Kashf-ur-Rahman - An-Nisaa : 52
اُولٰٓئِكَ الَّذِیْنَ لَعَنَهُمُ اللّٰهُ١ؕ وَ مَنْ یَّلْعَنِ اللّٰهُ فَلَنْ تَجِدَ لَهٗ نَصِیْرًاؕ
اُولٰٓئِكَ : یہی لوگ الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو لَعَنَھُمُ : ان پر لعنت کی اللّٰهُ : اللہ وَمَنْ : اور جس پر يَّلْعَنِ : لعنت کرے اللّٰهُ : اللہ فَلَنْ : تو ہرگز تَجِدَ لَهٗ : تو پائے گا اس کا نَصِيْرًا : کوئی مددگار
یہی وہ لوگ ہیں جن پر اللہ نے لعنت کی ہے اور جس شخص کو خدا ملعون کر دے تو آپ اس ملعون کا کسی کو مددگار نہ پائیں گے۔2
2 اے پیغمبر کیا آپ نے لوگوں کا حال نہیں دیکھا جن کو کتاب آسمانی تعنی توریت کے علم کا ایک کافی حصہ دیا گیا ہے مگر یہ لوگ باوجود اس کے بتوں پر اور شیطان پر ایمان رکھتے ہیں اور بت کی اور شیطان کی تصدیق کرتے ہیں اور یہ لوگ کفار مکہ کے متعلق یوں کہتے ہیں کہ یہ کفار مسلمانوں کی بہ نسبت زیادہ سیدھی راہ پر ہیں اور یہ کافر مسلمانوں سے زیادہ راہ یافتہ ہیں یہی وہ لوگ ہیں جن پر اللہ تعالیٰ نے لعنت کی ہے اور اللہ تعالیٰ جس پر لعنت کرے اور اپنی رحمت سے دور کر دے تو آپ اس ملعون کا کسی کو حامی اور مددگار نہ پائیں گے اور ایسے ملعون کا کوئی حمایتی آپ کو نظر آئے گا۔ (تیسیر) الم تر میں خطاب نبی کریم ﷺ کو ہے اور ہوسکتا ہے کہ یہاں بھی خطاب عام ہو اور اس قسم کے خطاب سے غرض یہ ہوتی ہے کہ ان لوگوں کی حالت بہت ہی تعجب انگیز اور دیکھنے کے قابل ہے اگر آپ دیکھیں تو تعجب کریں طاغوت کے معنی ہم پہلے بیان کرچکے ہیں طغیان کے معنی حد سے تجاوز کرنے کے ہیں جبت کے معنی ہیں صنم اور ہوسکتا ہے کہ جیت جبس کا معرب ہو اور یہ کسی خاص بت کا نام ہو اور پھر خدا کے علاوہ ہر معبود کو جبت کہنے لگے ہوں ۔ اسی طرح طاغوت بھی ہر باطل کو کہتے ہیں وہ شیطان ہو یا خدا کے علاوہ کوئی دوسرا معبود ہو، بہرحال ! جبت کا اطلاق اس پر کیا جاتا ہے جس میں ذرا سی بھی خیر اور بھلائی نہ ہو اور طاغوت کا اطلاق اسپر کیا جاتا ہے جو سرکش اور حد سے تجاوز کرنے والا ہو، نیز ایک بت کا نام بھی تھا ہم اس سورت کی تمہید میں عرض کرچکے ہیں کہ مسلمانوں کی ترقی روکنے کی غرض سے تمام معانداد اور مخالف قوتیں آپس میں اتحاد و اتفاق کی سعی میں مشغول تھیں ان ہی کوششوں میں سے ایک خاص کوشش کی جانب اس آیت میں اشارہ ہے کہ حیی بن اخطب اور کعب ابن اشرف یہود کے بڑے بڑے عالم اور رئیس لوگ کفار قریش سے ملے اور دوستی کی کوشش کی اور ادھر کفار قریش کو بھی اس امر کی ضرورت تھی کہ عرب اہل کتاب کی ہمدردی حاصل کریں تاکہ مسلمانوں کا مقابلہ پوری طرح کیا جاسکے۔ چنانچہ جب دونوں پارٹیوں میں صلح کی گفتگو شروع ہوئی تو ابو سفیان نے کہا تم چونکہ آسمانی کتاب کے قائل ہو اور تم محمد ﷺ کے عقیدے سے زیادہ قریب ہو اس لئے ہم کو تم پر اعتماد نہیں کبھی کل تم محمد ﷺ کے ساتھ ہو جائو ان لوگوں نے کہا کہ آخر تم کو کس طرح اعتماد ہوگا۔ ابو سفیان نے کہا ہم ایک ہی طرح اطمینان کرسکتے ہیں کہ تم ہمارے معبودوں کے سامنے سجدہ کرو چناچہ اس پر یہود کے روساء نے بتوں کو سجدہ کیا اور قریش عرب اور یہود کا باہم عہد ہوا کہ محمد ﷺ کے خلاف ہم ایک دوسرے کی مدد کریں گے اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ قریش نے یہود سے کہا کہ ہم لوگ حجاج کی خدمت کرتے ہیں مہمانوں کے لئے پانی کا انتظام کرتے ہیں تم ہی بتائو کہ ہم بہتر ہیں یا محمد ﷺ اور اس کے ساتھی جو اپنے کو مسلمان کہتے ہیں یہ بہتر ہیں۔ اس پر یہود نے کہا تم ان مسلمانوں سے زیادہ بہتر اور زیادہ راہ یافتہ ہو بہرحال تاریخی واقعہ کی نوعیت کچھ بھی ہو لیکن اتنا قرآن کے الفاظ سے ظاہر ہے کہ یہود نے مسلمانوں کے مقابلے میں کافروں کو ھولاء اھدی من الذین امنوا سبیلا کہا اور یہ کہنا ہی ان کے کافر اور ملعون ہونے کے لئے کافی ہے خواہ انہوں نے یہ بات دل سے نہ کہی ہو، پھر بھی طریقہ کفر کو طریقہ اسلام سے بہتر اور اچھا تو کہا جس کا مطلب یہ ہے کہ کفر کی راہ اور کفار قریش کا طریقہ حق ہے اور اسلام کی راہ اور مسلمانوں کا طریقہ باطل ہے اور یہ ہم نے بعض مفسرین کی رائے کے مطابق عرض کیا ہے کیونکہ انہوں نے اس فقرے کا مطلب یہود کی حالت کو دیکھتے ہوئے یہ سمجھا ہے کہ چونکہ وہ اہل کتاب تھے اور مسلمانوں کی طرح وہ بھی کفار کو غلط راہ پر سمجھتے تھے اس لئے ان کا اس فقرہ سے یہ مطلب تھا کہ باطل تو دونوں ہیں مگر نسبتاً تم پھر بھی مسلمانوں سے بہتر ہو۔ ہماری تقریر سے واضح ہوگیا ہوگا کہ نیت ان کی کچھ بھی ہو لیکن ان کے کافر ہونے کے لئے ان کے الفاظ کافی ہیں۔ رہی یہ بات کہ ان پر لعنت کی وجہ بھی یہی ہے کہ انہوں نے یہ الفاظ کہے یا لعنت کی وجہ ان کی دوسری شرارتیں ہوں اور لعنت کا یہ اثر ہو کہ ان کے منہ سے یہ جملے نکلے تو اس سے مطلب میں کچھ فرق نہیں پڑتا اور ہاں اس کا امکان ضرور ہے کہ ان کی دوسری شرارتیں اور فتنہ انگیزیاں ان پر لعنت کا سبب ہوئیں اور لعنت کے جو اثرات ہوا کرتے ہیں وہ ظاہر ہے کہ انسان بگڑتا ہی چلا جاتا ہے اسی طرح جب یہ ملعون قرار دے دیئے گئے تو اس کے بعد اور خراب ہوتے چلے گئے، حتیٰ کہ جبت اور طاغوت کے آگے سجدہ ریز بھی ہوئے اور ان کی پوجا کرنے کی تصدیق اور ان کی حقانیت کو زبان سے بھی تسلیم کرلیا اگر سجد سے کا واقعہ نہ بھی ہوا ہو تب بھی اھدی سبیلا سے بت پرستی کی توثیق و تصدیق ہوگئی اور اسی کو قرآن نے یئومنون بالجبت و الطاغوت فرمایا ہے یئومنون کا ترجمہ خواہ ایمان لانا یا ایمان رکھنا کیا جائے جبت اور طاغوت کی تصدیق کرنا یا ان کو ماننا کیا جائے یہ مطلب وہی ہے جو ہم نے تسہیل میں عرض کردیا ہے۔ مددگار نہ پانے کا مطلب یہ ہے کہ قیامت کے دن جب ان کو عذاب کا حکم ہوگا تو اے پیغمبر ! ان ملعونوں کا کوئی حامی و مددگار تم کو نظر نہیں آئے گا۔ اب آگے ان کی مزید ناشائستہ حرکات کا ذکر ہے جن سے منشا ان کا حسد اور نبی کریم ﷺ سے بغض تھا چناچہ ارشاد ہوتا ہے۔ (تسہیل)
Top