Mazhar-ul-Quran - At-Tawba : 118
وَّ عَلَى الثَّلٰثَةِ الَّذِیْنَ خُلِّفُوْا١ؕ حَتّٰۤى اِذَا ضَاقَتْ عَلَیْهِمُ الْاَرْضُ بِمَا رَحُبَتْ وَ ضَاقَتْ عَلَیْهِمْ اَنْفُسُهُمْ وَ ظَنُّوْۤا اَنْ لَّا مَلْجَاَ مِنَ اللّٰهِ اِلَّاۤ اِلَیْهِ١ؕ ثُمَّ تَابَ عَلَیْهِمْ لِیَتُوْبُوْا١ؕ اِنَّ اللّٰهَ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِیْمُ۠   ۧ
وَّعَلَي : اور پر الثَّلٰثَةِ : وہ تین الَّذِيْنَ : وہ جو خُلِّفُوْا : پیچھے رکھا گیا حَتّٰى : یہانتک کہ اِذَا : جب ضَاقَتْ : تنگ ہوگئی عَلَيْهِمُ : ان پر الْاَرْضُ : زمین بِمَا رَحُبَتْ : باوجود کشادگی وَضَاقَتْ : اور وہ تنگ ہوگئی عَلَيْهِمْ : ان پر اَنْفُسُھُمْ : ان کی جانیں وَظَنُّوْٓا : اور انہوں نے جان لیا اَنْ : کہ لَّا مَلْجَاَ : نہیں پناہ مِنَ : سے اللّٰهِ : اللہ اِلَّآ : مگر اِلَيْهِ : اس کی طرف ثُمَّ : پھر تَابَ عَلَيْهِمْ : وہ متوجہ ہوا ان پر لِيَتُوْبُوْا : تاکہ وہ توبہ کریں اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ ھُوَ : وہ التَّوَّابُ : توبہ قبول کرنیوالا الرَّحِيْمُ : نہایت مہربان
اور ان تینوں پر بھی جن کا معاملہ ملتوی کیا گیا تھا۔ یہاں تک کہ جب زمین باجود فراخی کے ان پر تنگ ہوگئی اور ان کی جانیں بھی ان پر دوبھر ہوگئیں اور انہوں نے جان لیا کہ خدا (کے ہاتھ) سے خود اس کے سوا کوئی پناہ نہیں۔ پھر خدا نے ان پر مہربانی کی تاکہ توبہ کریں۔ بیشک خدا توبہ قبول کرنے والا مہربان ہے۔
غزوہ تبوک میں پیچھے رہنے والے صحابہ اور کعب بن مالک کا واقعہ تفسیر 118:” وعلی الثلثۃ الذین خلفوا “ یعنی غزوہ تبوک سے پیچھے رہ گئے اور بعض نے کہا ہے کہ ” خلفوا “ یعنی ان کا معاملہ مئو خر کیا گیا ابو لبا بہ ؓ اور ان کے ساتھیوں کی توبہ سے اور یہ تین حضرات کعب بن مالک ؓ کا بیان نقل کیا ہے کہ حضرت کعب نے فرمایا جس غزوہ پر بھی رسول اللہ ﷺ تشریف لے گئے میں کسی غزوہ میں حضور ﷺ کے ساتھ سے سوائے غزوہ تبوک کے ‘ پیچھے نہیں رہا۔ ہاں غزوہ بدر میں ساتھ نہیں گیا تھا ( اور بدر میں میرا شریک نہ ہونا قابل مواخذہ نہ تھا کیونکہ) جو لوگ بدر کو نہ جاسکے ان میں سے کسی پر اللہ نے عتاب نہیں کیا۔ وجہ یہ تھی کہ رسول اللہ ﷺ قریش کے قافلہ کے ارادہ سے نکلے تھے ( لڑائی کا ارادہ ہی نہ تھا) لیکن بغیر کسی مقررہ وعدہ کے دشمن سے بحکم خدا مڈ بھیڑ ہوگئی۔ میں عقبہ والی رات میں بھی حاضر تھا ( یعنی تیسرے عقبہ کے موقع پر جب انصار نے بیعت کی تھی ‘ میں بھی موجود تھا) وہاں ہم سب نے اسلام پر مضبوط عہدو پیمان کیا تھا۔ اگر چہ لوگوں میں بدر کی شہرت زیادہ ہے لیکن شب عقبہ کی حاضری کے مقابلہ میں بدر کی شرکت میرے خیال میں افضل نہیں ہے۔ میرا واقعہ یہ ہوا کہ غزوہ تبوک کے زمانہ میں میں بڑا طاقتور اور فراخ حال تھا۔ اس سے پہلے کبھی میں اتنا مرفہ الحال اور طاقتور نہ ہوا۔ اس زمانہ میں پہلی ہی مرتبہ میرے پاس سواری کی دو انٹنیاں ہوئیں۔ اس سے پہلے میرے پاس کبھی دو سواریاں نہیں ہوئیں۔ رسول اللہ ﷺ کا قاعدہ تھا کہ جب کسی جہاد کا ارادہ کرتے تھے تو بطور تو ریہ کسی دوسرے جہاد کا نام لے دیتے تھے اور فرماتے تھے لڑائی خفیہ تدبیر ( کا نام) ہے۔ جب تبوک کے جہاد کا موقع آیا تو گرمی سخت تھی ‘ سفر طویل تھا ‘ راستہ میں بیابان تھے ‘ دشمنوں کی تعداد بہت تھی ‘ اس لیے رسول اللہ ﷺ نے مسلمانوں سے کھول کر بیان فرمادیا تھا اور اپنے رخ کی صحیح اطلاع دے دی تھی تاکہ اپنے جہاد کی تیاری کرلیں ۔ مسلمانوں کی تعداد رسول اللہ ﷺ کے ساتھ بہت تھی۔ بقول مسلم دس ہزار مسلمان ساتھ تھے۔ حاکم نے اکلیل میں حضرت معاذ کی روایت سے لکھا ہے کہ غزوہ تبوک کو جانے کے وقت ہماری تعداد تیس ہزار سے بھی زائد تھی۔ ابو زرعہ نے کہا : کسی کتاب میں ان کے نام محفوظ نہ تھے۔ زہری نے کہا کتاب سے مراد رجسٹر ہے جو آدمی بھی غیر حاضر ہونا چاہتا تھا۔ وہ یہی سمجھتا تھا کہ جب تک میرے بارے میں اللہ کی طرف سے وحی نہ آئے ‘ میرا معاملہ پوشیدہ ہے ( کسی کو پتہ بھی نہ چلے گا) حضور ﷺ اور آپ کے ساتھ مسلمانوں نے تیاریاں کرلیں اور جمعرات کے دن روانہ ہوگئے۔ آپ سفر پر خواہ جہاد کا ہو یا کسی اور غرض سے ‘ جمعرات کو روانہ ہونا ہی پسند فرماتے تھے۔ میں بھی ( روزانہ) صبح کو تیاری کرنے کے ارادہ سے گھر سے نکلتا تھا مگر بغیر کچھ کئے وپس آجاتا تھا اور دل میں کہتا تھا : مجھ میں استطاعت ہے ‘ جب چاہوں گا فوراً کرلوں گا۔ یونہی وقت ٹلتارہا ‘ یہاں تک کہ گرمی سخت ہوگئی اور رسول اللہ ﷺ مسلمانوں کو ساتھ لے کر روانہ ہوگئے اور میں اپنی کچھ بھی تیاری نہ کرسکا اور دل میں خیال کرلیا کہ حضور ﷺ کے بعد ایک دوروز میں تیاری مکمل کر کے پیچھے سے جا پہنچوں گا مسلمانوں کی روانگی کے بعد میں تیاری کرنے کے لیے صبح کو نکلا مگر بغیر کچھ کئے لوٹ آیا۔ پھر دوسرے روز صبح کو نکلا ‘ تب بھی کچھ نہیں کیا۔ اسی طرح مدت بڑھتی گئی یہاں تک کہ لوگ دور چلےئے اور تیزی کے ساتھ جہاد کی طرف بڑھ گئے اور میں ارادہ ہی کرتا رہا کہ ( جلد ) کوچ کر کے ان کو پیچھے سے جالوں گا۔ کاش ! میں نے ایسا کرلیا ہوتا ‘ مگر میرے مقدر میں ہی نہیں تھا۔ رسول اللہ ﷺ کی روانگی کے بعد جب میں باہر نکل کر لوگوں کو دیکھتا تھا تو گھومنے کے بعد مجھے یا تو صرف وہ لوگ نظر آتے تھے جو منافق کہے جاتے تھے یا وہ کمزور لوگ دکھائی دیتے تھے جن کو اللہ نے معذور بنادیا تھا اور کوئی نظر نہیں آتا تھا۔ تبوک پہنچنے تک رسول اللہ ﷺ نے میرا تذکرہ نہیں کیا۔ تبوک پہنچ کر ایک روز آپ صحابہ میں بیٹھے ہوئے تھے کہ دریافت فرمایا : کعب بن مالک کو کیا ہوگیا ؟ بنی سلمہ کے یا میر ی قوم کے ایک آدمی نے ( جس کا نام حسب روایت محمد بن عمر ‘ عبد اللہ بن اینس سلمی تھا) کہا : یا رسول اللہ ﷺ ! اس کو اس کی دو چادروں نے اورص غرور و فخر کے ساتھ) اپنے دونوں پہلوئوں پر دیکھنے نہیں آنے دیا (یعنی آج کل وہ مرفہ الحال ہے ‘ ایک چادر باندھتا ہے ‘ ایک اوڑھتا ہے اور دونوں طرف گردن موڑ موڑ کر اپے مونڈھوں کو دیکھتا ہے ‘ اسی وجہ سے وہ نہ آسکا) حضرت معاذ بن جبل یا ابو قتادہ نے کہا : تم نے بری بات کہی ( ایسا نہیں ہے) یار سول اللہ ﷺ ! خدا کی قسم میں نے اس کے اندر سوائے اچھائی کے اور کچھ نہیں پایا۔ رسول اللہ ﷺ خاموش ہوگئے۔ حضرت کعب بن مالک کا بیان ہے : جب مجھے اطلاع ملی کہ رسول اللہ ﷺ واپس آنے کے لیے چل پڑے ہیں تو مجھے بڑی فکر ہوئی اور رسول اللہ ﷺ کے سامنے پیش کرنے کے لیے عذر بنانے لگا اور ایسی بات کی تیاری کرنے لگا کہ کل کو رسول اللہ ﷺ کی ناراضگی سے میں کس طرح بچ سکوں گا۔ مختلف اہل الرائے اور گھر والوں سے میں نے اس معاملہ میں مدد بھی لی۔ پھر جب مجھ سے کہا گیا کہ رسول اللہ ﷺ قریب ہی آپہنچے ہیں تو میرے دل سے تمام غلط خیالات جاتے رہے اور میں سمجھ گیا کہ جس بات میں جھوٹ کی آمیزش ہوگی ‘ اس کے ذریعہ سے میں ناراضگی سے کبھی محفوظ نہیں رہ سکتا۔ چناچہ میں نے سچ بولنے کا پختہ ارادہ کرلیا اور یقین کرلیا کہ سچائی ہی مجھے نجات دے سکتی ہے۔ صبح کو حضور ﷺ تشریف لے آئے۔ ابن سعد نے کہا رمضان میں (واپس پہنچے) کعب نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ جب ( سفر سے واپس ) آتے تھے تو دن چڑھے مدینہ میں پہنچتے تھے اور سب سے پہلے مسجد میں پہنچ کر دو رکعت نماز پڑھتے تھے ‘ پھر وہیں بیٹھ جاتے تھے ‘ پھر وہاں سے حضرت فاطمہ کے پاس تشریف لے جاتے تھے ‘ اس کے بعد امہات المومنین کے ہاں جاتے تھے۔ حسب دستور آپ نے سب سے پہلے مسجد میں پہنچ کر دور کعت نماز پڑھی ‘ پھر وہیں لوگوں کے ( معاملات سننے کے) لئے بیٹھ گئے۔ اب تبوک کی شرکت سے رہنے والے لوگ آنے لگے اور ( اپنے اپنے) عذر پیش کرنے اور قسمیں کھانے لگے۔ یہ سب لوگ کچھ اوپر اسی تھی۔ رسول اللہ ﷺ نے ان کے ظاہری عذر کو قبول کرلیا ‘ ان سے بیعت لے لی اور ان کے لیے دعائے مغفرت کی اور ان کے باطن کو اللہ کے سپرد کردیا۔ جب میں خدمت گرامی میں حاضر ہوا اور سلام کیا تو آپ مسکرادیئے ‘ مگر مسکراہٹ غصہ آلود تھی اور فرمایا آئو۔ میں چلتا چلتا سامنے پہنچ کر بیٹھ گیا۔ ابن عابد کی روایت میں آیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے کعب کی طرف سے منہ پھیرلیا۔ کعب نے عرض کیا : یارسول اللہ ﷺ ! آپ نے میری طرف سے کیوں منہ پھیرلیا ؟ واللہ ! میں منافق نہیں ہوں ‘ نہ مجھیص اسلام کی صداقت میں) کوئی شک ہے ‘ نہ میں ( عقیدہ اسلام سے) بدل گیا ہوں۔ فرمایا پھر تم ( ساتھ جانے سے) کیوں رہ گئے ‘ کیا تم نے سواری نہیں خرید لی تھی ؟ میں نے عرض کیا : بیشک ( میں نے سواری بھی خرید لی تھی) یا رسول اللہ ﷺ ! اگر میں کسی اور دنیا دار کے ساتھ اس وقت بیٹھا ہوتا تو خدا کی قسم ! کوئی عذر معذرت کر کے اس کی ناراضگی سے بچ جاتا۔ کیونکہ مجھ میں قوت کلامیہ (اور دلیل کی طاقت ) موجود ہے ‘ لیکن مجھے معلوم ہے کہ اگر میں آپ کے سامنے جھوٹ بنا بھی دوں گا اور آپ راضی بھی ہوجائیں گے تب بھی عنقریب اللہ آپ کو مجھ سے ناراض کر دے گا اور اگر سچ سچ کہہ دوں گا تو گو آپ ناراض ہوجائیں گے مگر امید ہے کہ اللہ مجھے معاف فرما دے گا۔ بخدا ! مجھے کوئی عذر نہ تھا ‘ نہ اس سے پہلے میں اتنا طاقتور اور فراخ حال (کبھی ہوا) تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اس نے سچی بات کہہ دی۔ اب تم اٹھ جائو اور اللہ جو کچھ چاہے گا ۔ تمہارے متعلق فیصلہ کردے گا۔ میرے سچ بولنے کی وجہ سے بنی سلمہ کے کچھ لوگ برانگیختہ ہوگئے اور کہنے لگے : تو نے اس سے پہلے تو کوئی جرم کیا نہ تھا ‘ نہ اتنا کمزور تھا کہ جس طرح دوسرے شرکت نہ کرنے والوں نے اپنی عدم شرکت کے عذر کئے ( اور عتاب سے بچ گئے) تو کوئی عذر نہ پیش کرسکتا ( آئندہ) رسول اللہ ﷺ کی دعائے مغفرت تیرے ( اس ) گناہ کے معاف ہونے کے لیے کافی تھی۔ غرض وہ برابر مجھے ڈانٹتے اور سرزنش کرتے رہے اور اتنی سرزنش کی کہ میرا ارادہ ہوگیا کہ دوبارہ خدمت گرامی میں حاضر ہو کر اپنے پہلے قول کی تکذیب کردوں۔ لیکن میں نے کہہ دیا ‘ مجھ سے دو جرم یکجا نہیں ہوسکتے کہ جہاد میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ بھی نہیں گیا اور اب حضور ﷺ سے جھوٹ بھی بولوں۔ پھر میں نے لوگوں سے دریافت کیا : کیا میرے ساتھ ایسا کوئی اور بھی ہے جو تبوک کو نہیں گیا ہو ( اور اس نے کوئی عذر تراشی بھی نہ کی ہو) لوگوں نے کہا : ہاں دو آدمی اور بھی ہیں جنہوں نے اسی طرح کی بات کہی تھی جیسی تو نے کی تھی اور ان کو بھی وہی ہدایت کی گئی جو تجھے کی گئی۔ میں نے پوچھا : وہ دونوں کون ہیں ؟ لوگوں نے کہا : مرارہ بن ربیع عمری اور ہلال بن امیہ واقضی۔ حضرت کعب کا بیان ہے کہ : لوگوں نے میرے سامنے دو نیک آدمیوں کا نام لیا جو بدر میں شریک ہوچکے تھے اور جن کی پیروی کی جاسکتی تھی۔ ان کا نام سن کر میں اپنی سابق بات پر قائم رہا جو لوگ تبوک کو نہیں گئے تھے ‘ ان میں سے صرف ہم تینوں سے ہی رسول اللہ ﷺ نے مسلمانوں کو کلام کرنے کی ممانعت فرمادی۔ لوگ اس فرمان کے بعد ہمارے لئے بالکل بدل گئے۔ ابن ابی شیبہ کی روایت میں آیا ہے : ہم صبح کو لوگوں میں نکلتے تھے مگر کوئی ہم سے سلام کلام نہیں کرتا تھا ‘ نہ ہمارے سلام کا جواب دیتا تھا۔ عبدالرزاق کی روایت ہے : لوگ ایسے بدل گئے کہ گویا وہ ہم کو جانتے ہی نہیں ہیں۔ درو دیوار اجنبی ہوگئے ‘ وہ درو دیوار ہی نہ رہے جن کو ہم پہچانتے تھے۔ میرے لئے سب سے زیادہ رنج آفریں یہ خیال تھا کہ اگر میں اسی حالت میں مرگیا تو رسول اللہ ﷺ میرے جنازہ کی نماز بھی نہیں پڑھیں گے اور اگر اسی دوران میں رسول اللہ ﷺ کی وفات ہوگئی تو میری یہی حالت قائم رہے گی کہ نہ کوئی مجھ سے کلام کرے گا نہ میرے جنازے کی نماز پڑھے گا۔ یہاں تک نوبت پہنچی کہ وہ سرزمین ہی میرے لئے اجنبی ہوگئی ‘ وہ بستی وہ نہ رہی جو میری ثنا ساتھی۔ یہ حالت پچاس رات قائم رہی۔ میرے دونوں ساتھی تو کمزور تھے ‘ وہ گھروں میں بیٹھ رہے مگر میں طاقتور اور جوان تھا ‘ گھر سے نکل کر مسلمانوں کے ساتھ نماز میں شریک ہوتا تھا اور بازاروں میں گھومتا تھا مگر کوئی مجھ سے کلام سلام نہیں کرتا تھا۔ نماز کے بعد جب رسول اللہ ﷺ صحابہ کے جلسہ میں بیٹھے ہوتے تو میں حاضر ہو کر سلام کرتا اور دل میں کہتا : کیا حضور ﷺ نے سلام کا جواب دینے کے لیے لب مبارک ہلائے یا نہیں ‘ پھر حضور ﷺ کے پاس پہنچ کر (دانستہ) نماز پڑھتا اور کن انکھیوں سے دیکھتا رہتا (کہ) حضور ﷺ کی توجہ میری طرف ہوئی یا نہیں ( جب میں نماز کی طرف متوجہ ہوتا تو حضور ﷺ میری طرف منہ کرلیتے ‘ لیکن جب میں التفات نظر کرتا تو آپ منہ پھیر لیتے۔ جب مدت تک لوگ مجھ سے یو نہی دور دور رہے تو ایک روز دیوار پھلانگ کر میں ابو قتادہ کے پاس ان کے باغ میں پہنچ گیا۔ ابو قتادہ میرے چچاز اد تھے قبیلہ بنی سلمہ سے تھے ‘ میرے باپ کے بھائی کے بیٹے نہ تھے۔ مجھے ان سے بڑی محبت تھی۔ میں نے ان کو سلام کیا مگر خدا کی قسم ! انہوں نے سلام کا جواب نہیں دیا۔ میں نے کہا : ابو قتادہ ! یہ تو تم کو معلوم ہی ہے کہ میں اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہوں۔ ابو قتادہ خاموش رہے۔ میں نے پھر اپنی بات دہرائی۔ وہ خاموش رہے ‘ کوئی بات نہیں کی۔ تیسری یا چوتھی بار کہنے کے بعد انہوں نے کہا اللہ اور اس کے رسول ہی کو خوب معلوم ہے۔ یہ سن کر میری آنکھوں سے آنسہ بہہ نکلے اور لوٹ کر دیوار پھلانگ کر میں آگیا۔ ایک روز میں بازار میں جارہا تھا کہ علاقہ شا م کا رہنے والا ایک دیہاتی نظر پڑا ‘ یہ شخص غلہ لے کر مدینہ میں بیچنے آیا تھا۔ کسی سے اس نے پوچھا : مجھے کعب بن مالک کا پتہ بتادے۔ لوگوں نے میری طرف اشارہ کردیا۔ وہ میرے پاس آیا اور ایک خط مجھے دیا جو شاہ غسان کی طرف سے تھا ( یعنی بادشاہ شام کی طرف سے) ابن ابی شیبہ کی روایت میں ہے کہ میرے قبیلہ کا کوئی آدمی شام میں تھا ‘ اس نے بھیجا تھا۔ خط ریشمی کپڑے کے ایک ٹکڑے میں لپٹا ہوا تھا اور اس میں لکھا تھا : مجھے اطلاع ملی ہے کہ تمہارے ساتھی نے تم کو دور کردیا ہے اور پرے پھینک دیا ہے اور اللہ نے تم کو ایسا نہیں بنایا کہ ذلت کے مقام میں رہو اور تمہارا حق ضائع کیا جاتا رہے۔ اس لئے اگر تم سکونت منتقل کرنا چاہتے ہو تو ہم سے آملو ‘ ہم تمہاری مدد کردیں گے۔ خط پڑھ کر میں نے کہا : یہ بھی ( اللہ کی طرف سے) آزمائش ہے کہ کافر بھی میر الالچ کرنے لگے ( میری ذات کافروں کے لالچ کی جو لان گاہ بن گئی) پھر میں نے تحریر کو تنور میں جھونک دیا۔۔ ابن عابد کی روایت میں آیا ہے کہ حضرت کعب نے رسول اللہ ﷺ سے اپنی حالت کا شکوہ کیا اور عرض کیا : آپ کی مجھ سے رو گردانی اب اس حد تک پہنچ گئی کہ مشرک میرا لالچ کرنے لگے۔ جب پچاس راتوں میں سے چالیس راتوں میں چالیس راتیں گزر گئیں تو اچانک رسول اللہ ﷺ کا ایک قاصد میرے پاس پہنچا۔ محمد بن عمر نے اس قاصد کا نام خزیمہ بن ثابت بتایا ہے ‘ یہی قاصد مرارہ اور ہلال کے پاس بھی گیا۔ قاصد نے کہا : رسول اللہ ﷺ نے تمکو حکم دیا ہے کہ اپنی بیوی سے الگ ہو جائو۔ میں نے کہا : کیا طلاق دے دوں یا کچھ اور ؟ اس نے کہا : طلاق کا حکم نہیں ہے۔ اس سے الگ رہو ‘ قربت نہ کرو۔ میرے دونوں ساتھیوں کے پاس بھی یہی حکم پہنچا۔ حسب الحکم میں نے اپنی بیوی سے کہا : اپنے گھر چلی جا اور فیصلہ قطعی ہونے تک وہیں رہ۔ ہلال بن امیہ کی بیوی یعنی خولہ بنت عاصم نے خدمت گرامی میں حاضر ہو کر عرض کیا : یارسول اللہ ﷺ ! ہلال بن امیہ بوڑھا آدمی ہے ‘ اپنا کام خود نہیں کرسکتا اور اس کا کوئی خادم بھی نہیں ہے۔ کیا اگر میں اس کا کام کردیا کروں تو آپ کی ناگواری کا باعث ہوگا ؟ ابن ابی شیبہ کی روایت میں یہ الفاظ ہیں : وہ بوڑھا ہے ‘ نظر بہت کمزور ہے۔ حضور ﷺ نے فرمایا : نہیں ( کام کردینے کی ممانعت نہیں ہے) مگر وہ تجھ سے قربت نہ کرے۔ عورت نے کہا : خدا کی قسم ! اس کو تو کسی بات کی حس ہی نہیں ہے۔ جب سے اس کا یہ واقعہ ہوا ہے برابر آج تک رونے میں مشغول ہے۔ حضرت کعب کا بیان ہے مجھ سے بھی میرے کسی گھر والے نے کہا اگر ہلال بن امیہ کی بیوی کی طرح تم بھی اپنی بیوی کے لیے رسول اللہ ﷺ سے اجازت لے لو وہ تمہاری خدمت کردیا کرے تو مناسب ہے میں نے کہا خدا کی قسم میں رسول اللہ ﷺ سے اجازت نہیں مانگوں گا۔ کیا معلوم حضور ﷺ کیا فرمائیں اور میں تو جوان آدمی ہوں ( مجھے دوسرے سے کام لینے کی ضرورت نہیں ہے) اسی حالت میں دس راتیں اور گزر گئیں اور پچاس راتیں پوری ہوگئیں۔ کعب کا بیا ن ہے پچاسویں رات کی صبح کو میں فجر کی نماز پڑھنے کے بعد اپنے گھر کی چھت پر (بیٹھا) تھا اور میری حالت وہ تھی جو اللہ نے بیان فرمائی ہے ( ضاقت علیھم الارض بما رحبت) زمین باوجود فراخ ہونے کے میرے لئے تنگ ہوگئی تھی۔ یکدم ایک چیخنے والے کی آواز سنائی دی جو کوہ سلع پر چڑھ کر انتہائی اونچی آواز سے چیخا تھا : اے کعب بن مالک ! تجھے خوشخبری ہو۔ محمد بن عمر کی روایت ہے کہ وہ کوہ سلع پر چڑھنے والے حضرت ابوبکر تھے۔ آپ نے ہی پکار کر کہا تھا : اللہ نے کعب پر رحم فرما دیا۔ اے کعب ! خوش ہوجا۔ عقبہ کی روایت ہے کہ دو آدمی دوڑے ہوئے حضرت کعب کو بشارت دینے کے لیے گئے ‘ ایک آگے بڑھ گیا جو پیچھے رہ گیا تھا ‘ و ہ کوہ سلع پر چڑھ گیا اور وہیں سے اس نے ندا کی : اے کعب ! تو بہ قبول ہونے کی تجھے بشارت ہو۔ اللہ نے تم لوگوں کے بارے میں قرآن نازل فرمادیا۔ اہل تاریخ کا خیال ہے کہ بشار دینے کے لیے دوڑنے والے یہ دونوں حضرات حضرت ابوبکر و حضرت عمر تھے۔ حضرت کعب ؓ کا بیان ہے آواز سنتے ہی میں سجدہ میں گرپڑا اور خوشی سے رونے لگا اور سمجھ گیا کہ کشائش کا وقت آگیا۔ رسول اللہ ﷺ نے نماز فجر ادا کرنے کے بعد ہماری توبہ قبول ہونے کا اعلان فرمایا۔ لوگ ہم کو بشارت دینے کے لیے آگئے۔ کچھ اور لوگ میرے دونوں ساتھیوں کو خوشخبری دینے کے لیے پہنچے۔ ایک شخص گھوڑا دوڑاتا میرے پاس آیا۔ محمد بن عمر نے کہا : یہ حضرت زبیر بن عوام تھے۔ قبیلہ اسلم کا ایک اور شخص بھی دوڑ پڑا مگر گھوڑے کے پہنچنے سے پہلے مجھے آواز پہنچ گئی تھی۔ اس لئے جب وہ شخص آیا جس کی آواز میں نے سنی تھی ‘ یعنی حمزہ اسلمی تو میں نے اپنے دونوں کپڑے اتار کر اس کو پہنا دیئے۔ خدا کی قسم ! میرے پاس ان دو کپڑوں کے سوا اور کپڑے ہی نہ تھے۔ ابو قتادہ ( بروایت میں محمد بن عمر) سے دو کپڑے عاریۃ لے کر میں نے پہنے۔ ہلال بن امیہ کو قبول توبہ کی خوشخبری دینے سعید بن زید گئے تھے۔ ہلال نے کھانا پینا چھوڑ دیا تھا ‘ مسلسل روزے رکھ رہے تھے اور برابر رونے میں مشغول تھے۔ میرا خیال تھا کہ وہ سر بھی نہیں اٹھا سکتے ‘ ان کی جان نکل جائے گی۔ مرارہ بن ربیع کو بشارت سلکان بن سلامہ نے دی۔ یہ سلامہ بن وقش کے باپ تھے۔ حضرت کعب بن مالک کا بیان ہے کہ میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہونے کے لیے روانہ ہوا۔ راستہ میں لوگوں کے گروہ در گروہ مبارک باد دینے کے لیے مجھ سے ملتے رہے۔ آخر میں مسجد میں داخل ہوا۔ رسول اللہ ﷺ بیٹھے ہوئے تھے ‘ گرد اگر د لوگ بھی موجود تھے۔ مجھے دیکھ کر طلحہ بن عبید اللہ اٹھے اور لپک کر میری طرف بڑھے ‘ مجھ سے مصافحہ کیا اور مبارکباد دی۔ مہاجرین میں سے سوائے طلحہ کے اور کوئی نہیں اٹھا۔ میں طلحہ کی یہ بات نہیں بھولوں گا۔ رسول اللہ ﷺ کا چہرہ مبارک خوشی سے چمک رہا تھا۔ میں نے سلام کیا۔ حضور ﷺ نے فرمایا : جب سے تو ماں کے پیٹ سے پیدا ہوا ہے ‘ اس وقت سے آج تک ہر دن سے بہتر دن کی تجھے بشارت ہو۔ میں نے عرض کیا : یارسول اللہ ﷺ ! کیا یہ آپ کی طرف سے ہے یا اللہ کی طرف سے ! فرمایا : نہیں ‘ اللہ کی طرف سے ہے۔ تم لوگوں نے اللہ سے سچا معاملہ کیا ‘ اللہ نے بھی تم کو سچا قرار دیا۔ رسول اللہ ﷺ کی عادت تھی کہ خوشی کے وقت آپ کا چہرہ چمکنے لگتا تھا ‘ معلوم ہوتا تھا چاند کا ٹکڑا ہے۔ ہم دیکھ کر پہچان لیتے تھے ( کہ حضور ﷺ اس وقت خوش ہیں) جب میں سامنے بیٹھا تو عرض کیا : یارسول اللہ ﷺ ! میری توبہ کا تتمہ یہ ہے کہ اپنے کل مال سے دستبردار ہو جائوں اور بطور صدقہ اللہ اور اس کے رسو کے خدمت میں پیش کردوں۔ فرمایا کچھ مال اپنے لئے بھی روک رکھو ‘ تمہارے لئے یہی بہتر ہے۔ میں نے عرض کیا : اچھا ! نصف مال ( سے دستبردار ہوتا ہوں) فرمایا : نہیں۔ میں نے عرض کیا : تو ایک تہائی ( قبول کرلیجئے) فرمایا اچھا۔ میں نے عرض کیا تو خیبر میں جو میرا حصہ ہے ‘ میں اس کو روکے رکھتا ہوں۔ پھر میں نے عرض کیا یارسول اللہ ﷺ ! اللہ تعالیٰ نے سچ بولنے کی وجہ سے مجھے نجات دی ہے۔ لہٰذا میری توبہ کا تتمہ یہ بھی ہے کہ جب تک زندہ رہوں گا۔ سچ بہی بولوں گا۔ خدا کی قسم ! میں نہیں جانتا کہ سچ بولنے کی وجہ سے جو کرم اللہ نے مجھ پر کیا ہے ‘ کسی اور پر اس سے بہتر احسان کیا ہوگا۔ چناچہ اس عہدے کے بعد آج تک میں نے کبھی جھوٹ نہیں بولا اور امید ہے کہ جب تک زندہ رہوں گا۔ اللہ جھوٹ بولنے سے مجھے محفوظ رکھے گا۔ اللہ نے توبہ قبول فرمانے کے سلسلہ میں لقد تاب اللہ علی النبی والمھاجرین والا نصار سے وکونوامع ا الصادقین تک آیات نازل فرمائیں۔ ” حتی اذا ضاقت علیھم الارض بما رحبت وضاقت علیھم انفسھم “ غم کی وجہ سے ” وظنوا “ یعنی انہوں نے یقین کرلیا۔” ان لا ملجا من اللہ یعنی اللہ سے کوئی جائے فرار نہ ہے الا الیہ ط ثم تاب علیھم لیتوبوا “ یعنی تاکہ وہ توبہ پر قائم رہیں کیونکہ توبہ تو وہ پہلے کرچکے تھے۔” ان اللہ ھوالتواب الرحیم “
Top