس کی تعیین رسول اللہ ﷺ کی صوابدید پر رکھی ہے اس لئے مسلمانوں کو اس آیت میں ہدایت دی گئی ہے کہ جس کو جتنا آپ عطا فرمائیں اسی کو راضی ہو کرلے لیں اور جو نہ دیں اس کی فکر میں نہ پڑیں، آگے اس کو اتقوا اللہ کے حکم سے مئوکد کردیا کہ اگر اس معاملہ میں کچھ غلط حیلے بہانے بنا کر زائد وصول کر بھی لیا تو اللہ تعالیٰ کو سب خبر ہے وہ اس کی سزا دے گا۔
Top