Maarif-ul-Quran - Hud : 102
وَ كَذٰلِكَ اَخْذُ رَبِّكَ اِذَاۤ اَخَذَ الْقُرٰى وَ هِیَ ظَالِمَةٌ١ؕ اِنَّ اَخْذَهٗۤ اَلِیْمٌ شَدِیْدٌ
وَ : اور كَذٰلِكَ : ایسی ہی اَخْذُ : پکڑ رَبِّكَ : تیرا رب اِذَآ اَخَذَ : جب اس نے پکڑا (پکڑتا ہے) الْقُرٰي : بستیاں وَهِىَ : اور وہ ظَالِمَةٌ : ظلم کرتے ہوں اِنَّ : بیشک اَخْذَهٗٓ : اس کی پکڑ اَلِيْمٌ شَدِيْدٌ : دردناک سخت
اور ایسی ہی ہے پکڑ تیرے رب کی جب پکڑتا ہے بستیوں کو اور وہ ظلم کرتے ہوتے ہیں، بیشک اس کی پکڑ دردناک ہے شدت کی،
خلاصہ تفسیر
اور آپ کے رب کی دار و گیر ایسی ہی (سخت) ہے جب وہ کسی بستی والوں پر دار وگیر کرتا ہے جبکہ وہ ظلم (و کفر) کیا کرتے ہوں، بلا شبہ اس کی دار و گیر بڑی الم رساں (اور) سخت ہے (کہ اس سے سخت تکلیف پہنچتی ہے اور اس سے کوئی بچ نہیں سکتا) ان واقعات میں اس شخص کے لئے بڑی عبرت ہے جو آخرت کے عذاب سے ڈرتا ہو (وجہ عبرت ظاہر ہے کہ جب دنیا کا عذاب ایسا سخت ہے حالانکہ یہ دار الجزاء نہیں تو آخرت کا جو کہ دار الجزاء ہے کیسا سخت عذاب ہوگا) وہ (یعنی آخرت کا دن) ایسا دن ہوگا کہ اس میں تمام آدمی جمع کئے جاویں گے اور وہ سب کی حاضری کا دن ہے اور (وہ دن گو اب تک آیا نہیں لیکن اس سے کوئی اس کے آنے میں شک نہ کرے آوے گا ضرور) ہم اس کو صرف تھوڑی مدت کے لئے (بعض مصلحتوں سے) ملتوی کئے ہوئے ہیں (پھر) جس وقت وہ دن آوے گا (مارے ہیبت کے لوگوں کا یہ حال ہوگا کہ) کوئی شخص بدون خدا کی اجازت کے بات تک (بھی) نہ کرسکے گا (ہاں جب حساب کتاب کیلئے حاضری ہوگی اور ان کے اعمال پر جواب طلب کیا جاوے گا اس وقت البتہ منہ سے بات نکلے گی خواہ وہ بات مقبول ہو یا مقبول نہ ہو سو اس حالت میں تو سب اہل موقف شریک ہوں گے) پھر (آگے) ان میں (یہ فرق ہوگا کہ) بعض تو شقی (یعنی کافر) ہوں گے اور بعضے سعید (یعنی مومن) ہوں گے سو جو لوگ شقی ہیں وہ تو دوزخ میں ایسے حال سے ہوں گے کہ اس میں ان کی چیخ و پکار پڑی رہے گی (اور) ہمیش ہمیش کو اس میں رہیں گے جب تک آسمان و زمین قائم ہیں (یہ محاورہ ہے ابدیت کیلئے) اور کوئی نکلنے کی سبیل نہ ہوگی ہاں اگر خدا ہی کو (نکالنا) منظور ہو تو دوسری بات ہے (کیونکہ) آپ کا رب جو کچھ چاہے اس کو پورے طور سے کرسکتا ہے (مگر باوجود قدرت کے یہ یقینی ہے کہ خدا یہ بات نہ چاہے گا اس لئے نکلنا نصیب نہ ہوگا) اور رہ گئے وہ لوگ جو سعید ہیں سو وہ جنت میں ہوں گے (اور) وہ اس میں (داخل ہونے کے بعد) ہمیشہ ہمیشہ کو رہیں گے جب تک آسمان و زمین قائم ہیں (گو جانے کے قبل کچھ سزا بھگتی ہو) ہاں اگر خدا ہی کو (نکالنا) منظور ہو تو دوسری بات ہے (مگر یہ یقینی ہے کہ خدا یہ بات کبھی نہ چاہے گا پس نکلنا بھی کبھی نہ ہوگا بلکہ) وہ غیر منقطع عطیہ ہوگا (اور جب کفر کا وبال اوپر کی آیتوں سے معلوم ہوچکا) سو (اے مخاطب) جس چیز کی یہ پرستش کرتے ہیں اس کے بارے میں ذرا شبہ نہ کرنا (بلکہ یقین رکھنا کہ ان کا یہ عمل موجب سزا ہے بوجہ باطل ہونے کے، اور باطل ہونے کی دلیل یہ ہے کہ) یہ لوگ بھی اسی طرح (بلا دلیل بلکہ خلاف دلیل) عبادت (غیر اللہ کی) کر رہے ہیں جس طرح ان کے قبل ان کے باپ دادا عبادت کرتے تھے (امر خلاف دلیل باطل اور موجب سزا ہوتا ہے) اور ہم نے موسیٰ ؑ کو کتاب (یعنی توریت) دی تھی سو اس میں (بھی مثل قرآن کے) خلاف کیا گیا (کہ کسی نے مانا کسی نے نہ مانا، یہ کوئی آپ کے لئے نئی بات نہیں ہوئی پس آپ مغموم نہ ہوں اور (یہ منکرین ایسے مستحق عذاب ہیں کہ) اگر ایک بات نہ ہوتی جو آپ کے رب کی طرف سے پہلے ٹھہر چکی ہے (کہ پورا عذاب ان کو آخرت میں دوں گا) تو (جس چیز میں یہ اختلاف کر رہے ہیں) ان کا (قطعی) فیصلہ (دنیا ہی میں) ہوچکا ہوتا (یعنی وہ عذاب موعود واقع ہوجاتا) اور یہ لوگ (باوجود قیام براہین کے ابھی تک) اس (فیصلہ یعنی عذاب موعود) کی طرف سے ایسے شک میں (پڑے) ہیں جس نے ان کو تردد میں ڈال رکھا ہے (کہ ان کو عذاب کا یقین ہی نہیں آتا، شک کا مطلب یہی ہے) اور (کسی کے شک و انکار سے یہ عذاب ٹلے گا نہیں بلکہ) بالیقین سب کے ایسے ہی ہیں کہ آپ کا رب ان کو ان کے اعمال (کی جزا) کا پورا پورا حصہ دے گا، بالیقین وہ ان کے سب اعمال کی پوری خبر رکھتا ہے (جب ان کی سزا کا معاملہ آپ سے کچھ سروکار نہیں رکھتا تو آپ اور مسلمان اپنے کام میں لگے رہیں، وہ کام یہ ہیں جو اگلی آیات میں مذکور ہیں)۔
Top