Tafseer-e-Jalalain - Al-Anfaal : 73
وَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا بَعْضُهُمْ اَوْلِیَآءُ بَعْضٍ١ؕ اِلَّا تَفْعَلُوْهُ تَكُنْ فِتْنَةٌ فِی الْاَرْضِ وَ فَسَادٌ كَبِیْرٌؕ
وَالَّذِيْنَ : اور وہ لوگ جو كَفَرُوْا : انہوں نے کفر کیا بَعْضُهُمْ : ان کے بعض اَوْلِيَآءُ : رفیق بَعْضٍ : بعض (دوسرے) اِلَّا تَفْعَلُوْهُ : اگر تم ایسا نہ کروگے تَكُنْ : ہوگا فِتْنَةٌ : فتنہ فِي : میں الْاَرْضِ : زمین وَفَسَادٌ : اور فساد كَبِيْرٌ : بڑا
اور جو لوگ کافر ہیں (وہ بھی) ایک دوسرے کے رفیق ہیں تو (مومنو) اگر تم یہ (کام) نہ کرو گے تو ملک میں فتنہ برپا ہوجائے گا اور بڑا فساد مچے گا۔
وَالذین کفروا بعضھم اولیاء بعض، یہاں ولایت کے معنی اشتراک عداوت کے ہیں کہ یہود و نصاریٰ اور مشرکین قریش آپس میں شدید دشمن تھے لیکن رسول اللہ ﷺ کی عداوت میں سب ایک ہوگئے تھے اور یہ صورت حال آج تک چلی آرہی ہے غیر قومیں کیسی ہی ایک دوسرے کی دشمن ہوں لیکن اسلام کے مقابلہ میں سب ایک ہوجاتی ہیں۔ (ماجدی) لفظ ولی چونکہ ایک عام مفہوم رکھتا ہے جس میں وراثت بھی داخل ہے اور معاملات کی ولایت و سرپرستی بھی اسلئے اس آیت سے معلوم ہوا کہ کافر آپس میں ایک دوسرے کے وارث سمجھے جائیں گے اور تقسیم وراثت کا جو قانون ان کے مذہب میں رائج ہے ان کے درمیان اسی کو نافذ کیا جائیگا، نیز ان کے یتیم بچوں کا ولی، لڑکیوں کے نکاح کا ولی بھی ان ہی میں سے ہوگا، مطلب یہ کہ ان کے عائلی مسائل اسلامی حکومت میں محفوظ رکھے جائیں گے۔ اِلاّ........، اگر اس فقرے کا تعلق، والذین کفروا بعضھم اولیاء بعض سے مانا جائے تو مطلب یہ ہوگا کہ جس طرح کفار ایک دوسرے کی حمایت کرتے ہیں اگر تم اے اہل ایمان، آپس میں ایک دوسرے کی حمایت نہ کرو گے تو زمین میں فساد عظیم برپا ہوگا، الا تفعلوہ تکن فتنتہ الخ کا تعلق اگر مذکورہ تمام احکام کے ساتھ ہو جو آیت 72 سے یہاں تک بیان ہوئے ہیں تو اس ارشاد کا مطلب یہ ہوگا مثلاً یہ کہ مہاجرین و انصار کو آپس میں ایک دوسرے کا ولی ہونا چاہیے جس میں باہمی امداد و اعانت بھی داخل ہے اور وارثت بھی، دوسرے یہ کہ اس وقت کے مہاجر و غیر مہاجر کے درمیان وراثت کا تعلق نہ ہونا چاہیے مگر دینی رشتہ کی بنیاد پر امداد و نصرت کا تعلق اپنی شرائط کے ساتھ باقی رہنا چاہیے، تیسرے یہ کہ کفار آپس میں ایک دوسرے کے اولیاء ہیں ان کے قانون ولایت و وراثت میں کسی قسم کی دخل اندازی مسلمان کو نہیں کرنی چاہیے۔ اگر ان احکام پر عمل نہ کیا گیا تو زمین میں فتنہ و فساد پھیل پڑے گا، یہ تنبیہ غالباً اس لئے کی گئی ہے کہ جو احکام اس جگہ بیان ہوئے ہیں وہ عدل و انصاف اور امن عامہ کے لئے بنیادی اصول کی حیثیت رکھتے ہیں، کیونکہ ان آیات نے یہ واضح کردیا کہ باہمی امداد و اعانت اور وراثت کا تعلق جیسے رشتہ داری پر مبنی ہے ایسے ہی اس میں مذہبی اور دینی رشتہ بھی قابل لحاظ ہے بلکہ نسبی رشتہ پر دینی رشتہ کع ترجیح حاصل ہے اسی وجہ سے مسلمان کافر کا اور کافر مسلمان کا وارث نہیں ہوسکتا اگرچہ وہ آپس میں نسبی رشتہ سے باپ اور بیٹے یا بھائی ہی کیوں نہ ہوں، اس کے ساتھ ہی مذہبی تعصب اور عصبیت جاہلیت کی روک تھام کرنے کے لئے یہ بھی ہدایت دے دی گئی ہے کہ مذہبی رشتہ اگرچہ قوی اور مضبوط ہے مگر معاہدہ کی پابندی اس سے بھی مقدم اور قابل ترجیح ہے، مذہبی تعصب کے جوش میں معاہدہ کی خلاف ورزی جائز نہیں اسی طرح یہ ہدایت بھی دیدی گئی کہ کفار آپس میں ایک دوسرے کے ولی اور وارث ہیں ان کی شخص ولایت و وراثت میں مداخلت نہ کی جائے دیکھنے میں تو یہ جزائی احکام اور فروغی مسائل ہیں مگر درحقیقت امن عالم کے لئے عدل و انصاف کے بہترین اور جامع بنیادی اصول ہیں اسی لئے اس جگہ ام احکام کو بیان فرمانے کے بعد ایسے الفاظ سے تنبیہ فرمائی گئی جو عام طور پر دوسرے احکام کے لئے نہیں کی گئی کہ اگر تم نے ان احکام پر عمل نہ کیا تو زمین میں فتنہ اور فساد پر پا ہوجائیگا، ان الفاظ میں اس کی طرف اشارہ ہے کہ یہ احکام فتنہ و فساد روکنے میں خاص دخل و اثر رکھتے ہیں، تیسری آیت میں مکہ سے شہادت اور ان کی مغفرت اور با عزت روزی کا وعدہ فرمایا گیا ہے۔
Top