Maarif-ul-Quran - Hud : 31
وَ لَاۤ اَقُوْلُ لَكُمْ عِنْدِیْ خَزَآئِنُ اللّٰهِ وَ لَاۤ اَعْلَمُ الْغَیْبَ وَ لَاۤ اَقُوْلُ اِنِّیْ مَلَكٌ وَّ لَاۤ اَقُوْلُ لِلَّذِیْنَ تَزْدَرِیْۤ اَعْیُنُكُمْ لَنْ یُّؤْتِیَهُمُ اللّٰهُ خَیْرًا١ؕ اَللّٰهُ اَعْلَمُ بِمَا فِیْۤ اَنْفُسِهِمْ١ۖۚ اِنِّیْۤ اِذًا لَّمِنَ الظّٰلِمِیْنَ
وَ : اور لَآ اَقُوْلُ : میں نہیں کہتا لَكُمْ : تمہیں عِنْدِيْ : میرے پاس خَزَآئِنُ اللّٰهِ : اللہ کے خزانے وَ : اور لَآ اَعْلَمُ : میں نہیں جانتا الْغَيْبَ : غیب وَ : اور لَآ اَقُوْلُ : میں نہیں کہتا اِنِّىْ : کہ میں مَلَكٌ : فرشتہ وَّ : اور لَآ اَقُوْلُ : میں نہیں کہتا لِلَّذِيْنَ : ان لوگوں کو جنہیں تَزْدَرِيْٓ : حقیر سمجھتی ہیں اَعْيُنُكُمْ : تمہاری آنکھیں لَنْ يُّؤْتِيَهُمُ : ہرگز نہ دے گا انہیں اللّٰهُ : اللہ خَيْرًا : کوئی بھلائی اَللّٰهُ : اللہ اَعْلَمُ : خوب جانتا ہے بِمَا : جو کچھ فِيْٓ اَنْفُسِهِمْ : ان کے دلوں میں اِنِّىْٓ : بیشک میں اِذًا : اس وقت لَّمِنَ الظّٰلِمِيْنَ : البتہ ظالموں سے
اور میں نہیں کہتا تم کو کہ میرے پاس ہیں خزانے اللہ کے اور نہ میں خبر رکھوں غیب کی اور نہ کہوں کہ میں فرشتہ ہوں اور نہ کہوں گا کہ جو لوگ تمہاری آنکھ میں حقیر ہیں نہ دے گا ان کو اللہ بھلائی، اللہ خوب جانتا ہے جو کچھ ان کے جی میں ہے یہ کہوں تو میں بےانصاف ہوں،
پانچویں آیت میں حضرت نوح ؑ کی وہ تقریر نقل کی گئی ہے جو انہوں نے اپنی قوم کے سب اعتراضات سننے کے بعد ان کو کچھ اصول ہدایات دینے کے لئے ارشاد فرمائی، جس میں بتلایا گیا ہے کہ نبوت و رسالت کیلئے وہ چیزیں ضروری نہیں جو تم نے سمجھ رکھی ہیں۔
مثلاً پہلے فرمایا (آیت) وَلَآ اَقُوْلُ لَكُمْ عِنْدِيْ خَزَاۗىِٕنُ اللّٰهِ ، یعنی میں تم سے یہ نہیں کہتا کہ اللہ کے خزانے میرے ہاتھ میں ہیں، اس میں ان لوگوں کے اس خیال کی تردید ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے رسول ہو کر آئے ہیں تو ان کے ہاتھ میں خزانے ہونے چاہئیں جن سے لوگوں کو داد و دہش کرتے رہیں، نوح ؑ نے بتلایا کہ انبیاء کی بعثت کا یہ مقصد نہیں ہوتا کہ وہ لوگوں کو متاع دنیا میں الجھائیں، اس لئے خزانوں سے ان کا کیا کام۔
اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس میں ان لوگوں کے اس خیال کی تردید ہو جو بعض لوگ سمجھا کرتے ہیں کہ اللہ نے انبیاء کو بلکہ اولیاء کو بھی مکمل اختیارات دے دیئے ہیں، اللہ کی قدرت کے خزانے ان کے ہاتھ میں ہوتے ہیں جس کو چاہیں دیں جس کو چاہیں نہ دیں تو نوح ؑ کے اس ارشاد سے واضح ہوگیا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کے خزانوں کا مکمل اختیار کسی نبی کو بھی سپرد نہیں کیا، اولیاء کا تو کیا ذکر ہے، البتہ اللہ تعالیٰ ان کی دعائیں اور خواہشیں اپنی قدرت سے پوری فرماتے ہیں۔
دوسرے فرمایا (آیت) وَلَآ اَعْلَمُ الْغَيْبَ ، ان جاہلوں کا یہ بھی خیال تھا کہ جو شخص خدا تعالیٰ کا رسول ہو وہ عالم الغیب بھی ہونا چاہئے، اس جملہ میں واضح کردیا کہ نبوت و رسالت علم غیب کی مقتضی نہیں اور کیسے ہوتی جبکہ علم غیب حق تعالیٰ کی خصوصی صفت ہے جس میں کوئی نبی یا فرشتہ شریک نہیں ہوسکتا، ہاں اللہ تعالیٰ اپنے پیغمبروں میں سے جس کو چاہتے ہیں جتنا چاہتے ہیں غیب کے اسرار پر مطلع کردیتے ہیں مگر اس کی وجہ سے ان کو عالم الغیب کہنا درست نہیں ہوتا کیونکہ ان کے اختیار میں نہیں ہوتا کہ جس غیب کو چاہیں معلوم کرلیں۔
تیسری بات یہ فرمائی (آیت) وَلَآ اَقُوْلُ اِنِّىْ مَلَكٌ، یعنی میں تم سے یہ بھی نہیں کہتا کہ میں فرشتہ ہوں، اس میں ان کے اس خیال کی تردید ہوگئی کہ رسول کوئی فرشتہ ہونا چاہئے۔
Top