Jawahir-ul-Quran - Al-Baqara : 141
تِلْكَ اُمَّةٌ قَدْ خَلَتْ١ۚ لَهَا مَا كَسَبَتْ وَ لَكُمْ مَّا كَسَبْتُمْ١ۚ وَ لَا تُسْئَلُوْنَ عَمَّا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ۠   ۧ
تِلْکَ أُمَّةٌ : یہ امت قَدْ : تحقیق خَلَتْ : جو گزر گئی لَهَا : اس کے لئے مَا کَسَبَتْ : جو اس نے کمایا وَ : اور لَکُم : تمہارے لئے مَا کَسَبْتُمْ : جو تم نے کمایا وَ : اور لَا : نہ تُسْئَلُوْنَ : پوچھا جائے گا عَمَّاکَانُوْا : اس کے بارے میں جو وہ يَعْمَلُوْنَ : کرتے تھے
وہ ایک جماعت تھی جو گزر چکی انکے واسطے ہے جو انہوں نے کیا اور تمہارے واسطے ہے جو تم نے کیا اور تم سے کچھ پوچھ نہیں ان کے کاموں کی268
268 یہود اور نصاریٰ کے دلوں میں اپنے آباء و اجداد پر فخر و غرور مضبوطی سے بیٹھ چکا تھا اور وہ اپنی نجات کے بےبس اپنے اسلاف ہی کے اعمال کو کافی سمجھتے تھے اس لیے ان کے اس بےفائدہ فخر کو توڑنے کے لیے اور انہیں اس غلط خیال کے بد انجام سے ڈرانے کے لیے اس آیت کا اعادہ کیا گیا۔ تکریر لما تقدم للمبالغۃ فی التحذیر عما استحکم فی الطباع عن الفتخار بالآباء والاتکال علیہم (روح ص 401 ج 1) یہاں تک توحید و رسالت کے نقلی دلائل کا بیان تھا۔ اب آگے رسالت کے متعلق یہود اور نصاریٰ اور مشرکین کے بعض شبہات کا جواب دیا گیا ہے۔۔ پہلا شبہ : جب آنحضرت ﷺ مدینہ میں تشریف لائے اس وقت آپ بیت المقدس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھتے تھے۔ سولہ یا سترہ ماہ بعد آپ کو خانہ کعبہ کی طرف رخ کرنے کا حکم مل گیا۔ تحویل قبلہ کا حکم دینے سے پہلے اللہ تعالیٰ نے بطور پیش گوئی آپ کو بتادیا کہ مستقبل قریب میں جب آپ کو تحویل قبلہ کا حکم ملے گا اس وقت احمق اور بیوقوف لوگ اس بات پر اعتراض کریں گے کوئی کہے گا کہ اس نے بیت المقدس کو جو تمام انبیاء کا قبلہ تھا چھوڑ دیا ہے اس لیے یہ پیغمبر نہیں، کوئی کہے گا کہ بیت المقدس سے بیت اللہ کا رخ کیا ہے شاید وطن کی یاد نے ستایا ہے اور دیکھو عنقریب مدینہ چھوڑ کر مکہ واپس آنے والا ہے غرض جتنے منہ اتنی باتیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے اس شبہ یا اعتراض کا جواب دیا ہے۔
Top