Jawahir-ul-Quran - Al-Baqara : 19
اَوْ كَصَیِّبٍ مِّنَ السَّمَآءِ فِیْهِ ظُلُمٰتٌ وَّ رَعْدٌ وَّ بَرْقٌ١ۚ یَجْعَلُوْنَ اَصَابِعَهُمْ فِیْۤ اٰذَانِهِمْ مِّنَ الصَّوَاعِقِ حَذَرَ الْمَوْتِ١ؕ وَ اللّٰهُ مُحِیْطٌۢ بِالْكٰفِرِیْنَ
أَوْ کَصَيِّبٍ : یا جیسے بارش ہو مِنَ السَّمَاءِ : آسمان سے فِيهِ : اس میں ظُلُمَاتٌ : اندھیرے ہوں وَرَعْدٌ : اور گرج وَبَرْقٌ : اور بجلی يَجْعَلُونَ : وہ ٹھونس لیتے ہیں أَصَابِعَهُمْ : اپنی انگلیاں فِي آذَانِهِمْ : اپنے کانوں میں مِنَ الصَّوَاعِقِ : کڑک کے سبب حَذَرَ الْمَوْتِ : موت کے ڈر سے وَاللَّهُ : اور اللہ مُحِيطٌ : گھیرے ہوئے ہے بِالْکَافِرِينَ : کافروں کو
یا ان کی مثال ایسی ہے40 جیسے زور سے مینہ پڑ رہا ہو41 آسمان سے ان میں اندھیرے ہیں اور گرج اور بجلی دیتے ہیں انگلیاں اپنے کانوں میں مارے کڑک کے موت کے ڈر سے42 اور اللہ احاطہ کرنے والا ہے کافروں کا43
40 ۔ مثال فریق ثالث یعنی منافقین۔ اَوْ کَصَیِّبٍ پہلی تفسیر کے مطابق یہ منافقین کی دوسری مثال ہے اور اَوْ تخییر کے لیے ہے اور حضرت شیخ (رح) کی تفسیر کے مطابق اَوْ تنویع کیلئے ہے۔ اور یہ منافقین کے حال کی واحد تمثیل ہے اور پھر اس تمثیل کی دو شقیں ہیں ایک وَاللّٰهُ مُحِيْطٌۢ بِالْكٰفِرِيْنَ تک اور دوسری یَکَادُ الْبَرْقُ سے آخر رکوع تک۔ اور صَیِّبٌ سے پہلے لفظ ذوی یا اصحاب محذوف ہے ای کا صحاب صیب (معالم ص 31 ج 1) یعنی منافقون کی مثال ان لوگوں جیسی ہے جو شدید بارش میں گھر جائیں اور صَیِّب کے معنی موسلا دھار بارش کے ہیں۔ 41 ۔ سماء ہر اس چیز کو کہتے ہیں جو اوپر کی جانب ہو اسماء کل ما علاک فاظلک (قرطبی ص 216 ج 1) اور یہاں سماء سے مراد بادل ہیں۔ ای من السحاب (معالم ص 31 ج 1) ۔ 42 ۔ یجعلون اصابعہم۔ فیہ اندماج ای فی ذلک الموضع رجال قاعدون او لفظۃ ذوی محذوفۃ قبل صیب۔ یجعلون الخ ظلمات اور رعد سے متعلق ہے اور حَذَرَ الْمَوْت۔ یَجْعَلُوْنَ کا مفعول لہ ہے جو اس فعل کی علت بیان کر رہا ہے یعنی اس ڈر سے کہ کہیں صواعق کی گراجدار آواز سے وہ ہلاک نہ ہوجائیں وہ کانوں میں انگلیاں ٹھونس لیتے ہیں تاکہ وہ صواعق کی آواز سن ہی نہ سکیں۔ اس تمثیل میں صیب سے مراد ایمان یا قرآن ہے۔ ظلمات اور رعد سے وہ شدائد اور تکالیف مراد ہیں جو ایمان لانے کے بعد برداشت کرنی پڑتی ہیں۔ یا اس سے قرآنی وعیدیں اور تخویفیں مراد ہیں اور برق سے ایمان کے دنیوی فوائد یا قرآن میں رشد وہدایت کا ذکر مراد ہے اور صواعق سے مراد شرعی تکالیف یا قرآن کی وعد وعید کی آیات ہیں (کبیر ص 294 ج 1، معالم ص 32 ج 1، قرطبی ص 219 ج 1 وغیرہ) منافقین کانوں میں انگلیاں ٹھونس لیتے تھے تاکہ قرآن نہ سن سکیں کیونکہ انہیں خطرہ تھا کہ قرآن سننے سے کہیں ان کے دلوں میں ایمان نہ داخل ہوجائے اور ایمان قبول کرنے کو وہ موت کے مرادف سمجھتے تھے۔ جعلھم اصابعھم فی اذانھم لئلا یسمعوا القران فیؤمنوا بہ وبمحمد (علیہ السلام) وذالک عندھم کفر والکفر موت (قرطبی ص 218 ج 1)
Top