Bayan-ul-Quran - Hud : 15
مَنْ كَانَ یُرِیْدُ الْحَیٰوةَ الدُّنْیَا وَ زِیْنَتَهَا نُوَفِّ اِلَیْهِمْ اَعْمَالَهُمْ فِیْهَا وَ هُمْ فِیْهَا لَا یُبْخَسُوْنَ
مَنْ : جو كَانَ يُرِيْدُ : چاہتا ہے الْحَيٰوةَ الدُّنْيَا : دنیا کی زندگی وَزِيْنَتَهَا : اور اس کی زینت نُوَفِّ : ہم پورا کردیں گے اِلَيْهِمْ : ان کے لیے اَعْمَالَهُمْ : ان کے عمل فِيْهَا : اس میں وَهُمْ : اور وہ فِيْهَا : اس میں لَا يُبْخَسُوْنَ : نہ کمی کیے جائیں گے (نقصان نہ ہوگا)
جو کوئی دنیا کی زندگی اور اس کی دلفریبیاں ہی چاہتا ہے تو ہم اس کی کوشش و عمل کے نتائج یہاں پورے پورے دے دیتے ہیں ایسا نہیں ہوتا کہ دنیا میں اس کے ساتھ کمی کی جائے
جو کوئی دنیا کی زندگی اور اس کی دلفریبیاں ہی چاہتا ہو تو ہم اس کو دے دیتے ہیں 24 ؎ مخالفین اسلام کو جب عذاب الٰہی کی وعیدیں سنائی جاتی ہیں تو وہ اپنی خیرات و صدقات اور خدمت خلق اور رفاہ عام کے کاموں کو سند میں پیش کرتے تھے کہ ہم ایسے نیک کام کرتے ہیں پھر ہم کو عذاب ، آخر کیوں ؟ غور کرو گے تو پائو گے کہ اس آیت میں ایک بڑی تلخ مگر گہری حقیقت کا اعلان ہے جو لوگ یا تو سر تا سر دنیا ہی کو اور اس کی ” ترقیوں “ کو اپنا منتہائے نظر اور نصب العین بنائے ہوئے ہیں اور اپنی ساری سرگرمیوں کا مرکز اس کو رار دیتے ہیں وہ گھبرائیں نہیں ، انہیں مایوسی نہیں ہوگی ۔ انہیں اپنی ساری جدوجہد کا صلہ یہیں اور ابھی ملا جاتا ہے۔۔۔ وہ کیا چاہتے ہیں ؟ دولت تو پھر ان کا ایک ایک فرد قارون وقت ہو کر رہے گا ۔ انہیں حکومت کی ہوس ہے دنیا کے سارے ملک انہیں کے درمیان تقسیم ہو کر رہیں گے ۔ انہیں عزت و ناموری اور فتح مندی کی چاٹ ہے تو اچھا وہ دل کھول کر اپنے دل کے ارکان نکال کر رہیں ’ ’ جو شخص دنیا ہی کی زندگی اور اس کی رونق کو مد نظر رکھتا ہے “ ۔ حیات وزینت حیات سے الفت تو ایک امر طبعی ہے اور ہر انسان بڑے سے بڑا متقی انسان بھی کسی درجہ میں اس کا آرزو مند ضرور رہتا ہے البتہ حیات دنیوی کو آخرت کی طرف سے آنکھیں بند کر کے اپنا مقصود بنا لینا اور اپنے وقت وقوت کو اس میں خرچ کئے چلے جانا یہ ایک بالکل دوسری چیز ہے اور اس جگہ اس کا ذکر ہے جیسا کہ لفظ یرید سے ظاہر ہے اور آج تو بہت سے ناواقف مسلمان بھی اس شبہ میں گرفتار نظر آتے ہیں کہ جو کافر ظاہری اعمال و اخلاق درست رکھتے ہیں خلق خدا کی خدمت میں خیرات و صدقات کرتے ہیں ۔ سڑکیں ، پل ، شفا خانے ، پانی کی سبیلیں بناتے اور چلاتے ہیں ۔ ان کو مسلمانوں سے اچھا جانتے ہیں ۔ بس اس آیت میں اس کا جواب دیا گیا ہے۔ خلاصہ کلام یا خلاصہ جواب یہ ہے کہ ہر عمل کے مقبول اور باعث نجات آخرت ہونے کی پہلی شرط یہ ہے کہ وہ عمل اللہ کی رضا کیلئے کیا گیا ہو اور اللہ کیلئے کرنا وہی معتبر ہے جو اس کے رسول ﷺ کے بتائے ہوئے طریقے پر کیا گیا ہو لیکن جو شخص اللہ اور اس کے رسول ﷺ پر ایمان ہی نہیں رکھتا اس کے تمام اعمال و اخلاق ایک بےروح ڈھانچہ ہے جس کی شکل و صورت تو اچھی بھلی ہے مگر دوزخ نہ ہونے کی وجہ سے دار آخرت میں اس کا کوئی حزن اثر نہیں ہوگا ہاں ! دنیا میں چونکہ اس سے لوگوں کو فائدہ پہنچتا ہے اور ظاہری صورت کے اعتبار سے وہ نیک عمل ہے اس لئے اللہ تعالیٰ نے اپنے کمال عدل و انصاف کی بناء پر اس عمل کو بھی بالکل ضائع قرار نہیں دیا اس کے کرنے والے کے نزدیک جو کچھ مقصد تھا کہ دنیا میں اس کی عزت ہو ، لوگ اس کو سخی ، کریم اور بڑا آدمی سمجھیں ۔ دنیا کی دولت ، تندرستی اور راحت نصیب ہو اللہ تعالیٰ نے اس کو سب کچھ مع شے زائد دنیا میں دے دیا اور آخرت کا تصور اور وہاں کی نجات گو زندگی اس کے پیش نظر ہی نہ تھی اور نہ اس کا بےروح عمل واں کی نعمتوں کی قیمت بن سکتا تھا اس لئے اس کے ان اعمال کا وہاں کچھ عوض نہ ملے گا اور کفر و مصیبت کی وجہ سے جہنم میں رہے گا ۔ یہ مضمون قرآن کریم نے مختلف انداز سے سمجھانے کی کوشش کی ہے لیکن یہی وہ مشکل ترین چیز ہے جو بہت کم لوگوں کے ذہن میں بیٹھتی ہے جس نے اس کو مانا اور تسلیم کیا ہے اس نے بھی بہت کم ایسا ہوا ہے کہ سمجھ کر اور عقل و فکر کے تقاضوں کے ساتھ اس کو تسلیم کیا ہے اور یہ بات بالکل واضح ہے کہ جو عمل عقل و فکر سے سمجھ کر نہ کیا جائے اس کا کبھی صحیح نتیجہ نہیں نکلتا چونکہ نتیجہ عمل کے ساتھ وابستہ ہے جب عمل ہی ان نیچرل ہے تو اس کا نتیجہ نیچر کے مطابق کیسے نکل سکتا ہے ۔ ہمارے علمائے کرام کی اکثریت نے دین کو بغیر سمجھے صرف سینہ زوری کے ساتھ ایک بات منوانے کی کوشش کی ہے ، کیوں ؟ اس لئے کہ ان کو اسی طرح سینہ زوری سے وہ سکھائی گئی تھی اور وہ محض رسما ً اس کو سیکھے تھے اور رسما ً اس کو منوانا چاہتے ہیں اور ظاہر ہے جو چیز جو کام جو بات محض رسما ًکی جائے اس کا نتیجہ رسما ً ہی نکلے گا ۔ اصولا ً نہیں نکل سکتا اور نتیجہ رسما ً کیا ہے ؟ یہی کہ اس رسم کو کرنے والوں اور کرانے والوں نے اس کے پورا کرنے کو سراہا ہے اور اس کو جس نے رسم کی داد دی ہے کہ ” واہ بھائی واہ “ آپ نے خوب رسم ادا کی ہے کہ آج تک ایسی رسم کوئی نہ ادا کرسکا یہ ” واہ بھائی واہ “ کیا ہے ؟ یہ اس رسم کا نتیجہ ہے جو اس رسم ادا کرنے والے کو مل گیا کہ اس کی ” واہ واہ “ ہوگئی ۔ اب غور کرو اور سمجھ سوچ کر بتائو کہ اس ” واہ واہ “ کو کونسا ثبات حاصل ہے جو دیر تک باقی رہے گا اور اس کو آڑے وقت کام آئے گا ۔ ہاں جب اس پر کوئی مشکل وقت آجائے تو یہی ” واہ واہ “ اس کیلئے تضحیک کا باعث ہو سکتی ہے اور یہی بات قرآن کریم تفہیم کرانا چاہتا ہے
Top