Tafseer-e-Jalalain - At-Tawba : 4
اِلَّا الَّذِیْنَ عٰهَدْتُّمْ مِّنَ الْمُشْرِكِیْنَ ثُمَّ لَمْ یَنْقُصُوْكُمْ شَیْئًا وَّ لَمْ یُظَاهِرُوْا عَلَیْكُمْ اَحَدًا فَاَتِمُّوْۤا اِلَیْهِمْ عَهْدَهُمْ اِلٰى مُدَّتِهِمْ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ یُحِبُّ الْمُتَّقِیْنَ
اِلَّا : سوائے الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو عٰهَدْتُّمْ : تم نے عہد کیا تھا مِّنَ : سے الْمُشْرِكِيْنَ : مشرک (جمع) ثُمَّ : پھر لَمْ يَنْقُصُوْكُمْ : انہوں نے تم سے کمی نہ کی شَيْئًا : کچھ بھی وَّلَمْ يُظَاهِرُوْا : اور نہ انہوں نے مدد کی عَلَيْكُمْ : تمہارے خلاف اَحَدًا : کسی کی فَاَتِمُّوْٓا : تو پورا کرو اِلَيْهِمْ : ان سے عَهْدَهُمْ : ان کا عہد اِلٰى : تک مُدَّتِهِمْ : ان کی مدت اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ يُحِبُّ : دوست رکھتا ہے الْمُتَّقِيْنَ : پرہیزگار (جمع)
البتہ جن مشرکوں کے ساتھ تم نے عہد کیا ہو اور نہوں نے تمہارا کسی طرح کا قصور نہ کیا ہو اور نہ تمہارے مقابلے میں کسی کی مدد کی ہو تو جس مدت تک ان کے ساتھ عہد کیا ہو اسے پورا کرو (کہ) خدا پرہیزگاروں کو دوست رکھتا ہے۔
قولہ : اِلاَّ الَّذِیْنَ عٰھَدْتُّمْ مِّنَ الْمُشْرِکِیْنَ ، اس میں دو وجہ ہیں اول یہ کہ الا الذین الخ کو مستثنیٰ منقطع قرار دیا جائے اور الاّ بمعنی لکن ہو اس صورت میں فالّذین مبتداء اور فاتمّوا الیھم الخ جملہ ہو کر مبتداء کی خبر ہوگی، دوسری صورت یہ ہے کہ الاّ الّذین الخ کو مستثنیٰ متصل قرار دیا جائے تو اس صورت میں بَرَائَ ة مِنَ اللہ وَرَسُولہ الی الذین عٰھدتم من المشرکین، میں مذکور المشرکین سے مستثنیٰ ہوگا، مگر اس صورت میں فصل بالاجنبی لازم آئے گا جو کہ ممنوع ہے، اگر المشرکین میں الف لام کو عہد کا لے لیا جائے تو مشرکین خاص سے وہ مشرکین مراد ہوں گے جنہوں نے نقض عہد نہیں کیا۔ قولہ : وھی مدة التاجیل اس عبارت کے اضافہ میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ اشھر حرم سے معروف اشھرالحرم مراد نہیں ہیں، جو کہ رجب، ذوالقعدہ، ذوالحجہ اور محرم ہیں بلکہ اربعة اشھر سے وہ چار مہینے مراد ہیں جن میں مشرکین کو قیام کرنے کی اجازت دی گئی تھی، مطلب یہ کہ مذکورہ آیت کے نزول کے وقت سے جن چار ماہ تک مکہ میں قیام کرنے کی اجازت دی گئی تھی بایں طور کہ شوال سے لے کر آخر محرم تک مشرکین مکہ کو مکہ میں قیام کی اجازت ہے اسکے بعد اگر کوئی پایا جائے گا تو اسکو گرفتار اور قتل کردیا جائے گا اشہر حرم سے یہی چار مہینے مراد ہیں . قولہ : مرفوع بفعل یفسرہ استجارک یہ ایک سوال مقدر کا جواب ہے۔ سوال : اِنْ احد مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ میں اِنْ اسم پر داخل ہے حالانکہ ان اسم پر داخل نہیں ہوتا۔ جواب : یہاں اِنْ کے بعد استجارک فعل محذوف ہے اور اس کی تفسیر بعد والا استجارک کر رہا ہے لہٰذا اب کوئی اعتراض نہیں۔ تفسیر وتشریح اس سوت کے تیرہ نام منقول ہیں، جو مندرجہ ذیل ہیں : (1) براء ة (2) المقشقشة (3) المبعثرة (4) المشردة (5) المخزیة (6) الفاضحة (7) المشیرة (8) الحافرة (9) المدمدمة (10) سورة العذاب (11) المنکلة (12) البحوث (13) التوبة، ان تمام ناموں کے معنی تقریباً ایک ہی ہیں یعنی رسوا اور ذلیل کرنا، ان میں پہلا اور آخری نام زیادہ مشہور ہے، اس کا نام توبہ اس وجہ سے رکھا گیا ہے کہ اس میں اہل ایمان کی معافی کا ذکر ہے اور برآء ة اس لئے نام رکھا گیا کہ اس کے آغاز ہی میں کفار و مشرکین سے برآء ة کا اعلان ہے۔ سورة برآء ة کی خصوصیت : اس سورت کی خصوصیت یہ ہے کہ اس سورت کے شروع میں بسم نہیں لکھی جاتی اور نہ پڑھی جاتی ہے جبکہ قراءت کا سلسلہ پیچھے سے چلا آرہا ہے ابلتہ اگر سورة براء ة ہی سے قراءت کی ابتداء کی جائے تو بسم اللہ پڑھی جائے گی، اس سورت کے شروع میں بسم اللہ نہ لکھے جانے کی متعدد وجوہات مفسرین نے نقل کی ہیں مگر ان سب میں سے وہی صورت راجح ہے جس کو علامہ سیوطی نے اختیار کیا ہے، یعنی اس سورت کے شروع میں بسم اللہ نازل نہیں ہوئی اس کے علاوہ ہر سورت کے شروع میں بسم اللہ نازل ہوئی ہے اور نہ آپ ﷺ نے سورة کے شروع میں بسم اللہ لکھنے کا حکم فرمایا، حضرت جبرئیل (علیہ السلام) جب کوئی آیت لے کر آتے تو بحکم خداوندی یہ بھی بتاتے کہ یہ فلاں سورت میں فلاں آیت کے بعد رکھو اس سے معلوم ہوا کہ قرآنی آیات اور سورتوں کی ترتیب توقیفی ہے، جب بھی کوئی سورت نازل ہوتی تو اس کے ساتھ اس کے شروع میں بسم اللہ بھی نازل ہوتی مگر جب سورة توبہ نازل ہوئی تو اس کے ساتھ بسم اللہ نازل نہیں ہوئی اور نہ رسول اللہ ﷺ نے اس کے شروع میں بسم اللہ لکھنے کا حکم فرمایا۔ حضرت عثمان غنی ؓ نے جب اپنی خلاف کے زمانہ میں قرآن مجید کو کتابی صورت میں ترتیب دیا تو دیگر سورتوں کے برخلاف سورة توبہ کے شروع میں بسم اللہ نہ تھی اس لئے یہ شبہ ہوا کہ شاید مستقل سورت نہ ہو بلکہ کسی سورت کا جزء ہو مضامین کے اعتبار سے سورة انفال اس کے مناسب معلوم ہوئی اسی وجہ سے سورة توبہ کو سورة انفال کے آخر میں رکھا گیا، چونکہ سورة توبہ کے بارے میں دو احتمال تھے ایک یہ کہ اول سورت کا جزء ہو دوسرے یہ کہ مستقل سورت ہو دونوں احتمالوں کی رعایت اس طریقہ پر کی گئی کہ بسم اللہ تو نہ لکھی گئی مگر بسم اللہ کی جگہ خالی چھوڑ دی گئی اس ترکیب سے دونوں احتمالوں کی رعایت ہوگئی۔ حضرت علی ؓ سے سورة توبہ کے شروع میں بسم اللہ نہ لکھنے کی جو یہ وجہ منقول ہے کہ بسم اللہ امان ہے اور سورة توبہ میں کفار کے امان اور عہد و پیمان کو ختم کرنے کا اعلان کیا گیا ہے لہٰذا مناسب یہی تھا کہ اس کے شروع میں بسم اللہ نہ لکھی جائے اور نہ پڑھی جائے، یہ محض ایک نکتہ اور لطیفہ تو ہوسکتا ہے مگر یہ علت نہیں ہے۔ اس سورت کے مضامین کو کما حقہ سمجھنے کے لئے ان چند واقعات کا سمجھ لینا ضروری ہے جن کا ذکر اس سورت میں آیا ہے، سورة توبہ میں چند غزوات اور ان کے متعلق احکام و مسائل کا بیان ہوا ہے مثلاً تمام قبائل عرب سے معاہدات کا ختم کردینا، فتح مکہ، غزوہ حنین، غزوہ ٔ تبوک، ان واقعات میں فتح مکہ سب سے پہلے 8 ھ میں پھر غزوہ حنین پھر اسی سال غزوہ تبوک رجب 9 ھ میں پھر تمام قبائل عرب سے معاہدات ختم کرنے کا اعلان ذی الحجہ 9 ھ میں ہوا۔ معاہدات ختم کرنے کی تفصیل : 6 ھ میں رسول اللہ ﷺ نے عمرہ کا قصد فرمایا اور قریش مکہ نے آپ کو مکہ میں داخل نہ ہونے دیا اور مقام حدیبیہ میں ان سے صلح ہوئی اس صلح کی مدت دس سال تھی، قریش کے علاوہ دیگر قبائل بھی مکہ میں رہتے تھے، معاہدہ صلح کی ایک دفعہ یہ بھی تھی کہ قریش کے علاوہ دوسرے قبائل میں سے جس کا جی چاہے وہ قریش کا حلیف اور ساتھ بن جائے اور جس کا جی چاہے وہ آنحضرت ﷺ کا حلیف ہو کر ان کے ساتھ مل جائے، چناچہ قبیلہ خزاعہ نے آپ ﷺ کا حلیف بننا پسند کیا اور قبیلہ بنی بکر قریش کا حلیف بن کر قریش کے ساتھ ہوگیا، اس معاہدہ کی رو سے یہ لازم تھا کہ دس سال کے اندر نہ باہمی جنگ ہوگی اور نہ کسی حملہ آور کی کسی قسم کی مدد کی جائے گی اور جو قبیلہ جس کا حلیف ہے وہ بھی اس معاہدہ میں شریک سمجھا جائے گا اس پر حملہ کرنا یا حملہ آور کی مدد کرنا معاہدہ کی خلاف ورزی سمجھا جائے گا، یہ معاہدہ 6 ھ میں ہوا 7 ھ میں معاہدہ کے مطابق رسول اللہ ﷺ مع صحابہ کرام کے عمرہ کی قضا کے لئے مکہ تشریف لے گئے اور تین روز قیام فرما کر حسب معاہدہ واپس تشریف لے آئے، اس وقت تک کسی فریق کی جانب سے معاہدہ کی کسی قسم کی خلاف ورزی نہیں ہوئی، اس کے بعد پانچ یا چھ ماہ گزرے تھے کہ قبیلہ بنی بکر نے قبیلہ خزاعہ پر رات کے وقت شب خون مارا ان دونوں قبیلوں کے درمیان زمانہ جاہلیت سے اَنْ بَنْ چلی آرہی تھی اس کا سبب یہ ہوا کہ ایک مرتبہ مالک بن عباد حضرمی مال تجارت لے کر بنو خزاعہ کے علاقہ سے گزر رہا تھا کہ بنو خزاعہ کے لوگوں نے اسکو قتل کردیا اور تمام مال و سامان لوٹ لیا، بنو بکر نے موقع پر کر حضرمی کے بدلے میں بنو خزاعہ کے ایک آدمی کو قتل کر ڈالا قبیلہ خزاعہ نے اپنے ایک آدمی کے بدلے بنو بکر کے تین سرداروں ذئویب اور سلمی اور کلثوم کو میدان عرفات میں حدود حرم کے قریب قتل کر ڈالا حدیبیہ میں ایک میعادی صلح ہوجانے کی وجہ سے فریقین ایک دوسرے سے مامون اور بےخوف ہوگئے بنو بکر نے اپنی دشمنی نکالنے کا موقع غنیمت سمجھا چناچہ بنو بکر میں سے نوفل اور معاویہ نے اپنے مددگاروں کے ساتھ مل کر بنو خزاعہ پر شب خوب مارا رات کا وقت تھا خزاعہ کے لوگ پانی کے ایک چشمہ پر سوئے ہوئے تھے۔ قریش میں سے صفوان بن امیہ اور شیبہ بن عثمان وغیرہ نے پوشیدہ طور پر بنو بکر کی جانی اور مالی مدد کی۔ بنو خزاعہ نے بھاگ کر حرم میں پناہ لی مگر ان کو حرم میں بھی قتل کردیا گیا قریش یہ سمجھے ہوئے تھے کہ دور کا معاملہ ہے اور رات کا وقت ہے رسول اللہ ﷺ کو اس کی اطلاع نہ ہوگی اگرچہ قریش کو اپنی حرکت پر بعد میں ندامت ہوئی اور عہد شکنی پر بہت پچھتائے۔ ادھر ہوا یہ کہ عمرو بن سالم خزاعی چالیس آدمیوں کا ایک وفد لے کر مدینہ منورہ بارگاہ نبوی میں حاضر ہوا، آنحضرت ﷺ اس وقت مسجد میں تشریف فرما تھے، عمرو بن سالم نے آپ ﷺ کے روبرو کھڑے ہو کر اشعار میں درد بھرے انداز میں واقعہ کی پوری روداد سنائی آپ ﷺ نے غداری اور عہد شکنی کی روداد سن کر فرمایا '' لا نصرت اِن لم انصرکم '' اگر میں تمہاری مدد نہ کروں تو میری مدد نہ کی جائے۔ یا رب انی ناشد محمداً حِلْفَ ابِیْینا وابیہ الا نلدا اے میرے پروردگار ! میں محمد ﷺ کو اپنے باپ اور ان کے باپ (عبدالمطلب) کا قدیم عہد یاد دلانے آیا ہوں، زمانہ جاہلیت میں خزاعہ حضرت عبد المطلب کے حلیف تھے مطلب یہ کہ ہمارا اور تمہارا تحالف کا رشتہ قدیم ہے، اِنَّ قریشا اخلَفُوْک الموعدا وَنَقضُوْا میثاقَکَ المؤکّدا بلا شبہ قریش نے آپ سے وعدہ خلافی کی اور آپ کے پختہ عہدو پیمان کو توڑ ڈالا۔ ھم بیّتونا بالوتیرة ھجّدا وقتلو نا رکّعًا وسُجَّدًا ان لوگوں نے چشمہ وتیرہ پر سوتے ہوئے ہم پر شب خون مارا اور رکوع اور سجدہ کی حالت میں ہم کو قتل کردیا۔ آنحضرت ﷺ نے قریش کی عہد شکنی کی خبر پا کر قریش کے خلاف جنگ کی خفیہ تیاری شروع کردی قریش کو بدر، احد اور احزاب کے معرکوں میں مسلمانوں کی غیبی امداد اور تہو روشجاعت کا اندازہ ہو کر اپنی قوت و طاقت کا نشہ اتر چکا تھا جس کی وجہ سے اپنی غلطی کا شدید احساس ہو رہا تھا، مجبور ہو کر ابوسفیان کو مدینہ بھیجا کہ وہ خود جا کر حالات کا اندازہ لگائیں اگر حالات بگڑے ہوئے دیکھیں تو عذر معذرت کر کے آئندہ کے لئے معاہدہ کی تجدید کرلیں، ابوسفیان نے مدینہ پہنچ کر ناگفتہ حالات دیکھے تو تجدید معاہدہ کی درخواست کی اور اکابر صحابہ سے سفارش کرنے کے لئے کہا مگر سب نے سابقہ اور لاحقہ حالات کی وجہ سے انکار کردیا اور ابو سفیان ناکام واپس چلا گیا جس کی وجہ سے قریش پر خوف وہراس طاری ہوگیا۔ تفسیر ابن ابی حاتم میں حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ کے قول کے مطا بق آیت کی تفسیر یہ ہے کہ اللہ پاک نے ان لوگوں کے ساتھ چار مہینے کی مدت مقرر کردی تھی جن لوگوں نے رسول ﷺ سے معاہدہ کیا تھا جیسے قبیلہ خزاعہ اور قبیلہ مدلج اور بنو ضمرہ اور جن لوگوں سے کوئی معاہدہ نہیں تھا ان لوگوں سے پچاس راتوں کی حد مقرر فرمائی یعنی اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو یہ حکم دیا کہ جن کفار سے تمہارا معاہدہ نہیں ہے ان سے دسویں ذی الحجہ سے لے کر آخر محرم تک نہ لڑو، اگر یہ لوگ اسلام قبول کرلیں تو بہتر ہے ورنہ ان کے ساتھ قتل کرو اور جن کافروں سے معاہدہ ہے ان کا حکم یہ ہے کہ دسویں ذی الحجہ سے ربیع الآخر کی دسویں تاریخ تک قتال نہ کرو اس مدت میں اگر یہ لوگ مسلمان ہوجائیں تو فبہا رونہ ان سے جہاد کرو جمہور کے قول کے مطابق 6 ھ میں حج فرض ہوا لیکن فتح مکہ سے پہلے تو آنحضرت ﷺ نے اس وجہ سے حج نہیں کیا کہ بیت اللہ اور صفا مروہ پر بت رکھے ہوئے تھے۔ فائدہ : اس مقام پر یہ جان لینا فائدہ سے خالی نہیں کہ فتح مکہ کے بعد دور اسلامی کا پہلا حج 8 ھ میں قدیم طریقہ پر ہوا پھر 9 ھ میں دوسرا حج مسلمانوں نے اپنے طریقہ پر کیا اس کے بعد تیسرا حج 10 ھ میں ہوا اور یہی وہ مشہور حج ہے جسے حجة الوداع کہتے ہیں آپ ﷺ پہلے دو حجوں میں تشریف نہیں لے گئے تیسرے حج میں جبکہ جزیرة العرب سے کفر کا مکمل استیصال ہوگیا تب آپ ﷺ نے حضرت ابوبکر صدیق ؓ کو امیر الحج بنا کر بھیجا اس دوران مذکورہ آیات نازل ہوئیں، اور ابوبکر ؓ کے پیچھے حضرت علی ؓ کو سورة برآة کی دس آیتیں دے کر روانہ فرمایا کہ مشرکین کو جا کر یہ آیتیں سنا دیں اور یہ بھی اعلان کردیں کہ 10 ھ سے کوئی مشرک یا ننگا شخص طواف نہ کرسکے گا۔ اعلان براءة کا مقصد : اس اعلان براءت سے عرب میں شرک اور مشرکوں کا وجود گویا عملاً خلاف قانون قرار دے دیا گیا، اور ان کے لئے پورے ملک میں کوئی جائے پناہ نہ رہی، یہ لوگ تو اس بات کے منتظر تھے کہ روم اور فارس کی طرف سے اسلامی سلطنت کو جب کوئی خطرہ ہو یا نبی ﷺ وفات پاجائیں تو یکایک نقض عہد کر کے خانہ جنگی برپا کردیں، لیکن اللہ اور اس کے رسول ﷺ نے ان کی ساعت منتظر آنے سے پہلے ہی بساط ان پر الٹ دی اور اعلان براءت کر کے ان کے لئے اسکے سوا کوئی چارہ باقی نہ چھوڑا کہ یا تو لڑنے پر تیار ہوجائیں اور اس اسلامی طاقت سے ٹکرا کر صفحہ ہستی سے مٹ جائیں یا ملک چھوڑ کر نکل جائیں یا پھر اسلام قبول کر کے اپنے آپ کو امن کی آغوش میں دے کر اسلامی نظم وضبط کے تابع ہوجائیں۔ فتح مکہ کے وقت مشرکین کی چار قسمیں اور ان کے احکام : اس وقت مکہ پر مسلمانوں کا مکمل قبضہ ہوچکا تھا اور '' لا تَثْریْبَ علیکم الیوم '' کہہ کر مکہ میں رہنے والے تمام مشرکوں کو جان ومال کا امان دے دیا گیا تھا، اس وقت مشرکین مکہ کے مختلف حالات تھے۔ پہلی قسم : ایک قسم تو وہ تھی جن سے حدیبیہ میں صلح کا معاہدہ ہوا اور انہوں نے خود اس کو توڑدیا اور وہی فتح مکہ کا سبب بنا۔ دوسری قسم : کچھ ایسے لوگ بھی تھے جن سے معاہدہ صلح ایک خاص مدت کے لئے کیا گیا تھا، اور وہ اس معاہدہ پر قائم رہے جیسے بنی کنانہ کے دو قبیلے بنی ضمرہ اور بنی مدلج ان قبیلوں سے ایک خاص مدت کے لئے معاہدہ صلح ہوا تھا اور سورة برآءت نازل ہونے کے وقت بقول خازن ان کی میعاد صلح کے نو مہینے باقی تھے۔ تیسری قسم : کچھ لوگ ایسے بھی تھے جن سے معاہدہ صلح غیر میعادی ہوا تھا۔ چوتھی قسم : چوتھے وہ لوگ تھے جن سے کسی قسم کا معاہدہ نہ تھا۔ پہلی قسم کا حکم : پہلی قسم جو قریش مکہ کی تھی جنہوں نے معاہدہ صلح حدیبیہ کو خود توڑ دیا اب یہ مزید مہلت کے مستحق نہ تھے، مگر چونکہ یہ زمانہ اشھر حرم کا تھا جن میں جنگ و قتال من جانب اللہ ممنوع تھا اس لئے ان کے متعلق وہ حکم آیا جو سورة توبہ کی پانچویں آیت میں مذکور ہے '' فاذا انسلخ الاشھر الحرم فاقتلوا المشرکین الآیة '' اگرچہ مشرکین مکہ نے عہد شکنی کر کے اپنا کوئی حق باقی نہیں چھوڑا تھا مگر اشھر حرم کا احترام بہرحال ضروری تھا، اس لئے اشھر حرم ختم ہوتے ہی وہ یا تو جزیرة العرب سے نکل جائیں یا مسلمان ہوجائیں ورنہ ان سے جنگ کی جائے گی۔ دوسری قسم کا حکم : دوسری قسم ان لوگوں کی تھی جن سے کسی خاص مدت کے لئے معاہدہ کیا گیا تھا اور وہ اس پر کار بند رہے ان کا حکم سورة توبہ کی چوتھی آیت میں یہ آیا ہے اِلاَّ الَّذِیْن عاھدتم من المشرکین ثم لم ینقصوکم الآیة یعنی وہ مشرک لوگ جن سے تم نے معاہدہ صلح کرلیا پھر انہوں نے معاہدہ پر قائم رہنے میں کوئی کمی نہیں کی، اور نہ تمہارے مقابلہ میں تمہارے کسی دشمن کی مدد کی تو تم ان کے معاہدہ کو اس کی مدت تک پورا کرو یہ حکم بنو ضمرہ اور بنو مدلج کا تھا، جس کی رو سے ان کو نو ماہ کی مہلت مل گئی۔ تیسری اور چوتھی جماعت کا حکم : ان دونوں جماعتوں کا ایک ہی حکم نازل ہوا، جو سورة توبہ کی پہلی اور دوسری آیت میں مذکور ہے، براءة من اللہ ورسولہ الی الذین عاھدتم من المشرکین، فسیحوا فی الارض اربعة اشھر الخ، یعنی اعلان دست برداری کے بعد تم کو صرف چار ماہ جزیرة العرب میں قیام کی اجازت ہے اس کے بعد تو تم اپنا ٹھکانہ اور کہیں تلاش کرلو یا اسلام کی پناہ میں آجائو بصورت دیگر جنگ کے لئے تیار ہوجائو، خوب سمجھ لو تم اللہ کو عاجز نہیں کرسکتے۔ خلاصہ : خلاصہ یہ کہ پہلی اور دوسری آیت کی رو سے ان لوگوں کو جن سے غیر میعادی معاہدہ تھا یا جن کے ساتھ سرے سے کوئی معاہدہ ہی نہ تھا چار ماہ کی مہلت مل گئی، اور چوتھی آیت کی رو سے ان لوگوں کو جن کے ساتھ کسی قسم کا میعادی معاہدہ تھا تا اختتام مدت معاہدہ مہلت مل گئی، اور پانچویں آیت کی رو سے مشرکین مکہ کو اشھر حرم ختم ہونے تک مہلت مل گئی۔ مذکورہ پانچ آیات سے متعلق چند مسائل و فوائد : فائدہ : (1) یہ کہ فتح مکہ کے بعد آپ ﷺ نے قریش مکہ اور دوسرے دشمن قبائل کے ساتھ جو عفو و درگذر اور رحم و کرم کا معاملہ فرمایا اس نے مسلمانوں کو عملی طور پر یہ درس دیا کہ جب تمہارا کوئی دشمن تمہارے قابو میں آئے اور تمہارے سامنے عاجز ہوجائے تو اس سے گذشتہ عداوتوں اور ایذائوں کا انتقام نہ لو بلکہ عفو و کرم سے کام لے کر اسلامی اخلاق کا ثبوت دو ۔ فائدہ : (2) یہ کہ دشمن پر قابو پانے کے بعد اپنے غصہ کے جذبات کو دبا دینا اس بات کا ثبوت ہے کہ اس کی لڑائی اپنے نفس کے لئے نہیں بلکہ محض اللہ کے لئے تھی اور یہی وہ اعلیٰ مقصد ہے جو اسلامی جہاد اور عام بادشاہوں کرے گا تو شرافت کا تقاضہ یہ ہے کہ اس کو اسلام اور مسلمانوں سے محبت پیدا ہوگی جو اس کے لئے کلید کامیابی ہے۔
Top