Jawahir-ul-Quran - An-Nahl : 120
اِنَّ اِبْرٰهِیْمَ كَانَ اُمَّةً قَانِتًا لِّلّٰهِ حَنِیْفًا١ؕ وَ لَمْ یَكُ مِنَ الْمُشْرِكِیْنَۙ
اِنَّ : بیشک اِبْرٰهِيْمَ : ابراہیم كَانَ : تھے اُمَّةً : ایک جماعت (امام) قَانِتًا : فرمانبردار لِّلّٰهِ : اللہ کے حَنِيْفًا : یک رخ وَ : اور لَمْ يَكُ : نہ تھے مِنَ : سے الْمُشْرِكِيْنَ : مشرک (جمع)
اصل میں تو ابراہیم تھا99 راہ ڈالنے والا فرمانبردار اللہ کا سب سے ایک طرف ہو کر اور نہ تھا شرک والوں میں
99:۔ خاتمہ :۔ جب دونوح حصوں میں شرک اعتقادی (شرک فی التصرف) اور شرک فعلی کی نفی مفصل طریق پر بیان ہوچکی اور اس پر دلائل عقلیہ اور دلیل وحی بھی مذکور ہوچکی تو آخر میں دونوں مضمونوں پر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے دلیل نقلی کا ذکر کیا گیا۔ ” امۃ “ بروزن فعلۃ بمعنی مفعول ہے ای ماموما اور تاء مبالغہ کے لیے ہے یعنی سب سے بڑا پیشوا یا امۃ بمعنی جماعت ہے اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) پر اس کا اطلاق اس لیے کیا گیا کیونکہ ان کی ذات میں اس قدر خیر و برکت تھی جتنی ایک کثیر جماعت میں ہوتی ہے۔ قال ابن عباس ؓ ای کان عندہ (علیہ السلام) من الخیر ماکان عند امۃ وھی الجماعۃ الکثیرۃ۔۔۔ وقیل الامۃ ھنا فعلۃ بمعنی مفعول کالرحلۃ بمعنی المرحول الیہ (روح ج 14 ص 249) ۔ یعنی حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اپنے زمانے میں سب سے بڑئے پیشوائے دین اور خیر و صلاح کے جامع تھے۔ ” قانتا للہ “ اللہ تعالیٰ کے بڑے فرمانبردار، ” حنیفا “ تمام باطل دینوں سے منحرف ہو کر صرف دین توحید و ماننے والے، ” و لم یک من المشرکین “ اور ہر قسم کا شرک ( شرک فی التصرف اور شرک فعلی) کرنے والوں سے بیزار اور دور تھے۔ ” شاکر لانعمہ “ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا شکر ادا کرنے والے، حاجات میں اللہ ہی کو پکارنے والے اور اللہ ہی کی نذریں نیازیں دینے والے۔ ” اجتباہ “ اللہ تعالیٰ نے آپ کو منتخب فرما لیا اور صراط مستقیم (راہ توحید) کی طرف آپ کی راہنمائی فرمائی۔ ” و اتیناہ الخ “ دنیا میں ہم نے ان کو یہ رتبہ بلند عطا کیا کہ قیامت تک آنے والے تمام لوگ خواہ وہ کسی مذہب سے تعلق رکھتے ہوں انہیں اپنا پیشوا مانیں گے اور آخرت میں وہ صالحین کے بلند درجات میں ہوں گے۔
Top