Jawahir-ul-Quran - Al-Baqara : 22
الَّذِیْ جَعَلَ لَكُمُ الْاَرْضَ فِرَاشًا وَّ السَّمَآءَ بِنَآءً١۪ وَّ اَنْزَلَ مِنَ السَّمَآءِ مَآءً فَاَخْرَجَ بِهٖ مِنَ الثَّمَرٰتِ رِزْقًا لَّكُمْ١ۚ فَلَا تَجْعَلُوْا لِلّٰهِ اَنْدَادًا وَّ اَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ
الَّذِیْ جَعَلَ : جس نے بنایا لَكُمُ : تمہارے لئے الْاَرْضَ : زمین فِرَاشًا : فرش وَالسَّمَآءَ : اور آسمان بِنَاءً : چھت وَاَنْزَلَ : اور اتارا مِنَ السَّمَآءِ : آسمان سے مَاءً : پانی فَاَخْرَجَ : پھر نکالے بِهٖ : اس کے ذریعے مِنَ : سے الثَّمَرَاتِ : پھل رِزْقًا : رزق لَكُمْ : تمہارے لئے فَلَا تَجْعَلُوْا : سو نہ ٹھہراؤ لِلّٰہِ : اللہ کے لئے اَنْدَادًا : کوئی شریک وَّاَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ : اور تم جانتے ہو
جس نے بنایا واسطے تمہارے زمین کو بچھونا اور آسمان کو چھت اور اتارا آسمان سے پانی پھر نکالے اس سے میوے تمہارے کھانے کے واسطے سو نہ ٹھہراؤ48 کسی کو اللہ کے مقابل اور تم تو جانتے ہو49
48 ۔ یہ مذکورہ دلیل کا نتیجہ ہے۔ مخاطبین اپنا، اپنے آباؤ اجداد کا، باقی تمام انسانوں، جنوں اور فرشتوں کا، زمین و آسمان اور ساری کائنات کا خالق خدا ہی کو مانتے تھے۔ اور تمام تکوینی امور کو خدا ہی کے تصرف واختیار میں سمجھتے تھے اس لیے ان مسلمہ امور کو بطور دلیل پیش کر کے فرمایا کہ جب یہ سب کام اللہ ہی کے ہیں، جب یہ سارے انعامات اسی ہی نے تم کو دئیے ہیں۔ جب تمہارا اور ساری کائنات کا خالق ومالک اور رزاق ومربی وہی ہے اور ان تمام کاموں میں کوئی اس کا شریک نہیں ہے تو پھر صرف اسی ہی کی عبادت کرو اور صرف اسی ہی کو اپنی حاجات ومشکلات میں غائبانہ پکارو اور اس کی عبادت اور پکار میں کسی نوری، ناری یا خاکی کو اس کا شریک مت بناؤ۔ جس نے یہ ساری نعمتیں۔ زندگی، یہ خوبصورت بدن، آنکھیں، کان، ناک، دل، دماغ وغیرہ زمین و آسمان، زمین کے بےبہا خزانے، چاند، سورج اور تارے وغیرہ وغیرہ۔ طلب اور درخواست کے بغیر تمہیں دیدیں۔ کیا وہ طلب اور درخواست پر تمہیں کچھ نہیں دیگا ؟ پھر اس محسن و مربی کو چھوڑ کر اوروں کو کیوں پکارتے ہو۔ 49 ۔ اور تم اچھی طرح جانتے ہو کہ ان تمام امور کا فاعل اور سب کا خالق و رازق صرف اللہ ہے۔ اور تمہارے یہ معبود ان کاموں میں سے کوئی کام نہیں کرسکتے۔ وانتم تعلمون انھا لاتخلق شیئا ولا ترزق واللہ الخالق الرازق (مدارک ص 24 ج 1) ۔ دعوی توحید کو عقلی دلائل سے واضح کرنیکے بعد توحید سے متعلق مشرکین کے دو شبہوں کا جواب دیا ہے۔ ایک شبہ تو یہ تھا کہ یہ دعویٰ خدا کی طرف سے نہیں ہے بلکہ محمد ﷺ اپنے پاس سے باتیں بنا کر اور پھر انہیں خدا کی طرف منسوب کر کے ہمارے سامنے پیش کردیتا ہے جیسا کہ دوسری جگہ اللہ نے ان کے اس شبہ کا ذکر ان لفظوں میں کیا ہے۔ اَمْ یَقُوْلُوْنَ افْتَرٰہُ (یونس ع 4) دوسرا شبہ یہ تھا کہ یہ مسئلہ توحید خدا کی طرف سے نہیں ہے اور نہ ہی یہ کتاب خدا کا کلام ہے کیونکہ اس میں اولیاء اللہ کیلئے مکڑی جیسی گھٹیا چیزوں کی مثالیں بیان کی گئی ہیں جو اولیاء اللہ کے حق میں سخت توہین ہے۔ بھلا یہ کس طرح ہوسکتا ہے کہ اللہ اپنے نیک بندوں کی توہین کرے۔
Top