Kashf-ur-Rahman - Aal-i-Imraan : 18
شَهِدَ اللّٰهُ اَنَّهٗ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ١ۙ وَ الْمَلٰٓئِكَةُ وَ اُولُوا الْعِلْمِ قَآئِمًۢا بِالْقِسْطِ١ؕ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ الْعَزِیْزُ الْحَكِیْمُؕ
شَهِدَ : گواہی دی اللّٰهُ : اللہ اَنَّهٗ : کہ وہ لَآ اِلٰهَ : نہیں معبود اِلَّا ھُوَ : سوائے اس وَالْمَلٰٓئِكَةُ : اور فرشتے وَاُولُوا الْعِلْمِ : اور علم والے قَآئِمًا : قائم (حاکم) بِالْقِسْطِ : انصاف کے ساتھ لَآ اِلٰهَ : نہیں معبود اِلَّا ھُوَ : سوائے اس الْعَزِيْزُ : زبردست الْحَكِيْمُ : حکمت والا
اللہ تعالیٰ نے خود اس بات کی شہادت دی ہے کہ بجز اس کے کوئی معبود نہیں ہے ، اس کی شان یہ ہے کہ وہ انصاف کے ساتھ کارخانہ عالم کا انتظام کرنے والے ہے اور فرشتوں نے بھی اسی کی شہادت دی اور اہل علم نے بھی اسی کا اقرار کیا اس زبردست اور حکمت والے کے سوا کوئی معبود ہونے کے قابل نہیں3
3۔ اللہ تعالیٰ نے خود بہ نفس نفیس اس امر کی شہادت دی ہے کہ اس کے سوا کوئی دوسرا معبود ہونے کے لائق نہیں اور اس کی نشان یہ ہے کہ وہ عدل و انصاف کے ساتھ ہر چیز کا انتظام رکھنے والا ہے اور فرشتوں نے اور دوسرے اہل علم نے بھی حضرت حق کی توحید اور اس کے یکتا ہونے پر شہادت دی ہے۔ پھر کہا جاتا ہے کہ اس معبود برحق کے سوا کوئی مستحق عبادت نہیں وہ کمال قوت اور کمال علم و حکمت کا مالک ہے۔ ( تیسیر) بغوی نے روایت کیا ہے کہ دو یہودی عالم شام سے مدینہ آئے تھے ۔ انہوں نے مدینہ کو دیکھ کر کہا کہ یہ شہر تو بالکل اس شہر کے مشابہ ہے جو نبی آخر الزماں کا وطن ہوگا اور جس کا ذکرہماری کتابوں میں موجود ہے اس پر ایک نے دوسرے کی تصدیق کی ۔ جب یہ لوگ مدینہ میں داخل ہوئے اور نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو انہوں نے آپ کی صفات سے آپ کو پہچان کر دریافت کیا آپ محمد ﷺ ہیں آپ نے فرمایا کہ ہاں میرا نام محمد ہے پھر انہوں نے کہا کیا آپ احمد ؐ ہیں آپ نے فرمایا میرا نام محمد بھی ہے احمد بھی ہے اس کے بعد انہوں نے کہا اچھا ایک بات اور بتا دیجئے اللہ تعالیٰ کی کتاب میں سب سے بڑی شہادت کون سی ہے اس پر یہ آیتیں نازل ہوئیں اور انہوں نے جب یہ آیتیں سنیں تو وہ مسلمان ہوگئے۔ اللہ تعالیٰ کی شہادت کا مطلب یہ ہے کہ تمام کتب سماویہ میں اس کا فرمان توحید موجود ہے اور یہی اس کی شہادت ہے جب اللہ تعالیٰ تمام کائنات کا مالک اور خالق ہے اور مخلوق کے ذرے ذرے کو اس کا علم ہے اور وہ خود گواہی دیتا ہے کہ میرے سوا میری تمام مخلوق میں کوئی قابل عبادت نہیں ہے اور نہ کوئی معبود ہونے کا مستحق ہے تو اس سے بڑھ کر اور کس کی گواہی معتبر ہوسکتی ہے پھر دوسری شہادت فرشتوں کی ہے ۔ فرشتے انتظامات کائنات کے کارندے ہیں وہ بھی یہی شہادت دیتے ہیں اور ان کو تسبیح و تمحید سے بھی یہی ظاہر ہوتا ہے کہ کائنات میں کوئی ہستی اس قابل نہیں کہ سوائے اللہ کے معبودبننے کی مستحق اور اہل ہو ۔ فرشتے چونکہ خود توحید کے مقرر ہیں اس لئے یہی ان کی شہادت ہے باقی اہل علم تو وہ خود بھی توحید کے قائل ہیں اور دوسروں کو بھی اللہ تعالیٰ کی توحید کی دعوت دیتے ہیں اور مختلف دلائل سے تقریر اور تحریر میں اثبات توحید کرتے ہیں لہٰذا یہ ان کی شہادت ہے ۔ ان تین زبردست شہادتوں کے بعد کسی مشرک کو شرک کی گنجائش کہاں باقی رہتی ہے۔ ایک خود باری تعالیٰ کی شہادت دوسری فرشتوں کی شہادت ، تیسری اہل علم کی شہادت۔ قائما ً بالقسط کے معنی کئی طرح کئے گئے ہیں لیکن ہم نے ایک معنی اختیار کر لئے ہیں اور قائما کو اللہ تعالیٰ سے حال رکھا ہے جیسا کہ ہمارے ترجمہ اور تیسیر سے ظاہر ہے۔ مطلب یہ ہے کہ یہ شہادت اللہ تعالیٰ کی راستی اور انصاف کے ساتھ یا قیام انصاف کی غرض سے ہے جو اصل مقصد شہادت کا ہے جیسا کہ پانچویں پارے میں ارشاد ہے۔ کونوا قوامین بالقسط شھداء اللہ اور یہ مطلب بھی ہوسکتا ہے کہ وہ ہر چیز کا انصاف اور اعتدال کے ساتھ انتظام کرنے والا ہے یعنی توحید کی شہادت کے ساتھ اس کی یہ شان بھی ہے کہ وہ پوری کائنات کا اعتدال کے ساتھ انتظام چلا رہا ہے اور جب اس کی یہ شان ہے تو اس کے علاوہ دوسرا کون ہے جس کو اس کا ہمسر کہا جاسکے ۔ آخر میں پھر مضمون شہادت کی تاکید ہے جو مستقل دلیل عقلی بھی ہے کہ جب وہی ہر قسم کی قوت و حکمت کا مالک ہے تو وہی معبود برحق ہے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یہ آخری جملہ قائما بالقسط کی دلیل ہو اس لئے کہ انصاف کے لئے دو باتوں کی عام طور سے ضرورت ہوتی ہے ایک حکومت و قوت کہ اس کے فیصلے سے کوئی سرتابی نہ کرسکے۔ دوسرے حکمت کہ جو فیصلہ کرے دانائی اور حکمت کے ساتھ کرے اور خوب جانچ کر فیصلہ صادر کرے اس لئے فرمایا : لاالہ الا ھو العزیز الحکیم اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یہ عیسائیوں کے کفارے کا د ہے کہ تم جو یہ کہتے ہو کہ سب کی طرف سے ایک شخص کو کفارہ کردیا گیا یہ تو بالکل انصاف کے خلاف ہے اور اللہ تعالیٰ انصاف کا حاکم ہے اور اعتدال کے ساتھ انتظام عالم کا حقیقی منتظم ہے وہ ایسا غیر منصفانہ فیصلہ کس طرح کرسکتا ہے کہ مسیح کو ساری مخلوق کا ذمہ دار ٹھہرا کر اس کا کفارہ لے لے اور تمام مجرموں کو بری کر دے ( واللہ اعلم بالصواب) یوں تو احتمالات بہت ہیں لیکن بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ توحید کی اہمیت کے لحاظ سے اولہ ٗ توحید کو بیان کرنے کے بعد مکرر ذکر کردیا گیا ہے بعض لوگوں نے قائما بالقسط کو اولو العلم کا حال کہا ہے اور اس کی بھی گنجائش ہے جیسا کہ ہم پہلے اشارہ کرچکے ہیں۔ جب توحید کا مسئلہ صاف اور اسلام کی بنیاد اسی کلمہ توحید پر قائم ہے اور توحید اسلام کے لئے بمنزلہ بنیاد ہے تو اب آگے اسلام کی عام دعوت کا ذکر فرماتے ہیں اور جھگڑا لو لوگوں کے لئے اپنے پیغمبر کی زبانی اسلام کا اعلان کراتے ہیں چناچہ فرماتے ہیں۔ ( تسہیل)
Top