Kashf-ur-Rahman - Aal-i-Imraan : 122
اِذْ هَمَّتْ طَّآئِفَتٰنِ مِنْكُمْ اَنْ تَفْشَلَا١ۙ وَ اللّٰهُ وَلِیُّهُمَا١ؕ وَ عَلَى اللّٰهِ فَلْیَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُوْنَ
اِذْ : جب ھَمَّتْ : ارادہ کیا طَّآئِفَتٰنِ : دو گروہ مِنْكُمْ : تم سے اَنْ : کہ تَفْشَلَا : ہمت ہاردیں وَاللّٰهُ : اور اللہ وَلِيُّهُمَا : ان کا مددگار وَ : اور عَلَي اللّٰهِ : اللہ پر فَلْيَتَوَكَّلِ : چاہیے بھروسہ کریں الْمُؤْمِنُوْنَ : مومن
اس وقت تم میں سے دو قبیلے بزدلی دکھانے کا قصد کر رہے تھے حالانکہ اللہ تعالیٰ ان کا مددگار تھا اور مئومنوں کو اللہ ہی پر بھروسہ کرنا چاہئے ۔2
2 اور اے نبی ! آپ اس واقعہ کو یاد کیجئے جب آپ صبح ہی صبح اپنے اہل خانہ سے باہر نکلے تھے اور مسلمانوں کو کفار سے مقابلہ کرنے کی غرض سے مختلف مقامات پر بٹھا رہے تھے اور مختلف ٹھکانوں پر ان کو جمانے اور بٹھانے کے لئے آمادہ کر رہے تھے اور اللہ تعالیٰ اس وقت کی تمام باتیں سنتا اور تمام حالات کو جانتا تھا اور اس وقت یہ قصہ بھی پیش آیا تھا کہ تم میں سے مسلمانوں کی دو جماعتیں یعنی بنو سلمہ اور بنو حارثہ بزدلی دکھانے اور ہمت ہارنے پر آمادہ ہوگئے تھے اور ان کے دل میں بزدلانہ خیالات پیدا ہو چلے تھے اور وہ عبد اللہ بن ابی کی طرح اپنے گھروں کو لوٹ جانے کا قصہ کر رہے تھے اور اللہ تعالیٰ نے ان دو قبیلوں کا مددگار اور سازگار تھا اور مسلمانوں کو چاہئے کہ اللہ تعالیٰ ہی پر بھروسہ رکھا کریں اور اسی پر اعتماد کیا کریں۔ (تیسیر) فسل۔ ضعف اور جین کو کہتے ہیں یعنی کمزوری اور بزدلی اہل سے مراد حضرت عائشہ ہیں یعنی حضرت عائشہ کے مکان سے علی الصباح نکلے تھے اور لشکر کے ہمراہ تشریف لے گئے تھے۔ ھمت کا مطلب یہ ہے کہ عبد اللہ بن ابی کی دیکھا دیکھی ان کو بھی یہ خیال ہوا کہ ہم بھی چلے جائیں اور اپنے گھر جا بیٹھیں لیکن یہ خیال چونکہ محض ہم کے درجہ میں تھا اس لئے اس کا وقوع نہیں ہوا پھر یہ کہ اللہ تعالیٰ کی سرپرستی اس کی مدد اور اس کی حفاظت شامل حال تھی اس لئے یہ لوگ فرار سے محفوظ رہے۔ ولیھما کا ترجمہ بعض حضرات نے عاصمھما کیا ہے بہرحال جس کو خدا تعالیٰ کی حمایت اور نصرت حاصل ہو وہ کس طرح گناہ کا مرتکب ہوسکتا تھا۔ حضرت جابر بن عبد اللہ فرمایا کرتے تھے کہ یہ آیت ہمارے بارے میں نازل ہوئی ہے اور یہ آیت ہمارے لئے بڑی مسرت کا موجب ہے کہ اس میں اللہ تعالیٰ کی ولایت اور اس کے ولی ہونے کی خوشخبری ہے اور یہ بھی صحابہ ؓ پر اللہ تعالیٰ کی عنایت ہے کہ ان پر جو تعریض فرمائی وہ بشارت آمیز فرمائی اور یہ جو طائفتان میں منکم کی قید لگائی اس کا مفاد یہ ہے کہ دو قبیلے جنہوں نے ایسا ارادہ کیا تھا یہ تم ہی میں سے تھے تاکہ یہ معلوم ہوجائے کہ عبد اللہ بن ابی اور اس کی پارٹی تم میں سے یعنی مسلمانوں میں سے نہیں ہے۔ خلاصہ یہ کہ گو ان دو قبیلوں نے ایسا خیال کیا تھا مگر اللہ ان کا ولی تھا بھلا کب ان کو ایسا کرنے دیتا چناچہ اس نے ان کی ہمت بندھوا دی اور آئندہ کے لئے بھی ہم تم کو اور سب مسلمانوں کو حکم دیتے ہیں کہ فقط اللہ تعالیٰ ہی پر بھروسہ رکھا کریں اور اس قسم کے امتحانات اور ابتلا کے مواقع سے نہ گھبرایا کریں۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں جب حضرت مکہ سے مدینہ آئے اس کے ڈیڑھ برس کے بعد جنگ بدر ہوئی مکہ کے لوگوں سے اللہ تعالیٰ نے فتح دی مسلمانوں کو ستر آدمی کافر مارے گئے اور ستر اسیر آئے اگلے سال کافر جمع ہو کر مدینہ پر چڑھ آئے۔ حضرت نے مسلمانوں سے مشورت کی اکثر کہنے لگے ہم شہر میں لڑیں گے اور حضرت کی مرضی بھی یہی تھی اور بعض کہنے لگے کہ یہ عار ہے بلکہ میدان میں مقابل ہونگے آخری مشورت قبول ہوئی۔ جب حضرت شہر سے باہر نکلے عبد اللہ بن ابی کافر تھا مدینہ کا ساکن وہ بھی شریک جنگ تھا ناخوش ہو کر پھر گیا کہ ہمارے قول پر عمل نہ کیا اور اس کے بہکانے سے دو قبیلے انصار کے بھی پھر چلے آخر ان کے سردار عوام کو سمجھا کرلے آئے اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو تقویت دیتا ہے کہ اللہ پر توکل چاہئے اطاعت حکم میں اندیشہ نہ کرے۔ (موضح القرآن) پھر چلے کا مقصد یہ ہے کہ انہوں نے بھی قصد کیا اور سردار عوام کو سمجھا کرلے آئے اس کا مطلب یہ ہے کہ سرداروں کے سمجھانے سے انہوں نے اپنا ارادہ ترک کردیا۔ اب آگے جنگ بدر میں جو نصرت اللہ تعالیٰ کی جانب سے مسلمانوں کو حاصل ہوئی تھی اور جس کی بڑی وجہ مسلمانوں کا استقلال اور تقویٰ کی پابندی تھی اس کا بیان فرماتے ہیں۔ (تسہیل)
Top