Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Tafseer-e-Jalalain - At-Tawba : 4
اِلَّا الَّذِیْنَ عٰهَدْتُّمْ مِّنَ الْمُشْرِكِیْنَ ثُمَّ لَمْ یَنْقُصُوْكُمْ شَیْئًا وَّ لَمْ یُظَاهِرُوْا عَلَیْكُمْ اَحَدًا فَاَتِمُّوْۤا اِلَیْهِمْ عَهْدَهُمْ اِلٰى مُدَّتِهِمْ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ یُحِبُّ الْمُتَّقِیْنَ
اِلَّا
: سوائے
الَّذِيْنَ
: وہ لوگ جو
عٰهَدْتُّمْ
: تم نے عہد کیا تھا
مِّنَ
: سے
الْمُشْرِكِيْنَ
: مشرک (جمع)
ثُمَّ
: پھر
لَمْ يَنْقُصُوْكُمْ
: انہوں نے تم سے کمی نہ کی
شَيْئًا
: کچھ بھی
وَّلَمْ يُظَاهِرُوْا
: اور نہ انہوں نے مدد کی
عَلَيْكُمْ
: تمہارے خلاف
اَحَدًا
: کسی کی
فَاَتِمُّوْٓا
: تو پورا کرو
اِلَيْهِمْ
: ان سے
عَهْدَهُمْ
: ان کا عہد
اِلٰى
: تک
مُدَّتِهِمْ
: ان کی مدت
اِنَّ
: بیشک
اللّٰهَ
: اللہ
يُحِبُّ
: دوست رکھتا ہے
الْمُتَّقِيْنَ
: پرہیزگار (جمع)
البتہ جن مشرکوں کے ساتھ تم نے عہد کیا ہو اور نہوں نے تمہارا کسی طرح کا قصور نہ کیا ہو اور نہ تمہارے مقابلے میں کسی کی مدد کی ہو تو جس مدت تک ان کے ساتھ عہد کیا ہو اسے پورا کرو (کہ) خدا پرہیزگاروں کو دوست رکھتا ہے۔
قولہ : اِلاَّ الَّذِیْنَ عٰھَدْتُّمْ مِّنَ الْمُشْرِکِیْنَ ، اس میں دو وجہ ہیں اول یہ کہ الا الذین الخ کو مستثنیٰ منقطع قرار دیا جائے اور الاّ بمعنی لکن ہو اس صورت میں فالّذین مبتداء اور فاتمّوا الیھم الخ جملہ ہو کر مبتداء کی خبر ہوگی، دوسری صورت یہ ہے کہ الاّ الّذین الخ کو مستثنیٰ متصل قرار دیا جائے تو اس صورت میں بَرَائَ ة مِنَ اللہ وَرَسُولہ الی الذین عٰھدتم من المشرکین، میں مذکور المشرکین سے مستثنیٰ ہوگا، مگر اس صورت میں فصل بالاجنبی لازم آئے گا جو کہ ممنوع ہے، اگر المشرکین میں الف لام کو عہد کا لے لیا جائے تو مشرکین خاص سے وہ مشرکین مراد ہوں گے جنہوں نے نقض عہد نہیں کیا۔ قولہ : وھی مدة التاجیل اس عبارت کے اضافہ میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ اشھر حرم سے معروف اشھرالحرم مراد نہیں ہیں، جو کہ رجب، ذوالقعدہ، ذوالحجہ اور محرم ہیں بلکہ اربعة اشھر سے وہ چار مہینے مراد ہیں جن میں مشرکین کو قیام کرنے کی اجازت دی گئی تھی، مطلب یہ کہ مذکورہ آیت کے نزول کے وقت سے جن چار ماہ تک مکہ میں قیام کرنے کی اجازت دی گئی تھی بایں طور کہ شوال سے لے کر آخر محرم تک مشرکین مکہ کو مکہ میں قیام کی اجازت ہے اسکے بعد اگر کوئی پایا جائے گا تو اسکو گرفتار اور قتل کردیا جائے گا اشہر حرم سے یہی چار مہینے مراد ہیں . قولہ : مرفوع بفعل یفسرہ استجارک یہ ایک سوال مقدر کا جواب ہے۔ سوال : اِنْ احد مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ میں اِنْ اسم پر داخل ہے حالانکہ ان اسم پر داخل نہیں ہوتا۔ جواب : یہاں اِنْ کے بعد استجارک فعل محذوف ہے اور اس کی تفسیر بعد والا استجارک کر رہا ہے لہٰذا اب کوئی اعتراض نہیں۔ تفسیر وتشریح اس سوت کے تیرہ نام منقول ہیں، جو مندرجہ ذیل ہیں : (1) براء ة (2) المقشقشة (3) المبعثرة (4) المشردة (5) المخزیة (6) الفاضحة (7) المشیرة (8) الحافرة (9) المدمدمة (10) سورة العذاب (11) المنکلة (12) البحوث (13) التوبة، ان تمام ناموں کے معنی تقریباً ایک ہی ہیں یعنی رسوا اور ذلیل کرنا، ان میں پہلا اور آخری نام زیادہ مشہور ہے، اس کا نام توبہ اس وجہ سے رکھا گیا ہے کہ اس میں اہل ایمان کی معافی کا ذکر ہے اور برآء ة اس لئے نام رکھا گیا کہ اس کے آغاز ہی میں کفار و مشرکین سے برآء ة کا اعلان ہے۔ سورة برآء ة کی خصوصیت : اس سورت کی خصوصیت یہ ہے کہ اس سورت کے شروع میں بسم نہیں لکھی جاتی اور نہ پڑھی جاتی ہے جبکہ قراءت کا سلسلہ پیچھے سے چلا آرہا ہے ابلتہ اگر سورة براء ة ہی سے قراءت کی ابتداء کی جائے تو بسم اللہ پڑھی جائے گی، اس سورت کے شروع میں بسم اللہ نہ لکھے جانے کی متعدد وجوہات مفسرین نے نقل کی ہیں مگر ان سب میں سے وہی صورت راجح ہے جس کو علامہ سیوطی نے اختیار کیا ہے، یعنی اس سورت کے شروع میں بسم اللہ نازل نہیں ہوئی اس کے علاوہ ہر سورت کے شروع میں بسم اللہ نازل ہوئی ہے اور نہ آپ ﷺ نے سورة کے شروع میں بسم اللہ لکھنے کا حکم فرمایا، حضرت جبرئیل (علیہ السلام) جب کوئی آیت لے کر آتے تو بحکم خداوندی یہ بھی بتاتے کہ یہ فلاں سورت میں فلاں آیت کے بعد رکھو اس سے معلوم ہوا کہ قرآنی آیات اور سورتوں کی ترتیب توقیفی ہے، جب بھی کوئی سورت نازل ہوتی تو اس کے ساتھ اس کے شروع میں بسم اللہ بھی نازل ہوتی مگر جب سورة توبہ نازل ہوئی تو اس کے ساتھ بسم اللہ نازل نہیں ہوئی اور نہ رسول اللہ ﷺ نے اس کے شروع میں بسم اللہ لکھنے کا حکم فرمایا۔ حضرت عثمان غنی ؓ نے جب اپنی خلاف کے زمانہ میں قرآن مجید کو کتابی صورت میں ترتیب دیا تو دیگر سورتوں کے برخلاف سورة توبہ کے شروع میں بسم اللہ نہ تھی اس لئے یہ شبہ ہوا کہ شاید مستقل سورت نہ ہو بلکہ کسی سورت کا جزء ہو مضامین کے اعتبار سے سورة انفال اس کے مناسب معلوم ہوئی اسی وجہ سے سورة توبہ کو سورة انفال کے آخر میں رکھا گیا، چونکہ سورة توبہ کے بارے میں دو احتمال تھے ایک یہ کہ اول سورت کا جزء ہو دوسرے یہ کہ مستقل سورت ہو دونوں احتمالوں کی رعایت اس طریقہ پر کی گئی کہ بسم اللہ تو نہ لکھی گئی مگر بسم اللہ کی جگہ خالی چھوڑ دی گئی اس ترکیب سے دونوں احتمالوں کی رعایت ہوگئی۔ حضرت علی ؓ سے سورة توبہ کے شروع میں بسم اللہ نہ لکھنے کی جو یہ وجہ منقول ہے کہ بسم اللہ امان ہے اور سورة توبہ میں کفار کے امان اور عہد و پیمان کو ختم کرنے کا اعلان کیا گیا ہے لہٰذا مناسب یہی تھا کہ اس کے شروع میں بسم اللہ نہ لکھی جائے اور نہ پڑھی جائے، یہ محض ایک نکتہ اور لطیفہ تو ہوسکتا ہے مگر یہ علت نہیں ہے۔ اس سورت کے مضامین کو کما حقہ سمجھنے کے لئے ان چند واقعات کا سمجھ لینا ضروری ہے جن کا ذکر اس سورت میں آیا ہے، سورة توبہ میں چند غزوات اور ان کے متعلق احکام و مسائل کا بیان ہوا ہے مثلاً تمام قبائل عرب سے معاہدات کا ختم کردینا، فتح مکہ، غزوہ حنین، غزوہ ٔ تبوک، ان واقعات میں فتح مکہ سب سے پہلے 8 ھ میں پھر غزوہ حنین پھر اسی سال غزوہ تبوک رجب 9 ھ میں پھر تمام قبائل عرب سے معاہدات ختم کرنے کا اعلان ذی الحجہ 9 ھ میں ہوا۔ معاہدات ختم کرنے کی تفصیل : 6 ھ میں رسول اللہ ﷺ نے عمرہ کا قصد فرمایا اور قریش مکہ نے آپ کو مکہ میں داخل نہ ہونے دیا اور مقام حدیبیہ میں ان سے صلح ہوئی اس صلح کی مدت دس سال تھی، قریش کے علاوہ دیگر قبائل بھی مکہ میں رہتے تھے، معاہدہ صلح کی ایک دفعہ یہ بھی تھی کہ قریش کے علاوہ دوسرے قبائل میں سے جس کا جی چاہے وہ قریش کا حلیف اور ساتھ بن جائے اور جس کا جی چاہے وہ آنحضرت ﷺ کا حلیف ہو کر ان کے ساتھ مل جائے، چناچہ قبیلہ خزاعہ نے آپ ﷺ کا حلیف بننا پسند کیا اور قبیلہ بنی بکر قریش کا حلیف بن کر قریش کے ساتھ ہوگیا، اس معاہدہ کی رو سے یہ لازم تھا کہ دس سال کے اندر نہ باہمی جنگ ہوگی اور نہ کسی حملہ آور کی کسی قسم کی مدد کی جائے گی اور جو قبیلہ جس کا حلیف ہے وہ بھی اس معاہدہ میں شریک سمجھا جائے گا اس پر حملہ کرنا یا حملہ آور کی مدد کرنا معاہدہ کی خلاف ورزی سمجھا جائے گا، یہ معاہدہ 6 ھ میں ہوا 7 ھ میں معاہدہ کے مطابق رسول اللہ ﷺ مع صحابہ کرام کے عمرہ کی قضا کے لئے مکہ تشریف لے گئے اور تین روز قیام فرما کر حسب معاہدہ واپس تشریف لے آئے، اس وقت تک کسی فریق کی جانب سے معاہدہ کی کسی قسم کی خلاف ورزی نہیں ہوئی، اس کے بعد پانچ یا چھ ماہ گزرے تھے کہ قبیلہ بنی بکر نے قبیلہ خزاعہ پر رات کے وقت شب خون مارا ان دونوں قبیلوں کے درمیان زمانہ جاہلیت سے اَنْ بَنْ چلی آرہی تھی اس کا سبب یہ ہوا کہ ایک مرتبہ مالک بن عباد حضرمی مال تجارت لے کر بنو خزاعہ کے علاقہ سے گزر رہا تھا کہ بنو خزاعہ کے لوگوں نے اسکو قتل کردیا اور تمام مال و سامان لوٹ لیا، بنو بکر نے موقع پر کر حضرمی کے بدلے میں بنو خزاعہ کے ایک آدمی کو قتل کر ڈالا قبیلہ خزاعہ نے اپنے ایک آدمی کے بدلے بنو بکر کے تین سرداروں ذئویب اور سلمی اور کلثوم کو میدان عرفات میں حدود حرم کے قریب قتل کر ڈالا حدیبیہ میں ایک میعادی صلح ہوجانے کی وجہ سے فریقین ایک دوسرے سے مامون اور بےخوف ہوگئے بنو بکر نے اپنی دشمنی نکالنے کا موقع غنیمت سمجھا چناچہ بنو بکر میں سے نوفل اور معاویہ نے اپنے مددگاروں کے ساتھ مل کر بنو خزاعہ پر شب خوب مارا رات کا وقت تھا خزاعہ کے لوگ پانی کے ایک چشمہ پر سوئے ہوئے تھے۔ قریش میں سے صفوان بن امیہ اور شیبہ بن عثمان وغیرہ نے پوشیدہ طور پر بنو بکر کی جانی اور مالی مدد کی۔ بنو خزاعہ نے بھاگ کر حرم میں پناہ لی مگر ان کو حرم میں بھی قتل کردیا گیا قریش یہ سمجھے ہوئے تھے کہ دور کا معاملہ ہے اور رات کا وقت ہے رسول اللہ ﷺ کو اس کی اطلاع نہ ہوگی اگرچہ قریش کو اپنی حرکت پر بعد میں ندامت ہوئی اور عہد شکنی پر بہت پچھتائے۔ ادھر ہوا یہ کہ عمرو بن سالم خزاعی چالیس آدمیوں کا ایک وفد لے کر مدینہ منورہ بارگاہ نبوی میں حاضر ہوا، آنحضرت ﷺ اس وقت مسجد میں تشریف فرما تھے، عمرو بن سالم نے آپ ﷺ کے روبرو کھڑے ہو کر اشعار میں درد بھرے انداز میں واقعہ کی پوری روداد سنائی آپ ﷺ نے غداری اور عہد شکنی کی روداد سن کر فرمایا '' لا نصرت اِن لم انصرکم '' اگر میں تمہاری مدد نہ کروں تو میری مدد نہ کی جائے۔ یا رب انی ناشد محمداً حِلْفَ ابِیْینا وابیہ الا نلدا اے میرے پروردگار ! میں محمد ﷺ کو اپنے باپ اور ان کے باپ (عبدالمطلب) کا قدیم عہد یاد دلانے آیا ہوں، زمانہ جاہلیت میں خزاعہ حضرت عبد المطلب کے حلیف تھے مطلب یہ کہ ہمارا اور تمہارا تحالف کا رشتہ قدیم ہے، اِنَّ قریشا اخلَفُوْک الموعدا وَنَقضُوْا میثاقَکَ المؤکّدا بلا شبہ قریش نے آپ سے وعدہ خلافی کی اور آپ کے پختہ عہدو پیمان کو توڑ ڈالا۔ ھم بیّتونا بالوتیرة ھجّدا وقتلو نا رکّعًا وسُجَّدًا ان لوگوں نے چشمہ وتیرہ پر سوتے ہوئے ہم پر شب خون مارا اور رکوع اور سجدہ کی حالت میں ہم کو قتل کردیا۔ آنحضرت ﷺ نے قریش کی عہد شکنی کی خبر پا کر قریش کے خلاف جنگ کی خفیہ تیاری شروع کردی قریش کو بدر، احد اور احزاب کے معرکوں میں مسلمانوں کی غیبی امداد اور تہو روشجاعت کا اندازہ ہو کر اپنی قوت و طاقت کا نشہ اتر چکا تھا جس کی وجہ سے اپنی غلطی کا شدید احساس ہو رہا تھا، مجبور ہو کر ابوسفیان کو مدینہ بھیجا کہ وہ خود جا کر حالات کا اندازہ لگائیں اگر حالات بگڑے ہوئے دیکھیں تو عذر معذرت کر کے آئندہ کے لئے معاہدہ کی تجدید کرلیں، ابوسفیان نے مدینہ پہنچ کر ناگفتہ حالات دیکھے تو تجدید معاہدہ کی درخواست کی اور اکابر صحابہ سے سفارش کرنے کے لئے کہا مگر سب نے سابقہ اور لاحقہ حالات کی وجہ سے انکار کردیا اور ابو سفیان ناکام واپس چلا گیا جس کی وجہ سے قریش پر خوف وہراس طاری ہوگیا۔ تفسیر ابن ابی حاتم میں حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ کے قول کے مطا بق آیت کی تفسیر یہ ہے کہ اللہ پاک نے ان لوگوں کے ساتھ چار مہینے کی مدت مقرر کردی تھی جن لوگوں نے رسول ﷺ سے معاہدہ کیا تھا جیسے قبیلہ خزاعہ اور قبیلہ مدلج اور بنو ضمرہ اور جن لوگوں سے کوئی معاہدہ نہیں تھا ان لوگوں سے پچاس راتوں کی حد مقرر فرمائی یعنی اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو یہ حکم دیا کہ جن کفار سے تمہارا معاہدہ نہیں ہے ان سے دسویں ذی الحجہ سے لے کر آخر محرم تک نہ لڑو، اگر یہ لوگ اسلام قبول کرلیں تو بہتر ہے ورنہ ان کے ساتھ قتل کرو اور جن کافروں سے معاہدہ ہے ان کا حکم یہ ہے کہ دسویں ذی الحجہ سے ربیع الآخر کی دسویں تاریخ تک قتال نہ کرو اس مدت میں اگر یہ لوگ مسلمان ہوجائیں تو فبہا رونہ ان سے جہاد کرو جمہور کے قول کے مطابق 6 ھ میں حج فرض ہوا لیکن فتح مکہ سے پہلے تو آنحضرت ﷺ نے اس وجہ سے حج نہیں کیا کہ بیت اللہ اور صفا مروہ پر بت رکھے ہوئے تھے۔ فائدہ : اس مقام پر یہ جان لینا فائدہ سے خالی نہیں کہ فتح مکہ کے بعد دور اسلامی کا پہلا حج 8 ھ میں قدیم طریقہ پر ہوا پھر 9 ھ میں دوسرا حج مسلمانوں نے اپنے طریقہ پر کیا اس کے بعد تیسرا حج 10 ھ میں ہوا اور یہی وہ مشہور حج ہے جسے حجة الوداع کہتے ہیں آپ ﷺ پہلے دو حجوں میں تشریف نہیں لے گئے تیسرے حج میں جبکہ جزیرة العرب سے کفر کا مکمل استیصال ہوگیا تب آپ ﷺ نے حضرت ابوبکر صدیق ؓ کو امیر الحج بنا کر بھیجا اس دوران مذکورہ آیات نازل ہوئیں، اور ابوبکر ؓ کے پیچھے حضرت علی ؓ کو سورة برآة کی دس آیتیں دے کر روانہ فرمایا کہ مشرکین کو جا کر یہ آیتیں سنا دیں اور یہ بھی اعلان کردیں کہ 10 ھ سے کوئی مشرک یا ننگا شخص طواف نہ کرسکے گا۔ اعلان براءة کا مقصد : اس اعلان براءت سے عرب میں شرک اور مشرکوں کا وجود گویا عملاً خلاف قانون قرار دے دیا گیا، اور ان کے لئے پورے ملک میں کوئی جائے پناہ نہ رہی، یہ لوگ تو اس بات کے منتظر تھے کہ روم اور فارس کی طرف سے اسلامی سلطنت کو جب کوئی خطرہ ہو یا نبی ﷺ وفات پاجائیں تو یکایک نقض عہد کر کے خانہ جنگی برپا کردیں، لیکن اللہ اور اس کے رسول ﷺ نے ان کی ساعت منتظر آنے سے پہلے ہی بساط ان پر الٹ دی اور اعلان براءت کر کے ان کے لئے اسکے سوا کوئی چارہ باقی نہ چھوڑا کہ یا تو لڑنے پر تیار ہوجائیں اور اس اسلامی طاقت سے ٹکرا کر صفحہ ہستی سے مٹ جائیں یا ملک چھوڑ کر نکل جائیں یا پھر اسلام قبول کر کے اپنے آپ کو امن کی آغوش میں دے کر اسلامی نظم وضبط کے تابع ہوجائیں۔ فتح مکہ کے وقت مشرکین کی چار قسمیں اور ان کے احکام : اس وقت مکہ پر مسلمانوں کا مکمل قبضہ ہوچکا تھا اور '' لا تَثْریْبَ علیکم الیوم '' کہہ کر مکہ میں رہنے والے تمام مشرکوں کو جان ومال کا امان دے دیا گیا تھا، اس وقت مشرکین مکہ کے مختلف حالات تھے۔ پہلی قسم : ایک قسم تو وہ تھی جن سے حدیبیہ میں صلح کا معاہدہ ہوا اور انہوں نے خود اس کو توڑدیا اور وہی فتح مکہ کا سبب بنا۔ دوسری قسم : کچھ ایسے لوگ بھی تھے جن سے معاہدہ صلح ایک خاص مدت کے لئے کیا گیا تھا، اور وہ اس معاہدہ پر قائم رہے جیسے بنی کنانہ کے دو قبیلے بنی ضمرہ اور بنی مدلج ان قبیلوں سے ایک خاص مدت کے لئے معاہدہ صلح ہوا تھا اور سورة برآءت نازل ہونے کے وقت بقول خازن ان کی میعاد صلح کے نو مہینے باقی تھے۔ تیسری قسم : کچھ لوگ ایسے بھی تھے جن سے معاہدہ صلح غیر میعادی ہوا تھا۔ چوتھی قسم : چوتھے وہ لوگ تھے جن سے کسی قسم کا معاہدہ نہ تھا۔ پہلی قسم کا حکم : پہلی قسم جو قریش مکہ کی تھی جنہوں نے معاہدہ صلح حدیبیہ کو خود توڑ دیا اب یہ مزید مہلت کے مستحق نہ تھے، مگر چونکہ یہ زمانہ اشھر حرم کا تھا جن میں جنگ و قتال من جانب اللہ ممنوع تھا اس لئے ان کے متعلق وہ حکم آیا جو سورة توبہ کی پانچویں آیت میں مذکور ہے '' فاذا انسلخ الاشھر الحرم فاقتلوا المشرکین الآیة '' اگرچہ مشرکین مکہ نے عہد شکنی کر کے اپنا کوئی حق باقی نہیں چھوڑا تھا مگر اشھر حرم کا احترام بہرحال ضروری تھا، اس لئے اشھر حرم ختم ہوتے ہی وہ یا تو جزیرة العرب سے نکل جائیں یا مسلمان ہوجائیں ورنہ ان سے جنگ کی جائے گی۔ دوسری قسم کا حکم : دوسری قسم ان لوگوں کی تھی جن سے کسی خاص مدت کے لئے معاہدہ کیا گیا تھا اور وہ اس پر کار بند رہے ان کا حکم سورة توبہ کی چوتھی آیت میں یہ آیا ہے اِلاَّ الَّذِیْن عاھدتم من المشرکین ثم لم ینقصوکم الآیة یعنی وہ مشرک لوگ جن سے تم نے معاہدہ صلح کرلیا پھر انہوں نے معاہدہ پر قائم رہنے میں کوئی کمی نہیں کی، اور نہ تمہارے مقابلہ میں تمہارے کسی دشمن کی مدد کی تو تم ان کے معاہدہ کو اس کی مدت تک پورا کرو یہ حکم بنو ضمرہ اور بنو مدلج کا تھا، جس کی رو سے ان کو نو ماہ کی مہلت مل گئی۔ تیسری اور چوتھی جماعت کا حکم : ان دونوں جماعتوں کا ایک ہی حکم نازل ہوا، جو سورة توبہ کی پہلی اور دوسری آیت میں مذکور ہے، براءة من اللہ ورسولہ الی الذین عاھدتم من المشرکین، فسیحوا فی الارض اربعة اشھر الخ، یعنی اعلان دست برداری کے بعد تم کو صرف چار ماہ جزیرة العرب میں قیام کی اجازت ہے اس کے بعد تو تم اپنا ٹھکانہ اور کہیں تلاش کرلو یا اسلام کی پناہ میں آجائو بصورت دیگر جنگ کے لئے تیار ہوجائو، خوب سمجھ لو تم اللہ کو عاجز نہیں کرسکتے۔ خلاصہ : خلاصہ یہ کہ پہلی اور دوسری آیت کی رو سے ان لوگوں کو جن سے غیر میعادی معاہدہ تھا یا جن کے ساتھ سرے سے کوئی معاہدہ ہی نہ تھا چار ماہ کی مہلت مل گئی، اور چوتھی آیت کی رو سے ان لوگوں کو جن کے ساتھ کسی قسم کا میعادی معاہدہ تھا تا اختتام مدت معاہدہ مہلت مل گئی، اور پانچویں آیت کی رو سے مشرکین مکہ کو اشھر حرم ختم ہونے تک مہلت مل گئی۔ مذکورہ پانچ آیات سے متعلق چند مسائل و فوائد : فائدہ : (1) یہ کہ فتح مکہ کے بعد آپ ﷺ نے قریش مکہ اور دوسرے دشمن قبائل کے ساتھ جو عفو و درگذر اور رحم و کرم کا معاملہ فرمایا اس نے مسلمانوں کو عملی طور پر یہ درس دیا کہ جب تمہارا کوئی دشمن تمہارے قابو میں آئے اور تمہارے سامنے عاجز ہوجائے تو اس سے گذشتہ عداوتوں اور ایذائوں کا انتقام نہ لو بلکہ عفو و کرم سے کام لے کر اسلامی اخلاق کا ثبوت دو ۔ فائدہ : (2) یہ کہ دشمن پر قابو پانے کے بعد اپنے غصہ کے جذبات کو دبا دینا اس بات کا ثبوت ہے کہ اس کی لڑائی اپنے نفس کے لئے نہیں بلکہ محض اللہ کے لئے تھی اور یہی وہ اعلیٰ مقصد ہے جو اسلامی جہاد اور عام بادشاہوں کرے گا تو شرافت کا تقاضہ یہ ہے کہ اس کو اسلام اور مسلمانوں سے محبت پیدا ہوگی جو اس کے لئے کلید کامیابی ہے۔
Top