Jawahir-ul-Quran - Al-Baqara : 21
یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ اعْبُدُوْا رَبَّكُمُ الَّذِیْ خَلَقَكُمْ وَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَۙ
يَا اَيُّهَا النَّاسُ : اے لوگو اعْبُدُوْا : عبادت کرو رَبَّكُمُ : تم اپنے رب کی الَّذِیْ : جس نے خَلَقَكُمْ : تمہیں پیدا کیا وَالَّذِیْنَ : اور وہ لوگ جو مِنْ : سے قَبْلِكُمْ : تم سے پہلے لَعَلَّكُمْ : تا کہ تم تَتَّقُوْنَ : تم پرہیزگار ہوجاؤ
اے لوگوں بندگی کرو اپنے رب47 کی جس نے پیدا کیا تم کو اور ان کو جو تم سے پہلے تھے تاکہ تم پرہیزگار بن جاؤ
یہاں تک تمہید تھی جس میں ہدایت کے اصل سرچشمہ کی نشان دہی کی گئی اور ماننے والوں اور نہ ماننے والوں کے اوصاف اور ان کے انجام کا ذکر تھا۔ اب اگلی آیت سے دعوی توحید پیش کیا جا رہا ہے۔ دعوی توحید 47 ۔ تمہید میں تین جماعتوں یعنی مومنین، کفار اور منافقین کے اوصاف اور ان کی جزا وسزا بیان کرنے کے بعد اب یہاں ان سب کو مخاطب کر کے ان کے سامنے دعوت توحید بیان کی ہے۔ اس سورت میں دعویٰ توحید کو تین بار دہرایا گیا ہے جیسا کہ تفصیلاً پہلے گزر چکا ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ پہلی يٰٓاَيُّهَا النَّاسُ اعْبُدُوْا رَبَّكُمُ (رکوع 3) میں دعوی توحید کا ذکر فرمایا۔ اس کے بعد وَاِلٰھُکُمْ اِلٰہٌ وَّاحِدٌالخ (رکوع 19) میں پہلی بار اس کا اعادہ فرمایا اور پھر اللہ لَا الٰہَ اِلَّا ھُوَ (رکوع 34) میں دوبارہ اعادہ فرمایا تو اس کی وجہ یہ ہے کہ مشرکین تین قسم کا شرک کرتے ہیں (1) شرک فی الدعاء یعنی پکارنے میں شرک (2) نذرونیاز میں شرک (3) شفاعت قہری کے ذریعے یعنی اپنے معبودوں کو خدا کے یہاں شفیع غالب سمجھتے ہیں۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے تین جگہ دعویٰ توحید کو عقلی دلائل سے مدلل فرما کر بالترتیب شرک کی مذکورہ بالا تینوں قسموں کی نفی فرمائی ہے۔ عبادت کے معنی " غایت خضوع " اور " انتہائی عاجزی کے ہیں۔ اس لفظ کا جامع مفہوم علامہ ابن قیم کی زبانی سنئے۔ العبادۃ عن الاعتقاد والشعور بان للمعبود سلطۃ غیبیۃ (ای فی العلم والتصرف) فوق الاسباب یقدر بھا علی النفع والضرر فکل دعاء وثناء وتعظیم ینشا من ھذا الاعتقاد فہی عبارۃ (مدارج السالکین ص 40 ج 1) یعنی یہ اعتقاد اور شعور کہ ہمارے حالات جاننے اور ان میں باختیار خود تصرف کرنے میں ہمارے معبود کا مافوق الاسباب غیبی قبضہ ہے۔ اور اسی اعتقاد کے تحت اپنے معبود کو پکارا جائے، اس کی حمد وثناء کی جائے، رکوع و سجود یا نذرونیاز سے اس کی تعظیم بجا لائی جائے تو یہ سب کچھ عبادت ہے، تو یہ عبادت بجمیع اقسامہ وانواعہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ خاص ہے، اور اس میں اس کا کوئی شریک نہیں۔ یہاں عبادت سے، دعا، اور پکار مراد ہے۔ آنحضرت ﷺ کا ارشاد ہے کہ الدعاء ھو العبادۃ (ابو داوٗد ص 208 ج 1، ترمذی ص 173 ج 2) یعنی دعاء ہی اصل عبادت ہے۔ اور دعویٰ توحید اعبدوا ربکم میں حصر اور تخصیص مراد ہے۔ یعنی صرف اللہ ہی کی عبادت کرو، صرف اسی کو پکارو۔ چناچہ حضرت عبداللہ بن عباس ؓ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں۔ ای افردوا الطاعۃ والعبادۃ لربکم دون سائر خلقہ (ابن جریر ص 123 ج 1) یعنی طاعت اور عبادت صرف اپنے رب ہی کی کرو اور اس کی مخلوق کو اس کی طاعت اور عبادت میں شریک نہ بناؤ۔ عبادت سے وہی دعا اور پکار مراد ہے۔ اور حصر کا دوسرا قینہ وہ نتیجہ ہے جو دعوی توحید کے عقلی دلائل کے بعد مذکور ہے یعنی فَلَا تَجْعَلُوْا لِلّٰهِ اَنْدَادًا۔۔۔۔ اَلَّذِیْ اب یہاں سے دعویٰ مذکور پر عقلی دلائل کی ابتداء ہوتی ہے۔ الموصول صفۃ مادحۃ للرب وفیھا ایضا تعلیل العبادۃ او الربوبیۃ علی ما قیل (روح ص 184 ج 1) یہاں دعوی توحید پر جو عقلی دلیل پیش کی گئی ہے وہ پانچ امور پر مشتمل ہے۔ اول۔ خَلَقَکُم۔ یعنی تمہیں پیدا کیا اور نعمت وجود سے سرفراز فرمایا۔ دوم وَالَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ تمہارے آباء و اجداد، دوسرے تمام انسانوں، فرشتوں اور جنوں کا بھی وہی خالق ہے۔ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ تاکہ تم متقی بن جاؤ۔ کیونکہ توحید کی پابندی ہی سے تقویٰ حاصل ہوسکتا ہے۔ لَعَلَّ شک اور امید کیلئے موضوع ہے مگر جب اللہ کی طرف سے ہو تو یقین کے معنوں میں ہوتا ہے۔ قال سیبویہ لعل وعسی حرفا ترج وھما من اللہ واجب (معالم ص 23 ج 1) ۔ سوم مِنَ الثَّمَرٰتِ رِزْقًا لَّكُمْ بارش کے ذریعے مردہ زمین کو زندہ کر کے اس سے تمہارے لیے روزی پیدا کی۔
Top