Anwar-ul-Bayan - Al-An'aam : 109
وَ اَقْسَمُوْا بِاللّٰهِ جَهْدَ اَیْمَانِهِمْ لَئِنْ جَآءَتْهُمْ اٰیَةٌ لَّیُؤْمِنُنَّ بِهَا١ؕ قُلْ اِنَّمَا الْاٰیٰتُ عِنْدَ اللّٰهِ وَ مَا یُشْعِرُكُمْ١ۙ اَنَّهَاۤ اِذَا جَآءَتْ لَا یُؤْمِنُوْنَ
وَاَقْسَمُوْا : اور وہ قسم کھاتے تھے بِاللّٰهِ : اللہ کی جَهْدَ اَيْمَانِهِمْ : تاکید سے لَئِنْ : البتہ اگر جَآءَتْهُمْ : ان کے پاس آئے اٰيَةٌ : کوئی نشانی لَّيُؤْمِنُنَّ : تو ضرور ایمان لائیں گے بِهَا : اس پر قُلْ : آپ کہہ دیں اِنَّمَا : کہ الْاٰيٰتُ : نشانیاں عِنْدَ اللّٰهِ : اللہ کے پاس وَمَا : اور کیا يُشْعِرُكُمْ : خبر نہیں اَنَّهَآ : کہ وہ اِذَا جَآءَتْ : جب آئیں لَا يُؤْمِنُوْنَ : ایمان نہ لائیں گے
اور یہ لوگ خدا کی سخت سخت قسمیں کھاتے ہیں کہ اگر ان کے پاس کوئی نشانی آئے تو وہ اس پر ضرور ایمان لے آئیں کہہ دو کہ نشانیاں تو سب خدا ہی کے پاس ہیں۔ اور (مومنو ! ) تمہیں کیا معلوم ہے (یہ تو ایسے بدبخت ہیں کہ انکے پاس) نشانیاں آبھی جائیں تب بھی ایمان نہ لائیں
(6:109) جھد۔ تاکید۔ پوری کوشش، مشقت۔ جھد یجھد کا مصدر ہے۔ اقسموا باللہ جھد ایمانھم۔ وہ پوری کوشش سے اللہ کی قسمیں کھاتے ہیں۔ ایۃ۔ نشانی۔ یہاں نشانی سے مشرکین کی مراد کوئی خاص نشانی ہے جیسے عصا موسیٰ (علیہ السلام) حضرت عیسیٰ کا مردوں کو اللہ کے حکم سے زندہ کرنا۔ کوڑھیوں کو تندرست کرنا وغیرہ۔ محمد بن کعب القرضی اور الکلبی نے کہا ہے کہ مشرکین نے بطور خاص نشانی کے یہ مطالبہ کیا تھا کہ کوہ صفا سونا ہوجائے۔ ہمارے کچھ مرے ہوئے لوگ زندہ ہوجائیں کہ آپ کی تصدیق کریں مابعد الممات کے متعلق اور ہمیں فرشتے دکھائیے کہ ہم ان سے آپ کی صداقت کے متعلق دریافت کریں۔ انما الایات عند اللہ۔ کہ نشانیاں تو صرف اللہ ہی کے پاس ہیں۔ یہ مشیت ایزدی ہے کہ ان کو ظاہر کرے یا نہ کرے۔ یا کب اور کن حالات میں کرے۔ ما یشعرکم۔ میں مخاطبین اہل ایمان ہیں۔ (گو بعض کے نزدیک یہاں خطاب مشرکین سے ہے) تمہیں کیا خبر۔ تمہیں کیسے سمجھایا جائے۔ یشعر۔ مضارع واحد مذکر غائب۔ اشعار (افتعال) سے ۔ آگاہ کرے۔ واقف بنائے ۔ سمجھائے۔ نقلب۔ مضارع جمع متکلم۔ تقلیب (تفعیل) مصدر۔ ہم (حق کی طرف) پھیر دیتے ہیں۔ موڑ دیتے ہیں۔ کما۔ جیسے ۔ جیسا کہ ۔ جس طرح ۔ کما تعلیل کے لئے بھی آتا ہے۔ جیسا کہ بعض کے نزدیک اس کا استعمال ان آیات میں آیا ہے۔ (1) کما ارسلنا فیکم رسولا منکم (2:151) فاذکرونی ۔۔ (2:152) چونکہ میں نے پیغمبر بھیج دیا تمہیں میں سے ۔۔ اس لئے میری یاد کرو۔ یہاں ارسال رسل ذکر الٰہی کی علت ہے۔ (2) واذکروہ کما ھدکم (2:198) چونکہ اللہ نے تمہیں ہدایت کردی اور ذکر کا طریقہ بتادیا۔ اس لئے اس کی یاد کرو۔ یہاں ہدایت ذکر کی علت ہے۔ (3) ونقلب افئدتھم وابصارھم کما لم یؤمنوا بہ اول مرۃ۔ (آیۃ ہذا) کیونکہ وہ پہلی مرتبہ اس کے ساتھ ایمان نہیں لائے تھے ہم ان کے دلوں اور نظروں کو پھیر دیں گے۔ یہاں ان کے پہلی مرتبہ کے معجزوں (آیات) پر ایمان نہ لانا علت بن گیا ان کے تقلیب قلوب و ابصار کا۔ الکشاف اور ابن کثیر نے اس آیۃ میں کاف کو تعلیل کے معنوں میں لیا ہے۔ المنجد میں سے کہ کاف کبھی تعلیل کے لئے استعمال ہوتا ہے جیسے اذکروا اللہ کما ھدکم (2:198) اللہ کو یاد کرو کیونکہ اس نے تمہیں ہدایت دی۔ لغات القرآن میں ہے کہ :۔ کاف کو تعلیل کے لئے اخفش اور بعض کو فیوں نے قرار دیا ہے اور اکثر اہل عربیت نے انکار کیا ہے۔ اول مرۃ۔ پہلی مرتبہ۔ اس سے مراد یا تو رسول کریم ﷺ کے سابقہ معجزات ہیں مثلاً شق القمر وغیرہ۔ یا سابقہ انبیاء کے معجزات مثلاً عصاء موسیٰ (علیہ السلام) اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا کو ڑھوں تندرست کرنا۔ مردوں کو زندہ کرنا۔ نذرھم۔ مضارع جمع متکلم۔ ھم ضمیر مفعول جمع مذکر غائب۔ وذر مصدر (باب سمع) ہم ناقابل پر واہ سمجھ کر چھوڑ دیتے ہیں۔ اس کا ماضی مستعمل نہیں۔ صرف مضارع اور امر مستعمل ہے۔ طغیانھم۔ ان کی گمراہی۔ ان کی سرکشی ۔ ان کی شرارت۔ ان کی بےراہی۔ یعمھون ۔ مضارع جمع مذکر غائب عمہ مصدر ۔ (باب فتح، سمع) وہ سرگرداں پھرتے ہیں۔ وہ بھٹکے پھرتے ہیں۔ وہ حیران و پریشان پھرتے ہیں۔ عمہ۔ سرگردانی۔ حیرانی۔ گمراہی۔ تردد۔ لیؤمنن بھا۔ میں کفار کے قول کی نقل ہے۔ انما الایات عند اللہ میں ان کا جواب (حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی زبان سے ہے) اور وما یشعرکم سے لے کر آخر آیۃ 111 تک پارہ 8) مسلمانوں سے خطاب (منجانب اللہ) ہے۔ قل انما الایات عند اللہ سے یعمھون تک عبارت کچھ یوں ہوگی۔ قل انما الایات عند اللہ وما ئشعرکم انھا اذا ھاءت لایؤمنون کما لم یؤمنوا بہ اول مرۃ (بذلک)
Top