Tafseer-e-Mazhari - Aal-i-Imraan : 122
اِذْ هَمَّتْ طَّآئِفَتٰنِ مِنْكُمْ اَنْ تَفْشَلَا١ۙ وَ اللّٰهُ وَلِیُّهُمَا١ؕ وَ عَلَى اللّٰهِ فَلْیَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُوْنَ
اِذْ : جب ھَمَّتْ : ارادہ کیا طَّآئِفَتٰنِ : دو گروہ مِنْكُمْ : تم سے اَنْ : کہ تَفْشَلَا : ہمت ہاردیں وَاللّٰهُ : اور اللہ وَلِيُّهُمَا : ان کا مددگار وَ : اور عَلَي اللّٰهِ : اللہ پر فَلْيَتَوَكَّلِ : چاہیے بھروسہ کریں الْمُؤْمِنُوْنَ : مومن
اس وقت تم میں سے دو جماعتوں نے جی چھوڑ دینا چاہا مگر خدا ان کا مددگار تھا اور مومنوں کو خدا ہی پر بھروسہ رکھنا چاہیئے
اذ ھمت طائفتن اس وقت کو یاد کرو جب دو گروہوں یعنی بنی حارثہ اور بنی اسلمہ نے ارادہ کرلیا تھا۔ منکم تم میں سے۔ اس میں عبد اللہ 1 ؂ پر طنز ہے کہ وہ اور اس کے ساتھی تم میں سے نہیں تھے اسی لیے ان کی واپسی کا ذکر نہیں کیا۔ ان تفشلا کہ بزدل اور کمز ور ہوجائیں۔ وا اللہ ولیھما اور اللہ دونوں گروہوں کا دوست تھا یا اس خطرہ سے بچا نے والا یا ان کا مددگار اور کار ساز تھا پس کیا سبب تھا کہ وہ بزدل ہور ہے تھے اور اللہ پر اعتماد نہیں کر رہے تھے۔ و علی اللہ فلیتوکل المومنون اور اللہ ہی پر اہل ایمان کو بھروسہ رکھنا چاہئے پس منافقوں کے بھاگنے سے ان کو بزدل نہ ہونا چاہئے تھا۔ حضرت جابر بن عبد اللہ نے فرمایا : اس آیت کا نزول ہمارے حق میں ہوا تھا (ہم نے ہی بھاگنے کا ارادہ کیا تھا) لوگوں نے کہا کہ جب اللہ نے فرمایا : وا اللہ ولیُّھَما تو اب ہم کو گذشتہ ارادۂ فرار سے اتنی مسرت ہے کہ اگر ہم ارادۂ فرار نہ کرتے تو اتنی مسرت نہ ہوتی۔
Top