Tafseer-al-Kitaab - At-Tawba : 118
وَّ عَلَى الثَّلٰثَةِ الَّذِیْنَ خُلِّفُوْا١ؕ حَتّٰۤى اِذَا ضَاقَتْ عَلَیْهِمُ الْاَرْضُ بِمَا رَحُبَتْ وَ ضَاقَتْ عَلَیْهِمْ اَنْفُسُهُمْ وَ ظَنُّوْۤا اَنْ لَّا مَلْجَاَ مِنَ اللّٰهِ اِلَّاۤ اِلَیْهِ١ؕ ثُمَّ تَابَ عَلَیْهِمْ لِیَتُوْبُوْا١ؕ اِنَّ اللّٰهَ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِیْمُ۠   ۧ
وَّعَلَي : اور پر الثَّلٰثَةِ : وہ تین الَّذِيْنَ : وہ جو خُلِّفُوْا : پیچھے رکھا گیا حَتّٰى : یہانتک کہ اِذَا : جب ضَاقَتْ : تنگ ہوگئی عَلَيْهِمُ : ان پر الْاَرْضُ : زمین بِمَا رَحُبَتْ : باوجود کشادگی وَضَاقَتْ : اور وہ تنگ ہوگئی عَلَيْهِمْ : ان پر اَنْفُسُھُمْ : ان کی جانیں وَظَنُّوْٓا : اور انہوں نے جان لیا اَنْ : کہ لَّا مَلْجَاَ : نہیں پناہ مِنَ : سے اللّٰهِ : اللہ اِلَّآ : مگر اِلَيْهِ : اس کی طرف ثُمَّ : پھر تَابَ عَلَيْهِمْ : وہ متوجہ ہوا ان پر لِيَتُوْبُوْا : تاکہ وہ توبہ کریں اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ ھُوَ : وہ التَّوَّابُ : توبہ قبول کرنیوالا الرَّحِيْمُ : نہایت مہربان
اور (اسی طرح) ان تین (اصحاب) پر بھی (توجہ فرمائی) جن کا معاملہ ملتوی کردیا گیا تھا یہاں تک کہ جب زمین (اپنی) ساری وسعت کے باوجود ان پر تنگ ہوگئی تھی اور وہ خود بھی اپنی جانوں سے تنگ آگئے تھے اور انہوں نے سمجھ لیا تھا کہ اللہ سے (بھاگ کر) سوائے اس کے کہیں پناہ نہیں تو اس نے اپنی رحمت سے ان پر توجہ فرمائی تاکہ وہ (اس کی طرف) رجوع کرتے رہا کریں۔ بلاشبہ اللہ بڑا توبہ قبول کرنے والا (اور) ہمیشہ رحم کرنے والا ہے۔
[70] ان کا حال حاشیہ 57 میں گزر چکا ہے نیز تشریح آیت نمبر 118 حواشی کے آخر میں ملاحظہ فرمائیں۔ یہ تینوں صاحب جیسا کہ سورت کے حاشیہ 57 میں بیان کیا جا چکا ہے کعب بن مالک، ہلال بن امیّہ اور مرارہ بن ربیع تھے۔ یہ حضرات سچے مومن تھے اور اس سے پہلے اپنے اخلاص کا بارہا ثبوت دے چکے تھے۔ آخر الذکر دو اصحاب تو غزوہ بدر کے شرکاء میں سے تھے، جن کی صداقت ایمانی ہر شبہ سے بالا تر تھی۔ اول الذکر اگرچہ بدری نہ تھے لیکن بدر کے سوا ہر غزوے میں نبی ﷺ کے ساتھ رہے۔ ان خدمات کے باوجود جو سستی اس نازک موقع پر جب کہ تمام قابل جنگ اہل ایمان کو جنگ کے لئے نکل آنے کا حکم دیا گیا تھا، ان حضرات نے دکھائی اس پر سخت گرفت کی گئی۔ چناچہ نبی ﷺ نے تبوک سے واپس تشریف لا کر مسلمانوں کو حکم دیا کہ کوئی ان سے سلام کلام نہ کرے۔ فی الواقع مدینہ کی بستی میں ان کا وہی حال ہوگیا تھا جس کی تصویر اس آیت میں کھینچی گئی ہے۔ ان تینوں صاحبوں میں سے کعب بن مالک ؓ نے اپنا قصہ بہت تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے جو غایت درجہ سبق آموز ہے۔ انہوں نے اپنے صاحبزادے عبداللہ سے یہ قصہ خود بیان کیا : غزوہ تبوک کی تیاری کے زمانے میں نبی ﷺ جب کبھی شرکت جنگ کی اپیل کرتے تھے میں اپنے دل میں ارادہ کرلیتا تھا کہ چلنے کی تیاری کروں گا مگر پھر واپس آکر سستی کرجاتا تھا اور کہتا تھا کہ جب چلنے کا وقت آئے گا تو تیار ہوتے کیا دیر لگتی ہے، اسی طرح بات ٹلتی رہی، یہاں تک کہ لشکر کی روانگی کا وقت آگیا اور میں تیار نہ تھا۔ میں نے دل میں کہا کہ لشکر کو چلنے دو ، میں دو روز بعد راستے ہی میں اس سے جاملوں گا۔ مگر پھر وہی سستی مانع ہوئی حتیٰ کہ وقت نکل گیا۔ اس زمانے میں جبکہ میں مدینے میں رہا میر ادل یہ دیکھ کر بہت کڑھتا تھا کہ میں پیچھے جن لوگوں کے ساتھ رہ گیا ہوں وہ یا تو منافق ہیں یا ضعیف اور معذور لوگ ہیں جن کو اللہ نے معذور رکھا ہے۔ جب نبی ﷺ تبوک سے واپس تشریف لائے تو حسب معمول آپ نے مسجد میں آکر دو رکعت نماز پڑھی، پھر لوگوں سے ملاقات کے لئے بیٹھے۔ اس مجلس میں منافقین نے آآ کر اپنے عذرات لمبی چوڑی قسموں کے ساتھ پیش کرنے شروع کئے، یہ 80 سے زیادہ آدمی تھے۔ رسول اللہ ﷺ نے ان میں سے ایک ایک کی بناوٹی باتیں سنیں۔ انکے ظاہری عذرات کو قبول کرلیا اور انکے با طن کو اللہ پر چھوڑ کر فرمایا اللہ تمہیں معاف کرے۔ پھر میری باری آئی۔ میں نے آگے بڑھ کو سلام عرض کیا۔ آپ میری طرف دیکھ کر مسکرائے اور فرمایا " تشریف لائیے، آپ کو کس چیز نے روکا تھا ؟ " میَں نے عرض کیا واقعہ یہ ہے کہ میرے پاس کوئی عذر نہیں ہے جسے پیش کرسکوں، میں جا نے پر پوری طرح قادر تھا۔ اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، یہ شخص ہے جس نے سچی بات کہی ہے۔ اچھا اٹھ جاؤ اور انتظار کرو۔ یہاں تک کہ اللہ تمہارے معاملے میں کوئی فیصلہ کرے۔ میں اٹھا اور اپنے قبیلے کے لوگوں میں جا بیٹھا۔ یہاں سب کے سب میرے پیچھے پڑگئے اور مجھے بہت ملامت کی کہ تو نے کوئی عذر کیوں نہ کردیا۔ یہ با تیں سن کر میرا نفس بھی کچھ آمادہ ہونے لگا کہ پھر حاضر ہو کر کوئی بات بنادوں۔ مگر جب مجھے معلوم ہوا کہ مرارہ بن ربیع اور ہلال بن اُ میّہ نے بھی وہ سچی بات کہی ہے جو میں نے کہی تھی تو مجھے تسکین ہوگئی اور میں اپنی سچائی پر جما رہا۔ اسکے بعد نبی ﷺ نے عام حکم دے دیا کہ ہم تینوں آدمیوں سے کوئی شخص بات نہ کرے۔ وہ دونوں تو گھر بیٹھ گئے مگر میں نکلتا تھا، جماعت کے ساتھ نماز پڑھتا تھا، بازاروں میں چلتا پھر تا تھا اور کوئی مجھ سے بات نہ کرتا تھا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ یہ سر زمین با لکل بدل گئی ہے۔ میں یہاں اجنبی ہوں اور اس بستی میں کوئی بھی میرا واقف کار نہیں۔ ایک روز میں گھبرا کر اپنے چچا زاد بھائی اور بچپن کے یار ابو قتادہ کے پاس گیا اور ان کے باغ کی دیوار پر چڑھ کر انہیں سلام کیا مگر اس اللہ کے بندے نے سلام کا جواب تک نہ دیا۔ میں نے کہا " ابو قتادہ میں تمہیں اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کہ کیا میں اللہ اور اس کے رسول سے محبت نہیں رکھتا ؟ " وہ خاموش رہے۔ میں نے پھر پو چھا تو وہ پھر خاموش رہے۔ تیسری مر تبہ جب میں نے قسم دے کر یہی سوال کیا تو انہوں نے بس اتنا کہا " اور اس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں۔ " اس پر میری آنکھوں سے آنسو نکل آئے اور میں دیوار سے اترآیا۔ انہی دنوں ایک دفعہ میں بازار سے گزر رہا تھا کہ ایک شخص مجھے ملا اور اس نے شاہ غسّاں کا خط حریر میں لپٹا ہو امجھے دیا میں نے کھول کر پڑھا تو اس میں لکھا تھا کہ ہم نے سنا ہے کہ تمہارے صاحب نے تم پر ستم توڑ رکھا ہے، تم کوئی ذلیل آدمی نہیں ہو، نہ اس لائق ہو کہ تمہیں ضائع کیا جائے، ہمارے پاس آجاؤ ہم تمہاری قدر کریں گے۔ میں نے کہا یہ ایک اور بلا نازل ہوئی اور اسی وقت اس خط کو چولھے میں جھونک دیا۔ چالیس (40) دن اس حالت میں گزر چکے تھے کہ نبی ﷺ کا آدمی پیغام لے کر آیا کہ اپنی بیوی سے بھی علیحدہ ہوجاؤ۔ میں نے پوچھا کیا طلاق دے دوں ؟ جواب ملا نہیں بس الگ رہو، چناچہ میں نے اپنی بیوی سے کہہ دیا کہ تم اپنے میکے چلی جاؤ اور انتظار کرو یہاں تک کہ اللہ اس معاملے کا فیصلہ کر دے۔ پچاسویں دن صبح کی نماز کے بعد میں اپنے مکان کی چھت پر بیٹھا ہوا تھا اور اپنی جان سے بیزار ہو رہا تھا کہ یکایک کسی شخص نے پکار کر کہا " مبارک ہو کعب بن مالک " میں یہ سنتے ہی سجدے میں گرگیا اور میں نے جان لیا کہ میری معافی کا حکم ہوگیا ہے۔ پھر تو فوج درفوج لوگ بھا گے چلے آرہے تھے اور ہر ایک دوسرے سے پہلے پہنچ کر مجھ کو مبارک باد دے رہا تھا کہ تیری توبہ قبول ہوگئی۔ میں اٹھا اور سیدھا مسجدِ نبوی کی طرف چلا۔ دیکھا کہ نبی ﷺ کا چہرہ خوشی سے چمک رہا ہے۔ میں نے سلام کیا تو فرمایا " تجھے مبارک ہو، یہ دن تیری زندگی میں سب سے بہتر ہے " میں نے پوچھا یہ معافی آپ ﷺ کی طرف سے ہے یا اللہ کی طرف سے ؟ فرمایا اللہ کی طرف سے اور یہ آیات سنائیں۔ یہ قصہ اپنے اندر بہت سے سبق رکھتا ہے جو ہر مومن کے دلنشین ہونے چاہئیں ـ:۔ سب سے پہلی بات تو اس سے یہ معلوم ہوئی کہ کفرو اسلام کی کشمکش کا معاملہ کس قدر اہم اور کتنا نازک ہے کہ اس کشمکش میں کفر کا ساتھ دینا تو درکنار، جو شخص اسلام کا ساتھ دینے میں نیک نیتی سے کسی ایک موقع ہی پر کوتاہی برت جاتا ہے اس کی زندگی بھر کی عبادت اور دین داری خطرے میں پڑجاتی ہے۔ دوسری بات جو اس سے کچھ کم اہم نہیں یہ ہے کہ ادائے فرض میں تساہل کوئی معمولی چیز نہیں ہے بلکہ بسا اوقات تساہل ہی تساہل میں آدمی کسی ایسے کفر کا مرتکب ہوجا تا ہے جس کا شمار بڑے گناہوں میں ہوتا ہے اور اس وقت یہ بات اسے پکڑ سے نہیں بچا سکتی کہ اس نے اس قصور کا ارتکاب بدنیتی سے نہیں کیا تھا۔ پھر یہ قصہ اس معاشرے کی روح کو بڑی خوبی کے ساتھ ہمارے سامنے بےنقاب کرتا ہے جو نبی ﷺ کی قیادت میں بنا تھا۔ ایک طرف منافقین ہیں جنکی غدّاریاں سب پر آشکارا ہیں مگر ان کے ظاہری عذر سن لئے جاتے ہیں اور در گزر کیا جاتا ہے کیونکہ ان سے خلوص کی امید ہی کب تھی۔ دوسری طرف ایک آزمودہ کار مومن ہے جس کی جا نثاری پر شبہ تک کی گنجائش نہیں اور وہ صاف صاف قصور کا اعتراف کرلیتا ہے مگر اس پر غضب کی بارش برسادی جاتی ہے، نہ اس بنا پر کہ اس کے مومن ہونے پر کوئی شبہ ہوگیا ہے بلکہ اس بنا پر کہ مومن ہو کر اس نے وہ کام کیوں کیا جو منافقوں کے کرنے کا تھا۔ مطلب یہ تھا کہ زمین کے نمک تو تم ہو، تم سے بھی اگر نمکینی حاصل نہ ہوئی تو پھر اور نمک کہاں سے آئے گا۔ پھر اس سارے قضیئے میں لیڈر جس شان سے سزا دیتا ہے اور پیرو جس شان سے اس سزا کو بھگتتا ہے اور پوری جماعت جس شان سے اس سزا کو نافذ کرتی ہے اس کا ہر پہلو بےنظیر ہے اور یہ فیصلہ کرنا مشکل ہوجاتا ہے کہ کس کی زیادہ تعریف کی جائے۔ لیڈر نہایت سخت سزا دے رہا ہے مگر غصے اور نفرت کے ساتھ نہیں بلکہ گہری محبت کے ساتھ، پیرو سزا کی سختی پر تڑپ رہا ہے مگر دل میں اپنے محبوب لیڈر کے خلاف کوئی شکایت تک نہیں آنے دیتا بلکہ وہ اس کی محبت میں اور زیادہ سرشار ہوگیا ہے۔ ڈسپلن کا یہ حال کہ ادھر لیڈر کی زبان سے بائیکاٹ کا حکم نکلا ادھر پوری جماعت نے مجرم سے نگاہیں پھر لیں۔ کوئی قریب سے قریب رشتہ دار اور کوئی گہرے سے گہرا دوست بھی اس سے بات نہیں کرتا۔ بیوی تک اس سے الگ ہوجاتی ہے۔ اللہ کا واسطہ دے دے کر پوچھتا ہے کہ میرے خلوص میں تو تم کو شبہ نہیں ہے مگر وہ لوگ بھی جو اس کو مخلص جانتے تھے صاف کہہ دیتے ہیں کہ ہم سے نہیں اللہ اور اس کے رسول سے اپنے خلوص کی سند حاصل کرو۔ دوسری طرف اخلاقی اسپرٹ اتنی بلند اور پاکیزہ کہ معافی کا اعلان ہوتے ہی لوگ دوڑ پڑتے ہیں کہ اس سے ملیں اور اسے خوش خبری پہنچائیں۔ یہ نمونہ ہے اس صالح جماعت کا جسے قرآن دنیا میں قائم کرنا چاہتا ہے۔
Top