Jawahir-ul-Quran - An-Nahl : 119
ثُمَّ اِنَّ رَبَّكَ لِلَّذِیْنَ عَمِلُوا السُّوْٓءَ بِجَهَالَةٍ ثُمَّ تَابُوْا مِنْۢ بَعْدِ ذٰلِكَ وَ اَصْلَحُوْۤا١ۙ اِنَّ رَبَّكَ مِنْۢ بَعْدِهَا لَغَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ۠   ۧ
ثُمَّ : پھر اِنَّ : بیشک رَبَّكَ : تمہارا رب لِلَّذِيْنَ : ان لوگوں کے لیے جو عَمِلُوا : عمل کیے السُّوْٓءَ : برے بِجَهَالَةٍ : نادانی سے ثُمَّ : پھر تَابُوْا : انہوں نے توبہ کی مِنْۢ بَعْدِ : اس کے بعد ذٰلِكَ : اس وَاَصْلَحُوْٓا : اور انہوں نے اصلاح کی اِنَّ : بیشک رَبَّكَ : تمہارا رب مِنْۢ بَعْدِهَا : اس کے بعد لَغَفُوْرٌ : بخشنے والا رَّحِيْمٌ : نہایت مہربان
پھر بات یہ ہے کہ تیرا رب98 ان لوگوں پر جنہوں نے برائی کی نادانی سے پھر توبہ کی اس کے پیچھے اور سنوارا اپنے کام کو سو تیرا رب ان باتوں کے پیچھے بخشنے والا مہربان ہے
98:۔ ” ثم “ تعقیب زکری کے لیے ہے یعنی پھر یہ بات بھی سن لو اور یہ بھی ” ضرب اللہ مثلا “ سے متعلق ہے۔ یہ بھی اللہ تعالیٰ کا احسان تھا کہ اس نے مشرکین مکہ کو عذاب سے بالکلیہ ہلاک نہیں کردیا بلکہ انہیں سوچنے، سمجھنے اور عبرت پکڑنے کے لیے مزید مہلت دی اس لیے جو لوگ نادانی اور بےسمجھی سے کفر و شرک کرتے رہے ہیں اگر وہ اب بھی یعنی عذاب قحط اٹھ جانے کے بعد بھی صدق دل سے توبہ کر کے دین اسلام قبول کرلیں، کفر و شرک سے باز آجائیں اور اعمال صالحہ کو بجا لائیں تو اللہ تعالیٰ ایسا مہربان ہے کہ ان کے تمام سابقہ گناہ معاف کردے گا۔ ” السوء “ سے مراد شرک ہے جیسا کہ حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے منقول ہے۔ السوء الشرک قالہ ابن عباس ؓ (قرطبی ج 10 ص 197)
Top