Al-Quran-al-Kareem - Ar-Rahmaan : 122
وَ مَا یَاْتِیْهِمْ مِّنْ نَّبِیٍّ اِلَّا كَانُوْا بِهٖ یَسْتَهْزِءُوْنَ
وَمَا يَاْتِيْهِمْ : اور نہیں آیا ان کے پاس مِّنْ نَّبِيٍّ : کوئی نبی اِلَّا كَانُوْا : مگر وہ تھے بِهٖ : ساتھ اس کے يَسْتَهْزِءُوْنَ : اتہزاء کرتے۔ مذاق اڑاتے
اور ہم نے اسے دنیا میں بھلائی دی اور بیشک وہ آخرت میں بھی یقینا نیک لوگوں سے ہے۔
وَاٰتَيْنٰهُ فِي الدُّنْيَا حَسَـنَةً : یعنی دنیا میں حیات طیبہ کے لیے جن چیزوں کی ضرورت ہے وہ انھیں عطا فرمائیں، مثلاً دین حق کی ہدایت، نبوت کی نعمت، صالح اولاد، سیرت حسنہ، وافر مال و دولت اور سچی ناموری وغیرہ۔ وَاِنَّهٗ فِي الْاٰخِرَةِ لَمِنَ الصّٰلِحِيْنَ : خود ابراہیم ؑ نے دعا کی تھی جو اللہ تعالیٰ نے قبول فرمائی : (وَّاَلْـحِقْنِيْ بالصّٰلِحِيْنَ) [ الشعراء : 83 ] ”مجھے نیک بندوں کے ساتھ ملا دے۔“ یوسف ؑ نے بھی یہی دعا کی تھی : (تَوَفَّنِيْ مُسْلِمًا وَّاَلْحِقْنِيْ بالصّٰلِحِيْنَ) [ یوسف : 101 ] ”مجھے مسلم ہونے کی حالت میں فوت کر اور مجھے نیک لوگوں کے ساتھ ملا دے۔“ 3 معلوم ہوا کہ نیک ہونا بھی اللہ تعالیٰ کی نعمت ہے، مگر قیامت کو صالحین کا ساتھ ملنا ایک مزید نعمت ہے، اس لیے ہمارے نبی کریم ﷺ کے دنیا سے رخصت ہوتے وقت آخری الفاظ یہی تھے : (اَللّٰھُمَّ اغْفِرْ لِيْ وَأَلْحِقْنِيْ بالرَّفِیْقِ الْأَعْلٰی) [ ترمذی، أبواب الدعوات، باب : 3496۔ ابن ماجہ : 1619۔ سلسلۃ الأحادیث الصحیحۃ : 6؍641، 642، ح : 2775 ] ”اے اللہ ! مجھے بخش دے اور مجھے سب سے اونچے ساتھی کے ساتھ ملا دے۔“
Top