Maarif-ul-Quran - Hud : 115
وَ اصْبِرْ فَاِنَّ اللّٰهَ لَا یُضِیْعُ اَجْرَ الْمُحْسِنِیْنَ
وَاصْبِرْ : اور صبر کرو فَاِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ لَا يُضِيْعُ : ضائع نہیں کرتا اَجْرَ : اجر الْمُحْسِنِيْنَ : نیکی کرنے والے
اور صبر کر البتہ اللہ ضائع نہیں کرتا ثواب نیکی کرنے والوں کا،
(آیت) وَاصْبِرْ فَاِنَّ اللّٰهَ لَا يُضِيْعُ اَجْرَ الْمُحْسِنِيْنَ ، یعنی آپ صبر و ثابت قدمی کے ساتھ رہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نیک عمل کرنے والوں کا اجر ضائع نہیں کیا کرتے۔
صبر کے لفظی معنی باندھنے کے ہیں اسی لئے اپنے نفس کو قابو میں رکھنے کیلئے بھی صبر بولا جاتا ہے جس کے مفہوم میں یہ بھی داخل ہے کہ نیک کاموں کے کرنے پر اپنے نفس کو ثابت قدم رکھے اور یہ بھی کہ برے کاموں میں مبتلا ہونے سے اس کو روکے، اس جگہ رسول کریم ﷺ کو صبر کا حکم دینے سے یہ مراد بھی ہو سکتی ہے کہ جو احکام آیات مذکورہ میں آپ کو دیئے گئے ہیں مثلاً استقامت، اقامت صلوة وغیرہ ان پر آپ مضبوطی سے قائم رہیں اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ مخالفین کی مخالفت اور ایذاؤں پر صبر کی تلقین مقصود ہو، اور اس کے بعد جو یہ ارشاد فرمایا اللہ تعالیٰ محسنین یعنی نیکوکاروں کا اجر ضائع نہیں کرتے، اس میں بظاہر محسنین سے مراد وہ لوگ ہیں جو آیات مذکورہ کے احکام امر و نہی کے پابند ہوں، یعنی دین میں استقامت کا مقام ان کو حاصل ہو، حدود شرعیہ کی پوری رعایت کرتے ہوں، ظالموں کے ساتھ دوستی اور بےضرورت تعلق نہ رکھتے ہوں، نماز کو آداب کے ساتھ افضل وقت میں ادا کرنے کے پابند ہوں، تمام احکام دین پر ثابت قدم ہوں۔
اور خلاصہ ان سب کا وہی ہے جو احسان کی تعریف میں خود رسول کریم ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ کی اطاعت و عبادت اس طرح کرو کہ گویا تم اللہ تعالیٰ کو دیکھ رہے ہو یا کم ازکم یہ کہ اللہ تعالیٰ تمہیں دیکھ رہے ہیں، جب انسان کو حق تعالیٰ کی ذات وصفات کے یقین کا یہ درجہ حاصل ہوجائے تو اس کے تمام اقوال و افعال خود بخود درست ہوجاتے ہیں، علماء سلف میں تین کلمے ایسے معروف تھے جو باہم ایک دوسرے کو لکھا کرتے تھے، وہ یاد رکھنے کے قابل ہیں۔ اول یہ کہ جو شخص آخرت کیلئے کام میں مشغول ہوجاتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے دنیا کے کاموں کو خود بخود درست فرما دیتے ہیں اور ان کی ذمہ داری خود لے لیتے ہیں۔ دوسرے یہ کہ جو شخص اپنی باطنی حالت کو درست کرلے کہ قلب کا رخ سب سے ہٹا کر اللہ تعالیٰ کی طرف پھیر دے تو اللہ تعالیٰ اس کی ظاہری حالت کو خود بخود درست فرما دیتے ہیں۔ تیسرے یہ کہ جو شخص اللہ تعالیٰ کے ساتھ اپنے معاملہ کو صحیح و درست کرلے تو اللہ تعالیٰ اس کے اور تمام لوگوں کے درمیان کے معاملات کو خود درست فرما دیتے ہیں، اصل عبارت ان تین کلمات کی یہ ہےوکان اھل الخبر یکتب بعضھم الی بعض بثلاث کلمت، من عمل لاخرتہ کفاہ اللہ امر دنیاہ، ومن اصلح سریرتہ اصلح اللہ علانیتہ ومن اصلح فیما بینہ وبین اللہ اصلح اللہ ما بینہ و بین الناس۔ (تفسیر روح البیان 131 ج 2)۔
Top