Kashf-ur-Rahman - Aal-i-Imraan : 17
اَلصّٰبِرِیْنَ وَ الصّٰدِقِیْنَ وَ الْقٰنِتِیْنَ وَ الْمُنْفِقِیْنَ وَ الْمُسْتَغْفِرِیْنَ بِالْاَسْحَارِ
اَلصّٰبِرِيْنَ : صبر کرنے والے وَالصّٰدِقِيْنَ : اور سچے وَالْقٰنِتِيْنَ : اور حکم بجالانے والے وَالْمُنْفِقِيْنَ : اور خرچ کرنے والے وَالْمُسْتَغْفِرِيْنَ : اور بخشش مانگنے والے بِالْاَسْحَارِ : سحری کے وقت
یہ لوگ صبر کرنے والے اور سچ بولنے والے ہیں اور فرمانبردار اور خیرات کرنے والے ہیں اور شب کی آخری گھڑیوں میں استغفار کرنے والے ہیں2
2۔ اے پیغمبر ﷺ ! آپ اپنے مخاطبین سے دریافت کیجئے کیا میں تم کو ایسی چیزیں بتادوں جو اس دنیوی مذکورہ سامان سے بدرجہا بہتر ہوں لہٰذا سن لو جو لوگ تقویٰ کی روش اختیار کرتے ہیں اور دنیوی خواہشات کے پورا کرنے میں احتیاط سے کام لیتے ہیں ان کے لئے ان کے پروردگار اور مالک کے پاس ایسے باغ ہیں جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں وہ ان باغوں میں ہمیشہ رہیں گے اور ان کے لئے ایسی بیویاں ہوں گی جو ہر قسم کے ظاہری اور باطنی عیوب سے پاک اور مبرا ہوں گی اور مزید برآں اللہ تعالیٰ کی جانب سے رضا مندی اور خوشنودی کی بےبہا نعمت ان کو میسر ہوگی اور اللہ تعالیٰ بندوں کے حال اور ان کے اعمال پر پوری نظر رکھتا ہے ۔ یہ اہل تقویٰ ایسے لوگ ہیں جو یوں کہتے ہیں اے ہمارے پروردگار ہم ایمان لائے اور ہم نے آپ کی اور آپ کے نبی کی تصدیق کی سو آپ ہمارے گناہوں کو معاف کر دیجئے اور ہم کو دوزخ کے عذاب سے بچا لیجئے یہ لوگ صبر کرنیوالے اور راست باز ہیں اور فرماں برادری کرنے والے اور خدا کی راہ میں اپنے مال خرچ کرنے والے اور شب کے آخری حصہ میں بخشش و مغفرت طلب کرنے والے ہیں۔ ( تیسیر) تقویٰ کے معنی ہم بیان کرچکے ہیں ۔ ڈرنا ، بچنا ، پرہیز کرنا ، یہاں ہوسکتا ہے کہ خواہشات نفسانی اور مرغوبات نفس کو حاصل کرنے میں احتیاط کرنا اور آگے متقیوں کی صفات کے لحاظ سے یہاں یہ معنی بھی ہوسکتے ہیں کہ ما سویٰ اللہ سے قطع تعلق اور ماسوی اللہ سے اعراض بیویوں کے پاک ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ظاہری آلائش مثلاً پیشاب ، پاخانہ ، حیض ، تھوک وغیرہ سے پاک اور باطنی مثلاً بغض ، کینہ ، حسد وغیرہ سے پاک رضوان سے مراد اللہ تعالٰ کی ایسی رضا مندی ہے جس کے ادراک کا احاطہ نہ کیا جاسکے ۔ بہت بڑی رضا مندی یہ کہ اللہ تعالیٰ اہل جنت سے فرمائے گا۔ احل علیکم رضوانی فلا اسخط علیکم بعد ابدا ً یعنی میں نے اپنی رضا تمہارے لئے حلال کردی ہے۔ اور اب اس کے بعد تم سے کبھی ناراض نہیں ہوں گا قانت کا ترجمہ اوپر گزر چکا ہے ۔ قنوت کے بہت سے معنی ہیں دائمی اطاعت گزار ، قیام کرنا ، ادب سے کھڑا ہونا ، فروتنی اور عاجزی وغیرہ ۔ سحر سے مراد شب کا آخری حصہ اور رات کا آخرت ثلث ، خلاصہ یہ کہ مرغوبات نفس کے مقابلہ میں یہ نعمتیں بدرجہا بہتر ہیں اور یہ نعمتیں اہل تقویٰ کے لئے خاص ہیں نعمتوں کے آگے ان الہ تقویٰ کی توصیف و تعریف ہے ۔ یوں تو جنت کی تمام نعمتیں ایسی ہیں کہ جن کی تعریف نہیں جاسکتی ۔ حدیث میں آتا ہے۔ مالا عین رأت ولا اذن سمعت ولا خطر علی قلب بشر۔ یعنی نہ کسی آنکھ نے وہ نعمتیں دیکھیں نہ کسی کان نے سنیں اور کسی بشر کے قلب پر ان کا کبھی خطرہ گزرا لیکن اللہ تعالیٰ کا کسی بندے سے راضی ہو کر ملاقات کرنا اور اللہ تعالیٰ کی رضا مندی کا اعلان یہ نعمت جنت کی ساری نعمتوں سے بڑھ کر ہے اور چونکہ نعمتیں مختلف ہیں اور بندوں کی حالت بھی مختلف ہے اس لئے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ بندوں کے اعمال اور احوال پر گہری نظر رکھتا ہے۔ مغفرت کی دعا سے پہلے ایمان کا ذکر کرنا اس کا مطلب یہ ہے کہ مجرد ایمان استحقاق مغفرت کا سبب ہے اور استحقاق مغفرت کے لئے نفس ایمان کافی ہے۔ جیسا کہ حضرت معاذ کی حدیث میں ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا ۔ اللہ کا حق بندوں پر یہ ہے کہ صرف اسی کی عبادت کریں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں اور بندوں کا حق اللہ پر یہ ہے کہ وہ اس شخص کو عذاب نہ کرے جو اس کے ساتھ شریک نہ کرے۔ الخ مغفرت کی دعا کے ساتھ عذاب دوزخ سے بچنے کی دعا بھی کرتے ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ دوزخ سے بچا کر جنت میں داخل کر دیجئے ۔ متقیوں کے اوصاف بیان کرنے میں بہترین ترتیب رکھی ہے اور ہر قسم کی طاعات کو شامل کرلیا ہے ۔ خواہ وہ اخلاق و اقوال ہوں اور خواہ وہ اعمال بدنی اور مالی ہوں مثلاً صبر خواہ منہیات سے باز رہنے پر ہو خواہ طاعات کی تکلیف اور خواہ مصائب و حوادتات پر ہو نفس کی برائی کا علاج ہے اور بدنی اصلاح کے تمام اقوال صدق میں داخل ہوگئے اور تمام افعال کو لفظ قنوت شامل ہے اور عبادات مالی کے لئے انفاق ، غرض اخلاق ، اقوال ، اعمال ، بدنی و مالی سب بالا ستعیاب بجا لاتے ہیں اور ان تمام عبادات روحانی و جسمانی کے بعد شب کے آخری حصہ میں اللہ تعالیٰ سے بخشش طلب کرتے ہیں اور اس سے ڈرتے رہتے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ تہجد کی نماز پڑھتے ہیں اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یہ لوگ بخشش کی دعا کرتے ہیں اور سحر کی قید اس لئے لگائی کہ یہ وقت اطمینان اور توجہ الی اللہ کا ہوتا ہے اور یہ وقت دعا کی قبولیت کا ہے اور اس وقت اٹھ کر نماز پڑھنا اور استغفار کرنا نفس پر کٹھن بھی بہت ہے۔ سورۂ ذاریات میں فرمایا ہے کانوا قلیلا من الیل ما یھجعون وبالا سحارھم یستغفرون یعنی اہل تقویٰ کا یہ ایک خاص وصف ہے کہ رات کو بہت تھوڑی دیر سونا اور سحری کے وقت شب کی کوتاہیوں پر استغفار کرنا کوتاہی یہ کہ عبادت میں جو قصور ہوگیا ہو اس کی معافی یا شب میں تھوڑی دیر بھی کیوں سوئے اس پر معافی خواہ ہوتے ہیں۔ اوپر کی آیت میں جن مرغوبات نفس کی طرف اشارہ فرمایا تھا وہ عورتیں ، بیٹے ، بکثرت مال ، گھوڑے مویشی اور زرعی زمین تھی ۔ اس کے مقابلہ میں جنت پاکیزہ بیویاں اور ضائے الٰہی کا تذکرہ کیا اور یہ بات ظاہر ہے کہ صرف جنت ہی تمام نعمتوں کا نام ہے ۔ دنیا کی مذکورہ تمام مرغوبات وہاں موجود ہوں گی۔ جیسا کہ فرمایا وفیھا ما تشتھیہ الانفس وتلذالاعین وہاں ہر خواہش پوری ہوگی ۔ سواریاں بھی ہوں گی اولاد بھی نیک انسان کی اس کے قریب ہوگی جنت کی تعمیر ہی سونے اور چاندی سے ہوگی مگر باوجود اس کے پھر بھی جنت کے ساتھ بیویوں کا ذکر فرمایا اور ایک رضوان کا ذکر فرمایا ۔ اس کی وجہ محض یہ معلوم ہوتی ہے کہ عورت چونکہ تسکین خاطر اور دل جمعی کا سبب ہے اس لئے اس کی خصوصیت سے ذکر فرما دیا۔ رہی رضا مندی اور رضائے الٰہی ۔۔۔۔ چونکہ وہ تمام نعمتوں میں اہم نعمت ہے بلکہ جنت کی طلب اور خواہش بھی اسی غرض کے لئے ہے اور حضرت حق کی رضا کا محل ہے اس لئے اس کو خاص طور پر ذکر فرمایا۔ یہ مطلب نہیں کہ بس ان چیزوں کے علاوہ وہاں کچھ اور نہ ہوگا بلکہ وہاں وہ سب کچھ ہوگا جو یہاں نظر آتا ہے اور اس سے بہت زیادہ ہوگا اور دائمی ہوگا اور سب سے بڑھ کر یہ کہ رضائے الٰہی سے دوزخ کو جو کیف اور سرور نصیب ہوگا ، اور جو روحانی لذت میسر ہوگی اس کا تو اندازہ ہی نہیں لگایا جاسکتا ۔ صاحب تفسیر مظہری حضرت قاضی ثناء اللہ اپنی تفسیر میں فرماتے ہیں ۔ صابروں سے مراد صوفیہ ، غازی اور شہداء ہیں صادقون سے مراد علماء ہیں ۔ قانتو ن سے مراد وہ زاہد ہیں جو نمازوں میں طویل قیام کرتے ہیں ۔ منفقون سے مراد وہ نیک دولت مند ہیں جو حلال سے روپیہ کماتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی راہ میں خیرات کرتے ہیں اور مستغفرون بالا سحار سے وہ توبہ کرنے والے مراد ہیں جو نادانی سے کوئی غلطی کر بیٹھتے ہیں اور گناہ کے متصل ہی توبہ کرتے اور معافی چاہتے ہیں۔ احقر عرض کرتا ہے کہ اہل تقویٰ کی صفات کے متعلق مفسرین نے بہت سی تفسیریں کی ہیں اور ان سب کی گنجائش ہے۔ وللناس فیما یعشقون مذاھب ہم نے صرف مطلب بیان کردیا ہے اور باقی مباحث اور بہت سی احادیث کو چھوڑ دیا ہے اب آگے پھر توحید کا مکرر ذکر فرماتے ہیں کیونکہ یہ تمام بحث اثبات توحید اور ابطال تثلیث سے شروع ہوتی ہے بیچ میں بعض مناسبت سے دوسری باتیں آگئیں عقلی اور نقلی دلائل کے بعد پھر ان موانع کا ذکر فرمایا جو انسان کو امر حق کے قبول کرنے سے روکتے ہیں۔ آخر میں پھر توحید کا ذکر کیا تا کہ سامع کو تمام بحث ستحضر ہوجائے اور اس کے بعد عام طور پر اہل کتاب اور کفار عرب اسلام کی دعوت دی گئی اور نبی کریم ﷺ اور آپکے متبعین کی توحید اور ان کے اسلام کا اعلان کیا گیا ، چناچہ ارشاد فرماتے ہیں ۔ ( تسہیل)
Top