Jawahir-ul-Quran - Al-Baqara : 20
یَكَادُ الْبَرْقُ یَخْطَفُ اَبْصَارَهُمْ١ؕ كُلَّمَاۤ اَضَآءَ لَهُمْ مَّشَوْا فِیْهِ١ۙۗ وَ اِذَاۤ اَظْلَمَ عَلَیْهِمْ قَامُوْا١ؕ وَ لَوْ شَآءَ اللّٰهُ لَذَهَبَ بِسَمْعِهِمْ وَ اَبْصَارِهِمْ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ۠   ۧ
يَكَادُ : قریب ہے الْبَرْقُ : بجلی يَخْطَفُ : اچک لے اَبْصَارَھُمْ : انکی نگاہیں كُلَّمَآ : جب بھی اَضَآءَ : ّّوہ چمکی لَھُمْ : ان پر مَّشَوْا : چل پڑے فِيْهِ : اس میں وَاِذَآ : اور جب اَظْلَمَ : اندھیرا ہوا عَلَيْهِمْ : ان پر قَامُوْا : وہ کھڑے ہوئے وَلَوْ : اور اگر شَآءَ : چاہتا اللّٰهُ : اللہ لَذَھَبَ : چھین لیتا بِسَمْعِهِمْ : ان کی شنوا ئی وَاَبْصَارِهِمْ : اور ان کی آنکھیں اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ عَلٰي : پر كُلِّ : ہر شَىْءٍ : چیز قَدِيْرٌ : قادر
قریب ہے کہ بجلی اچک لے ان کی آنکھیں جب چمکتی ہے ان پر تو چلنے لگتے ہیں اس کی روشنی میں اور جب اندھیرا ہوتا ہے تو کھڑے رہ جاتے ہیں44 اور اگر چاہے اللہ تو لے جائے ان کے کان اور آنکھیں45 بیشک اللہ ہر چیز پر قادر ہے46
43 ۔ لیکن یہ حیلہ انہیں موت سے نہیں بچا سکتا کیونکہ جس کے اختیار میں میں موت وحیات ہے وہ علم وقدرت کے لحاظ سے ان پر حاوی ہے وہ اس کی گرفت سے کبھی آزاد نہیں ہوسکتے۔ اس مثال کا حاصل یہ ہے کہ موسلا دھار بارش ہو رہی ہو۔ چاروں طرف گھٹا ٹوپ اندھیرا چھایا ہوا ہو۔ رعد کی گرجدار آواز بھی سنائی دے رہی ہو اور بجلی چمک رہی ہو تو اس وقت چاہئے تو یہ تھا کہ وہ رعد کی گرجدار آواز کی طرف دھیان دیتے اور سمجھتے کہ مزید بارش ہونے والی ہے اور اولے برسنے والے ہیں اس لیے اپنے بچاؤ کی کوئی صورت تلاش کرتے جب بجلی چمکتی اس وقت اپنے مامن کا راستہ دیکھتے اور جب اندھیرا ہوجاتا اس وقت مامن کی طرف چل پڑتے۔ مگر ان منافقوں کا حال یہ ہے کہ وہ رعد کی آواز یعنی قرآنی وعیدیں سنتے ہی نہیں بلکہ اپنے کانوں میں انگلیاں ٹھونس لیتے کہ کہیں ان کے دلوں میں ایمان نہ داخل ہوجائے کیونکہ ایمان کو تو وہ موت جانتے ہیں۔ 44 ۔ یہ اس تمثیل کی دوسری شق ہے یعنی جب اندھیرے میں بجلی کوندتی ہے تو وہ اس کی روشنی میں چند قدم چل لیتے ہیں اور جونہی بجلی کی روشنی غائب ہوئی وہیں رک گئے یہی حال منافقین کا تھا کہ جب اسلام کی فتح مندی اور مسلمانوں کی کامیابی دیکھتے تو ان کے دل ایمان کی طرف مائل ہوجاتے لیکن جب ان پر کوئی مصیبت یا تکلیف اترتی تو ایمان کی طرف سے بد دل ہوجاتے کلما اصاب المنافقین من عز الاسلام اطمانوا الیہ واذا اصاب الاسلام نکبۃ قاموا لیرجعوا الی الکفر (ابن کثیر ص 55 ج 1) حالانکہ چاہئے تو یہ تھا کہ روشنی میں راستہ دیکھتے اور اندھیرے میں راستہ ٹٹول ٹٹول کر آگے بڑھنے کی کوشش کرتے یعنی ہر حال میں صدق دل سے اور خلوص نیت سے اسلام کی پیروی کرتے۔ حضرت شیخ (رح) فرمایا کرتے تھے کہ خطف ابصار سے یہاں آنکھوں کا اچک لینا مراد نہیں بلکہ اس کے معنی خیرہ اور حیران کرنے کے ہیں۔ یعنی قرآنی ہدایت کی روشنی جسے یہاں برق سے تعبیر کیا گیا روز بروز پھیل رہی تھی اور اسلام کی شان و شوکت اس تیزی سے بڑھ رہی تھی کہ منافقین کی آنکھیں اسے دیکھ کر خیرہ اور مرعوب ہورہی تھیں مگر وہ تذبذب کی دلدل میں پھنسے ہوئے تھے اور بعض موانع انہیں مخلصانہ ایمان سے روک رہے تھے۔ 45 ۔ اس کا تعلق يَجْعَلُوْنَ اَصَابِعَھُمْ فِىْٓ اٰذَانِهِم اوريَكَادُ الْبَرْقُ يَخْطَفُ اَبْصَارَھُمْ سے ہے عل سبیل اللف والنشر المرتب یعنی انہیں کان اس لیے دئیے کہ وہ ان سے حق بات سنیں مگر وہ حق سننے کی بجائے کانوں میں انگلیاں دے لیتے ہیں اور آنکھیں اس لیے دیں کہ وہ ان سے قرآن ہدایت کی روشنی میں سیدھی راہ دیکھ کر منزل مقصود تک پہنچ سکیں۔ مگر انہوں نے ان سے بھی کام نہ لیا تو اگر اللہ چاہے تو رعد کی کڑک سے ان کی سماعت اور بجلی کی چمک سے ان کی بینائی سلب کرلے۔ 46 ۔ اس کیلئے کوئی کام مشکل نہیں۔ ہر کام یکساں طور پر اس کی قدرت کے تحت داخل ہے۔
Top