Ahkam-ul-Quran - At-Tawba : 118
وَّ عَلَى الثَّلٰثَةِ الَّذِیْنَ خُلِّفُوْا١ؕ حَتّٰۤى اِذَا ضَاقَتْ عَلَیْهِمُ الْاَرْضُ بِمَا رَحُبَتْ وَ ضَاقَتْ عَلَیْهِمْ اَنْفُسُهُمْ وَ ظَنُّوْۤا اَنْ لَّا مَلْجَاَ مِنَ اللّٰهِ اِلَّاۤ اِلَیْهِ١ؕ ثُمَّ تَابَ عَلَیْهِمْ لِیَتُوْبُوْا١ؕ اِنَّ اللّٰهَ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِیْمُ۠   ۧ
وَّعَلَي : اور پر الثَّلٰثَةِ : وہ تین الَّذِيْنَ : وہ جو خُلِّفُوْا : پیچھے رکھا گیا حَتّٰى : یہانتک کہ اِذَا : جب ضَاقَتْ : تنگ ہوگئی عَلَيْهِمُ : ان پر الْاَرْضُ : زمین بِمَا رَحُبَتْ : باوجود کشادگی وَضَاقَتْ : اور وہ تنگ ہوگئی عَلَيْهِمْ : ان پر اَنْفُسُھُمْ : ان کی جانیں وَظَنُّوْٓا : اور انہوں نے جان لیا اَنْ : کہ لَّا مَلْجَاَ : نہیں پناہ مِنَ : سے اللّٰهِ : اللہ اِلَّآ : مگر اِلَيْهِ : اس کی طرف ثُمَّ : پھر تَابَ عَلَيْهِمْ : وہ متوجہ ہوا ان پر لِيَتُوْبُوْا : تاکہ وہ توبہ کریں اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ ھُوَ : وہ التَّوَّابُ : توبہ قبول کرنیوالا الرَّحِيْمُ : نہایت مہربان
اور ان تینوں پر بھی جن کا معاملہ ملتوی کیا گیا تھا۔ یہاں تک کہ جب زمین باجود فراخی کے ان پر تنگ ہوگئی اور ان کی جانیں بھی ان پر دوبھر ہوگئیں اور انہوں نے جان لیا کہ خدا (کے ہاتھ) سے خود اس کے سوا کوئی پناہ نہیں۔ پھر خدا نے ان پر مہربانی کی تاکہ توبہ کریں۔ بیشک خدا توبہ قبول کرنے والا مہربان ہے۔
قول باری ہے وعلی الثلاثۃ الذین خلفوا اور ان تینوں کو بھی اس نے معاف کردیا جن کے معاملے کو ملتوی کردیا گیا تھا ۔ حضرت ابن عباس ؓ ، حضرت جابر ؓ ، مجاہد اور قتادہ کا قول ہے کہ یہ تین افراد حضرت کعب بن مالک ؓ ، حضرت بلال بن امیہ ؓ اور حضرت مرارہ بن الربیع تھے ۔ مجاہد کا قول ہے کہ ان حضرات کی توبہ کا معاملہ موخر کردیا گیا تھا جبکہ قتادہ کے قول کے مطابق یہ حضرات غزوہ ٔ تبوک میں لشکر اسلام کے ساتھ جانے کی بجائے پیچھے رہ گئے تھے ۔ یہ تینوں حضرات دوسرے لوگوں کے ساتھ پیچھے رہ گئے تھے حالانکہ ان کا اسلام پکا اور انکا ایمان پختہ تھا۔ جب حضور ﷺ غزوۂ تبوک سے واپس تشریف لے آئے تو منافقین نے آپ کے پاس آ کر جھوٹی قسمیں کھائیں اور اپنا اپنا عذر بیان کیا ۔ اللہ تعالیٰ نے ان منافقین کی اصل حقیقت کی اطلاع ان آیات کے ذریعے دے دی سیعلفون باللہ لکم اذا القلبتم الیھم لتعرضوا عنھم فاعرضوا عنھم تمہاری واپس پر یہ تمہارے سامنے قسمیں کھائیں گے تا کہ تم ان سے صرف نظر کرو تو بیشک تم ان سے صرف نظر ہی کرو نیز یحلفون لکم لترضوا عنھم فان ترضوا عنھم فان اللہ لا یرضی عن القوم الفاسقین تمہارے سامنے قسمیں کھائیں گے تا کہ تم ان سے راضی ہوجائے ۔ حالانکہ اگر تم ان سے راضی ہو بھی گئے تو اللہ ہرگز ایسے فاسق لوگوں سے راضی نہ ہو۔ اللہ تعالیٰ نے ایسے لوگوں سے صرف نظر کرنے کا حکم دیا اور ان سے رضا مندی کے اظہار سے منع فرما دیا اس لیے کہ یہ لوگ اپنی معذرت خواہی میں جھوٹے تھے اور انہوں نے اپنے دلوں میں جو کچھ چھپا رکھا تھا اسے اپنی زبان پر نہیں لاتے تھے۔ رہ گئے وہ تین افراد جن کا ذکر آیت میں ہوا ہے، وہ سچے مسلمان تھے اور انہوں نے اپنے بارے میں حضور ﷺ کے سامنے کسی دروغ بیانی سے کام نہیں لیا تھا بلکہ کھلے الفاظ میں اعتراف کرلیا تھا کہ ہم بغیر کسی عذر کے پیچھے رہ گئے اور لشر اسلام میں شامل نہیں ہوئے۔ انہوں نے اس پر اپنی شرمساری کا اظہار بھی کیا اور اللہ کے آگے تو بہ بھی کی ۔ حضور ﷺ نے ان سے فرمایا : تم لوگوں نے اپنے باری میں سچی بات بیان کردی ہے ، اب جائو ، میں دیکھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ تمہارے بارے میں کیا حکم نازل کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے ساتھ سخت رویہ اختیار کرنے کا حکم نازل فرمایا اور اپنے نبی ﷺ کو ان سے قطع کلامی کا امر فرمایا نیز یہ حکم بھی دیا کہ آپ مسلمانوں کو بھی ان سے کلام کرنے سے روک دیں ۔ ان تینوں نے اسی کیفیت میں تقریباً پچاس دن گزارے ۔ اس کے یہ معنی نہیں تھے کہ ان کی توبہ رد کردی گئی تھی اس لیے کہ انہیں توبہ کرنے کا حکم دیا گیا تھا اور وہ اس کے پابند تھے۔ یہ بات حکمت الٰہیہ کے بالکل خلاہے کہ اس شخص کی توبہ اس وقت قبول نہ کیا جائے جب وہ حسب امرالٰہی توبہ کرلے ۔ بلکہ حقیقت میں اللہ تعالیٰ نے قبول توبہ کے حکم کو دیر سے نازل کرکے نیز مسلمانوں کو ان سے کلام کرنے سے روک کر ان کی ابتلا اور آزمائش میں اور سختی پیدا کرنے کا ارادہ فرمایا تھا۔ اس کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے ان کے اصلاح نیزدوسرے تمام اہل اسلام کی اصلاح کرنی چاہی تھی تا کہ آئندہ نہ وہ خود اور نہ ہی دوسرے مسلمان ایسی حرکت کریں اس لیے کہ اللہ کے علم میں یہ بات تھی کہ ان لوگوں کی اصلاح ہوسکتی ہے ۔ منافقین کے اندر یہ صورت حال نہیں تھی ، انہوں نے جھوٹے عذر اور بہانے تو کیے تھے لیکن ان کی اصلاح کی کوئی گنجائش نہیں تھی اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان سے صرف نظر کرنے کا حکم دیا ۔ اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ ان تینوں افراد سے لوگوں کو ترک کلام کا حکم نیز ان کی توبہ کا حکم نازل کرنے میں تاخیر سزا کے طور پر نہیں کی تھی ۔ بلکہ یہ ایک آزمائش تھی اور بندگی کی جہت سے نیز مکلف ہونے کی حیثیت سے ایک سختی تھی ۔ اس کی مثال ایسی ہے جیسی ہم اس شخص پر واجب ہونے والی حد کے ایجاب کے سلسلے میں کہتے ہیں جس نے اپنے جرم سے توبہ کرلی ہو کہ اسے بطورسزا حد نہیں لگ رہی ہے بلکہ یہ صرف ایک آزمائش اور اظہار بندگی ہے اگرچہ ابتداء میں یہ سزا تھی اور اگر توبہ سے قبل اس کا اجزاء ہوتا تو یہ سزا ہی ہوتی ۔ قول باری ہے حتی اذا ضاقت علیھم الارض بما رجت جب زمین اپنی ساری وسعت کے باوجود ان پر تنگ ہوگئی یعنی اپنی کشادگی کے باوجود زوضاقت علیھم انفسھم اور ان کی اپنی جانیں بھی ان پر بارہونے لگیں یعنی ان کے سینے غم کے اس بوجھ کی بنا پر تنگ ہوگئے جو ان پر نزول توبہ کی تاخیر ، حضور ﷺ اور صحابہ کرام کی طرف سے ترک کلام اور مقاطعہ نیز بیویوں کو ان سے علیحدہ رہنے کے حکم کی بنا پر آپڑا تھا۔ قول باری ہے وظنوا ان ملجا من اللہ الا الیہ اور انہوں نے جان لیا کہ اللہ سے بچنے کیلئے کوئی جائے پناہ خود اللہ ہی کے ذامن رحمت کے سوا نہیں ہے۔ یعنی انہیں یقین ہوگیا کہ جس ابتلاء اور آزمائش کے جال میں وہ پھنس چکے ہیں اس سے چھٹکارے کے لیے نیز اس سے بچ نکلنے کے لیے اللہ کی ذات کے سوا اور کوئی سہارا نہیں ہے۔ اللہ کی ذات کے سوا کسی اور کے قبضہ قدرت میں یہ نہیں ہے نیز ان کے لیے کسی اور ات سے اس کی طلب بھی جائز نہیں ہے۔ صرف اللہ کی عبادت کے ذریعے اور اس کی توجہ اور میلان کے ذریعے یہ رہائی حاصل ہوسکتی ہے۔ جب یہ لوگ یقین کے اس درجے پر پہنچ گئے تو اللہ تعالیٰ نے ان کی توبہ قبول ہوجانے کا حکم اپنے نبی ﷺ پر نازل فرمایا۔ اللہ تعالیٰ کی یہ عادت ہے کہ جو شخص تمام سہاروں سے یکسو ہوکر صرف اس کی ذات کو اپنا سہارا بنا لیتا ہے اور یہ یقین کرلیتا ہے کہ اس کے غم کو اس کی ذات کے سوا اور کوئی دور نہیں کرسکتا تو اس وقت وہ اسے نجات بھی دلادیتا ہے اور اس کا غم بھی دور کردیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے حضر ت لوط (علیہ السلام) کا واقعہ نقل کرتے ہوئے فرمایا ہے ولما جاء ت رسلنا لوطا ً سی بھم وضاق بھم ذرعا ً وقال ھذا یومعصب اور جب ہمارے فرشتے لوط (علیہ السلام) کے پاس پہنچے تو ان کی آمد سے وہ بہت گھبرایا اور دل تنگ ہوا ، کہنے لگا کہ آج بڑی مصیبت کا دن ہے تا قول بدی لو ان لی بکم قوۃ ً او اوی الی رکن شدید کاش میرے پاس اتنی طاقت ہوتی کہ تمہیں سیدھا کردیتا یا کوئی مضبو ط سہارا ہی ہوتا کہ اس کی پناہ لیتا۔ حضرت لوط نے اس موقع پر اپنی قوت و طاقت نیز دوسرے لوگوں کی مدد سے مکمل مایوسی اور بیزاری کا اظہار کیا اور انہیں یقین ہوگیا کہ انہیں اس مصیبت سے صرف اللہ کی ذات نجات دلا سکتی ہے۔ اس وقت اللہ کی طرف سے اس پریشانی سے باہر نکلنے کا راستہ پیدا کردیا گیا اور فرشتوں نے ان سے کہا انا رسل ربک لن یصلوا الیک ہم تیرے رب کے بھیجے ہوئے فرشتے ہیں یہ لوگ تیرا کچھ نہ بگاڑ سکیں گے نیز ارشاد باری ہے ومن یتق اللہ یجعل لہل مخوجا اور جو شخص اللہ سے ڈ رتا رہتا ہے اللہ اس کے لیے کوئی نہ کوئی سبیل پیدا کردیتا ہے۔ جو شخص تمام سہاروں کو چھوڑ کر صراس کی ذات کو اپنا سہارا بنا لیتا ہے اور دنیاوی علائق سے کنارہ کشی اختیار کر کے صرف اسی کا ہو رہتا ہے تو جب بندہ اس مرتبے پر پہنچ جاتا ہے اللہ اس کے لیے کوئی نہ کوئی مخرج اور راستہ پیدا کردیتا ہے اس لیے کہ اسے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اسے دو بھلائیوں میں سے ایک بھلائی ضرور حاصل ہوجائے گی یا تو اللہ تعالیٰ اسے ابتلاء اور آزمائش کی کیفیت سے خلاصی دے گا اور اس طرح اسے چھٹکارا نصیب ہوجائے گا جس طرح انبیاء (علیہم السلام) سے ابتلاء اور آزمائش کی گھڑی میں ان کی زبان پر آنے والے کلمات کی قرآن کی آیات میں حکایت کی گئی ہے۔ مثلاً حضرت ایوب (علیہ السلام) کا قول قرآن کے الفاظ میں انی مسنی الشیطان بنصب و عذاب کہ شیطان نے مجھے رنج و آزار پہنچایا ہے۔ حضرت ایوب علیہ السلا م نے اللہ تعالیٰ سے اس وسوسہ سے نجات دلانے کے لیے التجاء کی جو شیطان ان کے دل میں ڈال رہا تھا کہ اگر اللہ کے ہاں تمہارا کوئی مرتبہ ہوتاتو تم اس مصیبت میں نہ پھنستے جس میں اس وقت پھنسے ہوئے ہو۔ حضرت ایوب (علیہ السلام) نے شیطان کے ان وساوس کو کبھی قبول نہیں کیا تھا البتہ اتنی بات ضرور تھی کہ یہ وساوس آپ کے دل و دماغ کو پریشان رکھتے اور آپ یکسو ہو کر وہ تدبر و تفکر نہ کرسکتے جو ان خیالات پریشان سے بہر حال بہتر تھے ۔ جب آپ اس مقام پر پہنچ گئے تو اللہ تعالیٰ نے آپ سے فرمایا ارکض رجلک ھذا مغتسل باردو شراب اپنا پائوں زمین پر مارو، یہ ٹھنڈا پانی ہے نہانے کا اور پینے کا یہی کیفیت ہر اس شخص کی ہوتی ہے جو بایں معنی تقویٰ اختیار کرتا ہے کہ اللہ کی طرف پوری طرح مائل ہوجاتا ہے اور یہ یقین کرلیتا ہے کہ اللہ ہی کی ذات اس کی اس تکلیف کو دور کرسکتی ہے، اس کی تکلیف دور کردینا کسی بندے کے بس کی بات نہیں اس صورت میں اس سے دو بھلائیوں میں سے ایک بھلائی ضرور حاصل ہوجاتی ہے یا تو فوری رہائی نصیب ہوجاتی ہے یا پھر ابتلاء اور آزمائش پر صبر کرنے کی صورت میں اللہ کی طرف سے جس بدلے اور ثواب کا اس سے وعدہ کیا گیا ہے اس پر اس کا دل پوری طرح مطمئن ہوجاتا ہے ، یقینا اللہ کی طرف سے دیا جانے والا ثواب اس کے حق میں دنیا و مافیہا سے بہتر ہوتا ہے۔ قول باری ہے ثم تاب علیھم لیتم لوا پھر اللہ اپنی مہربانی سے ان کی طرف پلٹتا ہے تا کہ وہ اس کی طرف پلٹ آئیں ۔ یعنی واللہ اعلم اللہ تعالیٰ نے ان تینوں افراد کی توبہ قبول کرلی اور حضور ﷺ پر قبو ل توبہ نازل فرمادیا تا کہ اہل ایمان اپنے گناہوں سے اللہ کی طرف یہ جانتے ہوئے توبہ کریں کہ اللہ ان کی توبہ قبول کرنے والا ہے۔
Top