Jawahir-ul-Quran - Al-Baqara : 212
زُیِّنَ لِلَّذِیْنَ كَفَرُوا الْحَیٰوةُ الدُّنْیَا وَ یَسْخَرُوْنَ مِنَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا١ۘ وَ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا فَوْقَهُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ١ؕ وَ اللّٰهُ یَرْزُقُ مَنْ یَّشَآءُ بِغَیْرِ حِسَابٍ
زُيِّنَ : آراستہ کی گئی لِلَّذِيْنَ : وہ لوگ جو كَفَرُوا : کفر کیا الْحَيٰوةُ : زندگی الدُّنْيَا : دنیا وَيَسْخَرُوْنَ : اور وہ ہنستے ہیں مِنَ : سے الَّذِيْنَ : جو لوگ اٰمَنُوْا : ایمان لائے وَالَّذِيْنَ : اور جو لوگ اتَّقَوْا : پرہیزگار ہوئے فَوْقَهُمْ : ان سے بالا تر يَوْمَ الْقِيٰمَةِ : قیامت کے دن وَاللّٰهُ : اور اللہ يَرْزُقُ : رزق دیتا ہے مَنْ : جسے يَّشَآءُ : وہ چاہتا ہے بِغَيْرِ حِسَابٍ : بےحساب
فریفتہ کیا ہے کافروں کو دنیا کی زندگی پر اور ہنستے ہیں ایمان والوں کو401 اور جو پرہیزگار ہیں وہ ان کافروں سے بالا تر ہوں گے قیامت کے دن402 اور اللہ روزی دیتا ہے جس کو چاہے بیشمار403
401 یہ مقابل کی علت ہے۔ یعنی جن لوگوں نے خدا کی ہدایت سے منہ موڑا، اس کے انبیاء کی تکذیب کی، اس کی آیات کو جھٹلایا اور اس کی توحید کا انکار کیا انہیں اس پر کس چیز نے آمادہ کیا اور اس کا سبب کیا تھا ؟ فرمایا ان لوگوں کے دلوں میں دنیا کی دولت اور ظاہری شان و شوکت کی محبت بس چکی ہے۔ دین کے مقابلہ میں دنیوی وقار واقتدار، زندگی کی مادی آسائشیں اور ٹھاٹھ باٹھ انہیں بھلی معلوم ہوتی ہے۔ اس لیے انہوں نے ہدایت کو چھوڑ کر گمراہی کو قبول کیا ہے جس سے انہیں تمام دنیوی مقاصد اور مادی خواہشات کے پورا ہوجانے کی قوی امید ہے اور یہی وجہ ہے کہ وہ ایمان والوں کا مذاق اڑاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اسلام قبول کر کے ان لوگوں نے کیا حاصل کیا ہے۔ ان کے پاس دولت ہے، نہ زمینیں، محلات ہیں، نہ باغات۔ کیونکہ ان کوتاہ نظروں اور کج فہموں نے ان چیزوں ہی کو زندگی کا ماحصل سمجھا ہوا ہے۔ 402 واؤ حالیہ ہے حالانکیہ غرباء جو خدا سے ڈرتے ہیں اور اس کے تمام احکام تعمیل کرتے ہیں قیامت کے دن ان کافروں سے بہت بلند درجات میں ہوں گے کیونکہ ایسے ضدی اور معاند کفار ومنافقین کا ٹھکانا جہنم کے نچلے طبقہ میں ہوگا اور یہ خدا سے ڈرنے والے فقراء مؤمنین اعلیٰ علیین میں ہونگے۔ فَوْقَهُمْ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ ۔ ای فی الدرجۃ لانھم فی الجنۃ والکفار فی النار (قرطبی ص 29 ج 3) لان الفقراء فی علیین والکفار والمنافقین فی اسفل السافلین (معالم ص 168 ج 1)403 باقی رہا دنیا میں کثرت رزق اور مال وزر کی فراوانی کا سوال تو یہ چیز خدا کے اختیار میں ہے وہ جسے چاہے بےحساب دولت دیدے کسی مسلمان کو دیدے یا کسی کافر کو اس لیے وہ اپنی حکمت اور مصلحت کے تحت جسے چاہتا ہے دنیا کی دولت سے مالا مال کردیتا ہے۔ دولت کی کمی بیشی سے حق و باطل کا فیصلہ نہیں ہوسکتا۔ اس آیت نے اس شبہ کا ازالہ بھی کردیا جس کے پیدا ہونے کا امکان تھا۔ کہ اگر کافر حق پر نہیں ہیں تو اللہ نے انہیں اتنی دولت کیوں دی ہے تو فرمایا کہ یہ دولت تو چند روزہ ہے اور محض دنیا کی زینت اور رونق ہے آخرت میں تو صرف یہی ایمان اور تقویٰ کام آئے گا۔
Top