Kashf-ur-Rahman - Aal-i-Imraan : 100
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِنْ تُطِیْعُوْا فَرِیْقًا مِّنَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ یَرُدُّوْكُمْ بَعْدَ اِیْمَانِكُمْ كٰفِرِیْنَ
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ : وہ جو کہ اٰمَنُوْٓا : ایمان لائے اِنْ : اگر تُطِيْعُوْا : تم کہا مانو گے فَرِيْقًا : ایک گروہ مِّنَ : سے الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو اُوْتُوا الْكِتٰبَ : دی گئی کتاب يَرُدُّوْكُمْ : وہ پھیر دینگے تمہیں بَعْدَ : بعد اِيْمَانِكُمْ : تمہارے ایمان كٰفِرِيْنَ : حالت کفر
اے ایمان والو اگر تم اہل کتاب میں سے کسی گروہ کا کہنا مانو گے تو وہ لوگ تم کو تمہاری ایمان لانے کے بعد پھر کافر بنادیں گے ۔3
3 اے ایمان والو اگر تم نے ان لوگوں میں سے کسی فرقہ کی بات مانی جن کو کتاب دی گئی ہے یعنی اہل کتاب میں سے کسی فریق کا کہنا مانا تو وہ لوگ تم کو تمہارے ایمان لانے کے پیچھے پھر کافر بنادیں گے اور کفر پر تم کو لوٹا دیں گے۔ (تیسیر) حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ نے اہل کتاب کے شبہوں کا جواب دے کہ مسلمانوں کو فرمایا کہ ان کی بات مت سنو یہی علاج ہے نہیں تو شبہے سنتے سنتے اپنی راہ سے نکل جائو گے اب بھی ہر مسلمان کو چاہئے کہ شبہے والوں کی بات نہ سنے اس میں دین کی تل امتی ہے اور جھگڑنے سے شبہے بڑھتے ہیں۔ (موضح القرآن) مطلب یہ ہے کہ کوئی پارٹی ہو خواہ شماس ابن قیس کا گروہ ہو یا کوئی اور فریق ہو تمہاری دشمنی میں سب برابر ہیں اگر کسی فریق کا کہنا مانو گے تو وہ تم کو تمہارے مسلمان ہونے کے بعد پھر کافر بنادیں گے۔ یہ کفر اعتقاداً ہو یا عملاً ہو۔ یعنی اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول سے بدگمان ہو جائو اور اعتقاداً کافر بن جائو یا کسی اور کفر کے کام میں مبتلا ہو جائو جیسے ابھی باہم قتل و قتال پر آمادہ ہوگئے تھے اور زمانہ جاہلیت کا مرض عود کر آیا تھا وہ تو ہمارے رسول ﷺ کی بروقت توجہ سے معاملہ ٹل گیا ورنہ ابھی آپس میں کشت و خون کا بازار گرم ہوگیا تھا۔ صحابہ ؓ کا یہ فرمانا بالکل صحیح ہے کہ ہم نے کوئی دن ایسا نہیں دیکھا جس کا ابتدائی حصہ انتہائی خطرناک اور قبیح ہو اور اس کا آخری حصہ نہایت بہتر اور عمدہ ہو۔ یعنی صبح کو مسلمان شماس بن قیس کے دائو میں آگئے اور باہم جنگ کے لئے آمادہ ہوگئے اور شام کو نبی کریم ﷺ کے سمجھانے سے انہوں نے اپنی غلطی کا اعتراف کرلیا اور آپس میں گلے مل گئے اور سب بھائی بھائی ہوگئے۔ بہرحال قرآن کریم نے اس موقع پر ایک ضابطہ مقرر کردیا اور بتادیا کہ اہل کتاب کی باتوں میں نہ آئو اور کسی فریق کا کہنا نہ مانو ورنہ یہ لوگ پھر تم کو کفر کی طرف پھیر دیں گے۔ ہم نے شان نزول کی رعایت سے کفر میں تعمیم کردی تاکہ کفر اعتقادی اور کفر عملی دونوں کو ہماری تفسیر شامل ہوجائے۔ یہ ضابطہ جو اس آیت میں بیان کیا گیا ہے ہر موقعہ کے لئے مفید اور مشعل راہ ہے۔ مسلمانوں کو ہمیشہ اہل باطل اور اہل شکوک و شبہات کی باتوں سے الگ رہنا چاہئے۔ جیسا کہ حضرت شاہ صاحب (رح) نے فرمایا ہے سلامتی اور عافیت اسی میں سے ورنہ طبعاً جب انسان بار بار ایک بات کو سنتا ہے تو اس سے متاثر ہوجاتا ہے۔ آگے مسلمانوں کو تسلی اور ان پر اطمینان کا اظہار ہے۔ (تسہیل)
Top