Jawahir-ul-Quran - Al-Baqara : 96
وَ لَتَجِدَنَّهُمْ اَحْرَصَ النَّاسِ عَلٰى حَیٰوةٍ١ۛۚ وَ مِنَ الَّذِیْنَ اَشْرَكُوْا١ۛۚ یَوَدُّ اَحَدُهُمْ لَوْ یُعَمَّرُ اَلْفَ سَنَةٍ١ۚ وَ مَا هُوَ بِمُزَحْزِحِهٖ مِنَ الْعَذَابِ اَنْ یُّعَمَّرَ١ؕ وَ اللّٰهُ بَصِیْرٌۢ بِمَا یَعْمَلُوْنَ۠   ۧ
وَلَتَجِدَنَّهُمْ : اور البتہ تم پاؤگے انہیں اَحْرَصَ : زیادہ حریص النَّاسِ : لوگ عَلٰى حَيَاةٍ : زندگی پر وَمِنَ : اور سے الَّذِیْنَ : جن لوگوں نے اَشْرَكُوْا : شرک کیا يَوَدُّ : چاہتا ہے اَحَدُهُمْ : ان کا ہر ایک لَوْ : کاش يُعَمَّرُ : وہ عمر پائے اَلْفَ سَنَةٍ : ہزار سال وَمَا : اور نہیں هُوْ : وہ بِمُزَحْزِحِهٖ : اسے دور کرنے والا مِنَ : سے الْعَذَابِ : عذاب اَنْ : کہ يُعَمَّرَ : وہ عمر دیا جائے وَاللہُ : اور اللہ بَصِیْرٌ : دیکھنے والا بِمَا : جو وہ يَعْمَلُوْنَ : کرتے ہیں
اور تو دیکھے گا ان کو سب لوگوں سے زیادہ حریص زندگی پر186 اور زیادہ حریص مشرکوں سے بھی187 چاہتا ہے ایک ایک ان میں کا کہ عمر پاوے ہزار برس اور نہیں اس کو بچانے والا عذاب سے اس قدر جینا اور اللہ دیکھتا ہے جو کچھ وہ کرتے ہیں
186 تجد میں خطاب آنحضرت ﷺ سے ہے اور ھم کی ضمیر ان یہودیوں کی طرف ہے جن کا پہلے ذکر ہورہا ہے یعنی اے پیغمبر ﷺ یہ موت کی تمنا کبھی نہیں کرینگے۔ کیونکہ یہ لوگ زندگی پر بڑے حریص ہیں اور تمام لوگوں سے بڑھ کر انہیں زندگی پیاری ہے کیونکہ انہیں اپنی بد اعمالیوں کی وجہ سے اپنا بد انجام معلوم ہے یا ان کی حرص کی وجہ یہ تھی کہ عوام الناس پر ان کے تقدس واقتدار کا سکہ بیٹھا ہوا تھا اور نذرونیاز کی بےحساب آمدنی کا سلسلہ جاری تھا۔ اس مفت کے عیش و عشرت کی وجہ سے وہ چاہتے تھے کہ ہمیشہ زندہ رہیں۔ 187 من حیث المعنی اس کا عطف الناس پر ہے یعنی یہ یہودی تو مشرکوں سے بھی بڑھ کر زندگی پر حریص ہیں کیونکہ مشرکوں کو آخرت میں عذاب کا کوئی ڈر نہیں تھا اس لیے کہ وہ آخرت کے قائل ہی نہیں تھے اور نہ ہی یہودیوں کے مولویوں اور پیروں کی طرح انہیں نذورنیاز کی آمدنیاں وصول ہوتی تھیں۔ يَوَدُّ اَحَدُھُمْ لَوْ يُعَمَّرُ اَلْفَ سَـنَةٍ ۔ ھم کی ضمیر بھی ان یہودیوں کی طرف راجع ہے یہ ان کی حرص کی زیادتی کا مزید بیان ہے۔ یعنی ان میں سے ہر ایک کی یہ آرزو ہے کہ اسے ایک ہزار سال زندگی ملے ۚ وَمَا ھُوَ بِمُزَحْزِحِهٖ ۔ ما نافیہ ہے ھُوَ اس کا اسم اور بمزحزحہ اس کی خبر ہے اور ان یعمر مبتدا کا بیان ہے یعنی طویل عمر کا دیا جانا عذاب سے نہیں بچا ستاْ ۔ کیونکہ ہزار سال کے بعد آخر موت ہے۔ وَاللّٰهُ بَصِيْرٌۢ بِمَا يَعْمَلُوْنَ ۔ اللہ تعالیٰ ان کی ہر حرکت کو دیکھ رہا ہے اور ان کے تمام ظاہر و باطن اعمال سے باخبر ہے اس لیے لامحالہ انہیں ان کے اعمال کی سزا دے گا۔ یہودیوں کے شبہات کا ازالہ افہام و تفہیم کے دوران مخاطب کے ذہن میں بعض شبہات کا پیدا ہونا ناگزیر ہے جبتک ان شبہات کا ازالہ نہ کیا جائے اس وقت تک مخاطب کو اطمینان قلب حاصل نہیں ہوسکتا۔ گذشتہ سات رکوعات میں یہودیوں کو سمجھانے اور ان کو راہ راست پر لانے کے لیے افہام و تفہیم کے تمام ممکنہ ذرائع اختیار کیے گئے ہیں۔ اب آخر میں ان کے تین شبہات کا جواب دیا جارہا ہے۔ پہلا شبہ :۔ یہودیوں کو جب معلوم ہوا کہ آنحضرت ﷺ پر وحی لانے والے حضرت جبریل علیہ الساللم تو کہنے لگے کہ جبریل فرشتہ تو ہمیشہ عذاب ہلاکت اور کخط سالی کا پیغام لایا کرتا ہے۔ نیز جب بخت نصر نے بیت المقدس پر حملہ کیا تھا اس کو تہس نہس اور بیت المقدس کو برباد کردیا۔ اسی طرح یہ جبریل ہمارے اندرونی راز اور پوشیدہ بھید محمد ﷺ کو بتاتا ہے اس لیے یہ فرشتہ ہمارا دشمن ہے (بحر ص 319 ج 1، روح ص 331 ج 1) چونکہ توحید کا پیغام یہ فرشتہ لایا ہے ہم اسے ماننے کے لیے ہرگز تیار نہیں ہیں۔ ہاں اگر يٰٓاَيُّهَا النَّاسُ اعْبُدُوْا رَبَّكُمُ کا پیغام، يٰبَنِىْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ اذْكُرُوْانِعْمَتِیْ ، وَلَا تَشْتَرُوْا بِاٰيٰتِىْ ثَـمَنًا قَلِيْلًا اوروَلَا تَلْبِسُوا الْحَقَّ بِالْبَاطِلِ ۔ اور دیگر احکام میکائیل فرشتہ نے لائے ہوتے تو ہم انہیں بخوشی قبول کرلیتے۔ یہ اگرچہ حقیقت میں محض ضد پر مبنی اور نہ ماننے کا ایک لنگڑا بہانہ تھا لیکن ناصح حکیم جل مجدہ نے اس کا بھی نہایت اور معقول جواب دیا ہے۔۔ دوسرا شبہ :۔ جب اللہ تعالیٰ نے یہود سے بار بار فرمایا کہ محمد ﷺ اور اس پر نازل کی گئی کتاب کوئی نیا مسئلہ نہیں پیش کر رہے بلکہ یہ وہی پیغام توحید پیش کر رہے ہیں جو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے تورات کے ذریعے پیش فرمایا اور ان کے بعد آنے والے ہزاروں انبیائے کرام (علیہم السلام) اس کی تبلیغ و اشاعت کرتے رہے ہیں تو اس پر یہودیوں کے علما نے کہا کہ ہم یہ نہیں مانتے کہ محمد ﷺ اور قرآن نے جو نظریہ پیش کیا ہے بعینہ تورات کا اور ہمارے پیغمبروں کا بھی یہی نظریہ تھا کیونکہ ہمارے اور اوراد وظائف اور تورات میں تو غیر اللہ کو پکارنے کی اجازت موجود ہے اور اس کی دلیل یہ ہے کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) (عیاذاً باللہ) غیر اللہ کو پکارا کرتے تھے اور اسی وجہ سے جن وانس پر ان کی حکومت قائم تھی۔ اگر تورات میں اس کی اجازت نہ ہوتی تو وہ ہرگز ایسا نہ کرتے اور عوام کو گمراہ کرنیکے لیے جادو کی پوتھیاں ان کو دکھاتے جو شیطانوں نے گھڑ کر حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے ذمہ لگادی تھیں (کبیر ص 636 ج 1) یہودی یہ پوتھیاں لوگوں کو دکھاتے اور کہتے دیکھو، یہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی خاص یادداشتیں ہیں اور ان میں غیر اللہ کو پکارنا لکھا ہے۔ تیسرا شبہ :۔ تیسرا شبہ ان کا یہ تھا کہ اگر غیر اللہ کو پکارنا ناجائز ہوتا تو اللہ تعالیٰ دو مقرب فرشتوں ہاروت اور ماروت کو جادو سکھانے کے لیے کیوں دنیا میں بھیجتا ؟ حالانکہ جادو میں غیر اللہ ہی کو پکارا جاتا ہے۔ اور ارواح خبیثہ سے استمداد واستعانت کی جاتی ہے (اس کی مذید تحقیق آگے آرہی ہے) تو اس سے معلوم ہوا کہ غیر اللہ کو پکارنا اور غیر اللہ سے استعانت کرنا جائز ہے۔ اب ترتیب وار تینوں شبہات کے جوابات دئیے جاتے ہیں۔ پہلے شبہ کا جواب :۔
Top