Jawahir-ul-Quran - Al-Baqara : 121
اَلَّذِیْنَ اٰتَیْنٰهُمُ الْكِتٰبَ یَتْلُوْنَهٗ حَقَّ تِلَاوَتِهٖ١ؕ اُولٰٓئِكَ یُؤْمِنُوْنَ بِهٖ١ؕ وَ مَنْ یَّكْفُرْ بِهٖ فَاُولٰٓئِكَ هُمُ الْخٰسِرُوْنَ۠   ۧ
الَّذِينَ : جنہیں اٰتَيْنَاهُمُ : ہم نے دی الْكِتَابَ : کتاب يَتْلُوْنَهٗ : اس کی تلاوت کرتے ہیں حَقَّ : حق تِلَاوَتِهٖ : اس کی تلاوت اُولٰئِکَ : وہی لوگ يُؤْمِنُوْنَ : ایمان رکھتے ہیں بِهٖ : اس پر وَ مَنْ : اور جو يَكْفُرْ بِهٖ : انکار کریں اسکا فَاُولٰئِکَ : وہی هُمُ الْخَاسِرُوْنَ : وہ خسارہ پانے والے
وہ لوگ جن کو دی ہم نے کتاب وہ اسکو پڑھتے ہیں جو حق ہے اسکے پڑھنے کا231 وہی اس پر یقین لاتے ہیں232 اور جو کوئی منکر ہوگا اس سے تو وہی لوگ نقصان پانے والے ہیں233 
231 موصول عہد کے لیے ہے اور اس سے مراد وہ لوگ ہیں جو اہل کتاب میں سے ایمان لا چکے تھے۔ مثلاً عبداللہ بن سلام، ابن صوریا اور ابن یامین وغیرہ قال الضحاک ھم من امن من الیھود کا بن سلام وابن صوریا وابن یامین (بحر ص 369 ج 1) الکتب سے مراد تورات وانجیل ہیں علی ارادۃ الجنس اور تلاوت کے معنی یہاں اتباع اور پیروی کے ہیں جیسا کہ وَالْقَمَرِ اِذَاتَلَاھَا میں تلا بمعنی اتبعھا وذھب علی اثرھا کے ہیں۔ ای یتبعونہ حق اتباعہ۔۔۔ قال عکرمۃ اما سمعت قول اللہ تعالیٰ والقمر اذا تلاھا (قرطبی ص 95 ج 2) یعنی وہ اہل کتاب اپنی کتاب کی اتباع کا حق ادا کرتے ہیں حق اتباع یہ ہے کہ وہ اس کے تمام اوامر ونواہی کی تعمیل کرتے ہیں اور اس میں لفظی یا معنوی تحریف نہیں کرتے اور اگر تلاوت بمعنی قرائت ہو تو مطلب پھر بھی یہی ہوگا کہ وہ اسے اسی طرح پڑھتے ہیں جس طرح وہ نازل ہوئی ہے اور اس کی تحریف نہیں کرتے۔ یقرء ونہ کما انزل اللہ ولا یحرفون الکلم عن مواضعہ ولا یتا ولونہ علی غیر الحق (کبیر ص 703 ج 1) 232 اُولٰۗىِٕكَ يُؤْمِنُوْنَ بِهٖ ۭ۔ بِهٖکی ضمیر کو بعض مفسرین نے الکتاب کی طرف راجع کیا ہے اور اسے راجح قرار دیا ہے مگر یہ صحیح نہیں کیونکہ اس صورت میں يَتْلُوْنَهٗ حَقَّ تِلَاوَتِهٖ اور اُولٰۗىِٕكَ يُؤْمِنُوْنَ بِهٖدونوں کا مفہوم ایک ہی ہوگا اور تنوع عبارت اور تاکید کے بغیر جملہ ثانیہ کا کوئی فائدہ نہیں ۃ وگا۔ اس لیے بہتر یہ ہے کہ یہ ضمیر حضرت نبی کریم ﷺ کی طرف راجع ہو کیونکہ اِنَّآ اَرْسَلْنٰكَمیں آپ کا ذکر گذر چکا ہے تو اس صورت میں خطاب سے غیبت کی طرف التفات ہوگا۔ یا ضمیر ھُدَى اللّٰهِکی طرف راجع ہو ہو۔ (بحر ص 370 ج 1) تو دونوں صورتوں میں اس کا مطلب یہ ہوگا کہ جو اہل کتاب اپنی کتاب کو کما حقہ پڑھتے ہیں اس کے اوامر ونواہی کی تعمیل کرتے ہیں اور اس میں کسی قسم کی تحریف نہیں کرتے وہ تو اس آخری نبی کو مانتے اور اس پر ایمان رکھتے ہیں یا اس کی لائی ہوئی ہدایت کو مانتے ہیں۔ جب تمہارے یہ علماء تسلیم کرتے ہیں تو اس سے معلوم ہوا کہ یہ پیغمبر سچا ہے اور جو دعویٰ توحید اس نے پیش کیا ہے وہ بھی صحیح اور درست ہے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوگیا کہ اس پیغمبر کی صداقت اور اس کی پیش کردہ دعوت توحید کی حقانیت خود ان کی اپنی کتاب میں بھی مذکور ہے جبھی تو انہوں نے ان کی تصدیق کی ہے اس طرح یہ آیت دعوی توحید کی نقلی دلیل ہوگی۔ 233 جن لوگوں نے اس پیغمبر ﷺ اور ان کی لائی ہوئی ہدایت کا انکار کیا وہ سخت خسارے میں رہیں گے کیونکہ انہوں نے ایمان کے عوض کفر خرید کر سودا ہی ایسا کیا ہے جس میں سراسر خسارہ ہی خسارہ ہے۔ یہاں تک اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل پر اپنے انعامات و احسانات کا ایک ایک کر کے ذکر کیا ہے۔ پھر ان کی شرارتوں اور خباثتوں کو واضح فرمایا ہے۔ ان کی سرکشی اور ضدوعناد کی مثالیں بیان کی ہیں سب کچھ یاد دلا کر اب آخر میں انعامات یاد کرنے اور عذاب وانتقام سے ڈرنے کا حکم دیا ہے اس مکرر ترغیب وترہیب کے بعد اس سلسلہ مضامین کو ختم کردیا ہے۔ نیز یہ ترغیب وترہیب آئندہ مضامین کے لیے بطور تمہید لائی گئی ہے۔
Top