Kashf-ur-Rahman - Al-Baqara : 98
مَنْ كَانَ عَدُوًّا لِّلّٰهِ وَ مَلٰٓئِكَتِهٖ وَ رُسُلِهٖ وَ جِبْرِیْلَ وَ مِیْكٰىلَ فَاِنَّ اللّٰهَ عَدُوٌّ لِّلْكٰفِرِیْنَ
مَنْ ۔ کَانَ : جو۔ ہو عَدُوًّا لِلّٰهِ : دشمن وَمَلَآئِکَتِهٖ ۔ وَرُسُلِهٖ : اور اس کے فرشتے۔ اور اس کے رسول وَجِبْرِیْلَ : اور جبرئیل وَمِیْکَالَ : اور میکائیل فَاِنَّ اللہ : تو بیشک اللہ عَدُوٌّ : دشمن لِلْکَافِرِينَ : کافروں کا
اور جو شخص دشمن ہو اللہ کا اور اس کے فرشتوں کا اور اس کے رسولوں کا اور جبرئیل (علیہ السلام) اور میکائیل (علیہ السلام) کا تو بیشک اللہ دشمن ہے ایسے کافروں کا1
1 اے پیغمبر آپ فرما دیجیے جو شخص بلا وجہ جبرئیل علیہ سے عداوت و دشمنی کرے تو کرے اس دشمنی کی کوئی وجہ تو ہے نہیں جبرئیل کا کام تو یہ ہے کہ اس نے یہ قرآن اے محمد ﷺ آپ کے قلب پر اللہ تعالیٰ کے حکم سے نازل کیا ہے، اس قرآن کی شان تو یہ ہے کہ یہ ان کتب سماویہ کی تصدیق کرنیوالا ہے جو اس سے پہلے نازل ہوئیں ہیں اور یہ قرآن دین حق کی رہنمائی کرنے والا ہے اور ایمان والوں کو بشارت و خوشخبری سنانے والا ہے۔ اب کوئی شخص خواہ اللہ تعالیٰ کا دشمن ہو خواہ اس کے فرشتوں اور اس کے رسولوں کا دشمن ہو خواہ خصوصیت کے ساتھ حضرت جبرئیل اور میکائیل کا دشمن ہو ان سب کی دشمنی ایک حیثیت رکھتی ہے اور اس دشمن کی سزا یہ ہے کہ ایسے کافروں کا اللہ تعالیٰ دشمن ہے۔ (تیسیر) یہود سے کسی موقع پر گفتگو ہو رہی تھی دوران گفتگو میں جہاں اور باتیں ہو رہی تھیں ان میں اس کا بھی ذکر آگیا کہ یہ قرآن کونسا فرشتہ لیکر آتا ہے نبی کریم ﷺ نے فرمایا خدا کا فرشتہ لے کر آتا ہے جس کا نام جبرئیل ہے اس پر یہودی بگڑ کر بولے وہ جبرئیل (علیہ السلام) تو ہمارا دشمن ہے اس لئے کہ وہ وقتاً فوقتاً ہم پر سخت احکام لاتا رہا ہے نیز ہم کو تباہ و برباد کرتا رہا ہے اگر یہ قرآن وہ لاتا ہے تو ہم اس پر ایمان نہیں لاسکتے پہلی آیت میں اس اعتراض کا جواب ہے کہ جبرئیل (علیہ السلام) تو ایک درمیانی فرشتہ ہے وہ تو صرف قرآن کو پیغمبر تک پہنچا دیتا ہے پیغامبر میں تو دو باتیں ہونی ضروری ہیں ایک یہ کہ فرمانبردار ہو اور جو حکم اس کو دیا جائے وہ اس کی تعمیل کرے۔ دوسرے وہ امانت دار ہو کہ پیغام میں کچھ کمی بیشی نہ کرے سو یہ دونوں باتیں جبرئیل میں بوجہ اتم موجود ہیں وہ فرشتہ ہے اور فرشتے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی نہیں کیا کرتے پھر اس کی امانت داری پر ہم خود اس کے شاہد ہیں، نیز یہ کونسی معقول بات ہے کہ ایک قاصد اور پیغامبر کی دشمنی کے باعث پیغام خداوندی کو ماننے سے انکار کردیا جائے۔ قرآن کو دوسری آسمانی کتابوں کے معیار پر جانچ کر دیکھو۔ جبرئیل کی ذات سے کیوں بحث کرتے ہو۔ اگر اس قرآن میں پہلی کتابوں کی تصدیق موجود ہے اور بنی نوع انسان کی ہدایت و رہنمائی کا سامان اس میں بدرجہ اتم موجود ہے اور ایمان لانے والوں کے لئے بشارت اور خوشخبری سے لبریز ہے تو یہی وہ باتیں ہیں جو عام طور سے تمام کتاب سماویہ میں پائی جاتی ہیں۔ پھر اس پر ایمان لانے سے انکار کرنا حماقت و جہالت نہیں تو اور کیا ہے۔ دوسری آیت میں ایک ضابطہ اور اصول بیان فرمایا کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے اور اس کے رسول اور جبرئیل (علیہ السلام) ان سب کی محبت اور عداوت ایک ہی حکم رکھتی ہے۔ کیونکہ مامور کی مخالفت آمر کی مخالفت سمجھی جاتی ہے۔ جبرئیل (علیہ السلام) کے ساتھ میکائیل (علیہ السلام) کا نام اس لئے لیا کہ شاید انہوں نے اپنی گفتگو میں یہ بھی کہا تھا کہ بجرئیل (علیہ السلام) کے علاوہ اگر میکائیل (علیہ السلام) یا کوئی اور فرشتہ اس قرآن کو لاتا تو اس کے مان لینے میں کچھ مضائقہ نہ تھا۔ جیسا کہ بعض روایت سے معلوم ہوتا ہے حضرت شاہ صاحب فرماتے ہیں۔ یہود نے کہا کہ یہ کلام لاتا ہے جبرئیل (علیہ السلام) اور وہ ہمارا دشمن ہے کئی بار ہمارے دشمنوں کو ہم پر غالب کر گیا کوئی اور فرشتہ لاتا تو ہم مانتے اس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ فرشتے جو کرتے ہیں بےحکم نہیں کرتے جو ان کا دشمن ہو اللہ بیشک ان کا دشمن ہے۔ (موضح القرآن) آگے کی آیتوں میں ان کے کفر کی علت اور ان کی عہد شکنی کا بیان ہے۔ (تسہیل)
Top