Jawahir-ul-Quran - Maryam : 42
اِذْ قَالَ لِاَبِیْهِ یٰۤاَبَتِ لِمَ تَعْبُدُ مَا لَا یَسْمَعُ وَ لَا یُبْصِرُ وَ لَا یُغْنِیْ عَنْكَ شَیْئًا
اِذْ قَالَ : جب اس نے کہا لِاَبِيْهِ : اپنے باپ کو يٰٓاَبَتِ : اے میرے ابا لِمَ تَعْبُدُ : تم کیوں پرستش کرتے ہو مَا لَا يَسْمَعُ : جو نہ سنے وَلَا يُبْصِرُ : اور نہ دیکھے وَلَا يُغْنِيْ : اور نہ کام آئے عَنْكَ : تمہارے شَيْئًا : کچھ
جب کہا اپنے باپ کو32 اے باپ میرے کیوں پوجتا ہے اس کو جو نہ سنے اور نہ دیکھے اور نہ کام آئے تیرے کچھ
32:۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے باپ کا نام تارح اور لقب آزر تھا۔ جو نہ صرف بت پرست تھا۔ بلکہ بت تراش بھی تھا وہ بت بنا کر فروخت کیا کرتا تھا۔ اس کی زیادہ تحقیق سورة انعام رکوع 9 کی تفسیر میں گذر چکی ہے اور مزید تحقیق سورة شعراء کے آخری رکوع کی تفسیر میں آئے گی۔ انشاء اللہ تعالی۔ ” لِمَ تَعْبُدُ مَا لَا یَسْمَعُ الخ “ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے بغیر کسی تمہید کے مسئلہ توحید کا منفی پہلو (جو نسبتا زیادہ ناگوار گذرتا ہے) اپنے باپ کے سامنے پیش فرما دیا۔ یہ غالباً تبلیغ کا آخر موقع تھا۔ اس سے قبل توحید کا مثبت پہلو کئی بار بیان فرم اچکے تھے۔ اس میں انہوں نے معبودانِ باطلہ کے تین نقائص بیان فرمائے ہیں۔ اول یہ کہ پکارنے والے کی دعاء اور پکار کو سن نہیں سکتے دوم یہ کہ وہ اپنے پکارنے والے کا خشوع و خضوع اور اس کا عجز و انکسار دیکھ نہیں سکتے۔ سوم یہ کہ وہ کسی کام نہیں آسکتے نہ وہ مشکلکشائی کرسکتے ہیں نہ حاجت روائی۔
Top