Baseerat-e-Quran - Hud : 102
وَ كَذٰلِكَ اَخْذُ رَبِّكَ اِذَاۤ اَخَذَ الْقُرٰى وَ هِیَ ظَالِمَةٌ١ؕ اِنَّ اَخْذَهٗۤ اَلِیْمٌ شَدِیْدٌ
وَ : اور كَذٰلِكَ : ایسی ہی اَخْذُ : پکڑ رَبِّكَ : تیرا رب اِذَآ اَخَذَ : جب اس نے پکڑا (پکڑتا ہے) الْقُرٰي : بستیاں وَهِىَ : اور وہ ظَالِمَةٌ : ظلم کرتے ہوں اِنَّ : بیشک اَخْذَهٗٓ : اس کی پکڑ اَلِيْمٌ شَدِيْدٌ : دردناک سخت
اور آپ کے رب کی گرفت ایسی ہی ہے کہ جب کوئی ظلم کرتا ہے تو وہ اس کو پکڑ لیتا ہے اور بیشک اس کی پکڑ سخت اور درد ناک ہوتی ہے۔
لغات القرآن آیت نمبر 102 تا 109 اخذ (لیا) المد شدید (شدید اور درد ناک) خاف (ڈر) یوم مجموع (جمع ہونے کا دن) یوم مشھود (حاضری کا دن) نوخر (ہم دیر کرتے ہیں۔ موخر کرتے ہیں) معدود (گنتی، مقرر) لاتکلم (بات نہ کرے گا) شقی (بدنصیب) سعید (خوش نصیب) زقیر (چیخنا، زور سے آواز لگانا) شھیق (دھاڑنا) فعال (بہت کرنیوالا) عطاء (بخشش، عطا کرنا) غیر مجذوذ (نہ منقطع ہونے والا) لاتک (لاتکن) تو نہ ہونا) مریدۃ (شک) مرفوا (پورا دینے والا) نصیب (حصہ) غیر منقوص (نہ گھٹنے والا) تشریح : آیت نمبر 102 تا 109 اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر بہت مہربان ہے اسی لئے وہ لوگوں کے برے اعمال پر فوراً ہی سزا نہیں دیا کرتا بلکہ ان کو مہلت اور ڈھیل دیتا رہتا ہے۔ اگر کوئی شخص یا گروہ اپنے برے اعمال میں لگا رہتا ہے اور توبہ نہیں کرتا تو پھر اللہ تعالیٰ اس کو اس طرح اپنی گرفت میں لے لیتے ہیں کہ پھر ان سے چھڑانے کی کسی میں ہمت و طاقت نہیں ہوتی۔ اس کے برخلاف وہ لوگ جو اپنے برے اعمال اور بد عملی کی زندگی سے توبہ کرلیتے ہیں وہ ابدی راحتوں کے مستحق بن جاتے ہیں ایسے ہی لوگوں کو ” سعید اور اس کے مقابلے میں شقی “ فرمایا گیا ہے ۔ سعید وہ اہل ایمان ہیں جو قدم قدم پر نیک اعمال کو اپنا کر صراط مستقیم پر چلتے ہیں اور اپنے ہر کام میں اللہ کی رضا و خوشنودی تلاش کرتے ہیں ان کے لئے جنت کی وہ ابدی راحتیں ہیں جو ان سے کبھی منقطع نہ ہونگی۔ اس کے برخلاف وہ لوگ جنہوں نے کفر و شرک کا راستہ اختیار کر رکھا تھا اور کسی سمجھانے والے کی بات کو نہ سمجھتے تھے وہ شدید کرب و اذیت میں مبتلا ہوں گے۔ ان کو ایسی آگ میں جھونک دیا جائے گا جس میں ان کو ہمیشہ ہمیشہ جلتے رہنا ہوگا اگر کسی شخص نے ایمان قبول کرلیا لیکن اس نے اعمال صالح کو اپنی زندگی نہیں بتایا۔ قیامت کے دن اگر اس کے دل میں رائی برابر بھی ایمان ہوگا تو وہ اپنی بد عملی کی سزا بھگت کر جنت میں جائے گا اور اس میں ہمیش رہے گا۔ لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ ایمان لانے کے بعد ہم عمل کریں یا نہ کریں آخر کار ہماری بخشش ہوجائے گی۔ یہ تصور یہودیوں والا تصور بن جائے گا۔ کیونکہ ان کو اسی بات پر ناز تھا کہ ہم کچھ بھی کرتے رہیں جنت ہماری ملکیت ہے دو تین دن سزا بھگت کر پھر جنت میں چلے جائیں گے اور اگر اللہ نے چاہا تو یہ سزا بھی بھگتنے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ اللہ تعالیٰ نے ایسے لوگوں سے فرمایا ہے کہ ایسے لوگ دنیا کی زندگی میں تو ہزار ہزار سال جینے کی تمنا رکھتے ہیں جب کہ ان کا یہ گمان ہے کہ جنت ان کی ملکیت ہے۔ اللہ نے ایسے لوگوں کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ اگر جنت تم لوگوں کے لئے ہے تو پھر دنیا کی مصیبتیں کیوں برداشت کر رہے ہو موت کی تمنا کرو اور جنت میں پہنچ جائو۔ حالانکہ یہ ان لوگوں کا خیال ہی خیال ہے۔ اس کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔ اہل ایمان کے لئے ہم جو بات کر رہے ہیں وہ یہ ہے کہ اگر کوئی شخص صاحب ایمان ہے لیکن وہ ایمان کے تقاضوں کے مطابق عمل نہ کرسکا تو اس کو بدعملی پر سزا تو ضرور ملے گیا ور اگر رائی کے برابر بھی ایمان ہوگا تو اس کی نجات ہوگی۔ لیکن اگر کوئی شخص یہ سمجھتا ہے کہ وہ نیک عمل کرے یا نہ کرے وہ جنت میں ضرور جائے گا یہ اس کی بھول ہوگی۔ وجہ یہ ہے کہ یہ نجات کا وعدہ رائی برابر ایمان کے ساتھ مشروط ہے۔ کیا خبر ہے کہ وہ شخص جو سمجھتا ہے کہ اس کی بخشش تو ہو ہی جائے گی خواہ وہ کچھ بھی کرتا پھرے اس کا ایمان بھی سلامت ہے یا نہیں۔ اگر اس کا ایمان سلامت ہے تو اس کی بخشش ضرور ہوگی لیکن اگر اس نے بد دعادات و خرافات اور شرکیہ اعمال میں پڑ کر اپنا ایمان ہی کھو دیا ہے تب اس کی نجات نہیں ہو سکتی۔ انسان کو ہر وقت اس بات سے ڈرتیر رہنا چاہئے کہ اس کا ایمان اور اس کے اعمال اللہ کے ہاں قبول بھی ہیں یا نہیں ؟ اگر ایمان کے ساتھ اس کے معملوی اعمال بھی برقرار ہیں تو انشاء اللہ وہ جنت میں ضرور جائے گا اور وہ ابدی راحتوں سے ہم کنار ہوگا۔
Top